• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علمِ سیاسیات اور بین الاقوامی امور سے تھوڑی سی بھی دل چسپی رکھنے والا فرد بھارت کی جانب سے بھونڈے الزامات لگاکر پاکستان پر حملہ کردینے کے فیصلے کو سوائے حیرت سے دیکھنے اور اسے انتہائی غیر دانش مندانہ قرار دینے کے اور کچھ نہیں کرسکتا۔یہ ہی وجہ ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ خود بھارت میں اوردنیا بھر میں بھارت کے اس عمل کو بہت غیر دانش مندانہ قرار دیا جارہا ہے۔

دنیا بھر میں لوگ سوال کررہے ہیں کہ آخر کس بنیاد پربھارت نے ایک جوہری طاقت اور دنیا کی صفِ اوّل کی فوج رکھنے والے ممالک میں سے ایک ملک پر میزائلوں سے حملہ کرکے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ اس کا جواب نہیں دے گا؟

بین الاقوامی امور اور خِطّے کی تاریخ اور سیاست پر نظر رکھنے والے افرادیہ جانتےتھےکہ پاکستان اپنی بقا، سلامتی ،خِطّے اور دنیا میں اپنی سیاسی ساکھ برقرار رکھنے اور مستقبل کے خطرات سے تحفظ کے لیے یقینا بھارت کو سخت جواب دے گا۔ کیوں کہ اگر پاکستان کسی بھی وجہ سے ایسا نہیں کرتا تو اس کے جوہری بم اور دنیا کی صفِ اوّل کی فوج رکھنے کا کیا جواز رہ جاتا،ریاستِ پاکستان اپنے شہریوں کو کیسے مطمئن کرتی اور خِطّے میں طاقت کے توازن میں اتنے شدید بگاڑ سے پیدا ہونے والے منفی اثرات سے متقبل میں وہ کیسے نمٹ پاتی؟

اگر پاکستان بھارت کو سخت جواب نہ دیتا تو یہ بچّوں کا کھیل بن جاتاجس میں بچّے کسی بھی ساتھی کے سر پر چپت مار کر بھاگ جاتے ہیں۔ نہ جانے بھارت کو اتنی سادہ سی بات کیوں سمجھ میں نہیں آسکی۔ شاید مودی اور ان کے پالیسی وضح کرنے والوں نے اسے بچّوں کا کھیل ہی سمجھا تھا۔

بھارت کے اندراور پوری دنیا میں بہت سے افراد اب اس ضمن میں بات کرتے نظر آتے ہیں کہ نریندر مودی نے پہل گام کے واقعے کے بعد بھارت میں جو جنگی جنون پیدا کیااور اس کے بعد پاکستان پر حملہ آور ہوئے اس نے بھارت اوربھارتی قوم کو جو سیاسی، عالمی اور مالیاتی نقصان پہنچایا ہے، اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ مودی جی کو اس مہم جوئی کی کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی اور خود ان کی سیاسی ساکھ اور مستقبل کی سیاست پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ 

تجزیہ نگاروں کے مطابق انہیں اس کا کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا ہے،کیوں کہ اب وہاںاس مہم جوئی میں استعمال اور پھر تباہ ہونے والے رفال طیاروں کی خریداری میں مبینہ بدعنوانیوں کا پنڈورا بکس کھل چکا ہے،جو اس سلسلے کی صرف ایک کڑی ہے۔

کانگریس کے سینئر راہ نماوں رندیپ سنگھ سرجیوالا اور سنجے نروپم نے حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ رافیل ڈیل میں تقریباً 41ہزار کروڑ روپے کی کرپشن کی گئی ہے، اور آج تک اس سودے کی اصل قیمت عوام کو نہیں بتائی گئی۔ انہوں نے مزید الزام لگایا کہ اس ڈیل میں مودی کے قریبی ساتھی انیل امبانی کو ناجائز فائدہ دیا گیا اور فرانس کی حکومت پر بھارت کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا۔ 

کانگریس کےایک اور سینئر رہنما، وجے واڈیٹیوار نے حکومت پر سوالات کی بوچھاڑ کردی ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ آپریشن سندور میں ہونے والے نقصانات اور خرچ پر وضاحت دی جائے، پاکستان نے15ہزار روپے کے 5,000 چینی ساختہ ڈرونز بھیجے جنہیں مار گرانے کے لیے بھارت نے 15 لاکھ روپے کے میزائل استعمال کیے۔بھارتی سیاست داں نےکہا کہ حکومت کو بتاناچاہیےکہ آیا کوئی رافیل طیارہ گرایا گیا ہے یا نہیں، کتنے فوجی زخمی ہوئے یا مارےگئے اور امریکا کے کہنے پر جنگ بندی کیوں کی گئی؟ عوام حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کے جوابی وارکے بعد سے نریندر مودی سے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور چند یوم قبل بھارت کے شہر کو لکتہ میں ہزاروں افراد نے مودی سرکار کے جنگی جنون کے خلاف مظاہرہ کیا اورانتہا پسندوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ مظاہرین نے حکومت سے نفرت کی سیاست بند کرنے اور پاکستان سے سفارت کاری کے ذریعے تمام مسائل حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ 

جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں نکلنے والوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کارکنوں نے حملہ کیا، مظاہرین کو دھکے دیے، مار پیٹ کی اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ واضح رہے کہ چند یوم قبل ہونے والےاس احتجاج کی کال بھارت کی کمیونسٹ جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی جانب سے دی گئی تھی۔

نریندر مودی کی مہم جوئی کے بعد۔۔۔

لیکن، یہ تو مودی جی کی مہم جوئی کے نتائج کا صرف ایک اور چھوٹاسا پہلو ہے۔ اس سے بڑے معاملات اور سوالات بھی موجود ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ شدّت سے سامنے آئیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس مہم جوئی کے بعد:

٭ آنے والے دنوں میں بھارت کی سیاسی بساط پر بے جی پی کوبڑا دھچکا لگ سکتا ہے،خصوصا ریاست بہار کے انتخابات میں۔

٭ مودی کی سیاسی حیثیت کم زور ہوگئی ہے۔

٭ آئندہ مودی اور آنے والی حکومتیں پاکستان کے خلاف کسی بھی مہم جوئی سے پہلے سو با رسوچیں گی۔

٭ بھارت میں اب بے جے پی اور شیو سینا کی مسلمانوں سے نفرت اور پاکستان مخالف سیاست پہلے جیسی نہیں رہے گی۔

٭ کانگریس آئندہ انتخابات میں بے جے پی کے خلاف جنگ میں شکست اور بھارت کی حفاظت میں ناکامی کا بیانیہ بناکر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی ہے۔

٭ ساری دنیا میں بھارت کا طاقت ور ملک ہونے اور ٹیکنالوجی میں پاکستان سے آگے ہونے کا تاثر بری طرح متاثر ہوا ہے۔

٭ اس کے بڑی فوجی طاقت ہونے کا بیانیہ بھی دنیا بھر میں پٹ گیا ہے۔

٭ چین کے مقابلے میں اس کے کھڑا ہونے اور مقابلہ کرنے کی طاقت کا بیانیہ بھی پٹ گیا ہے۔ حالاں کہ اس واقعے میں چین بہ راہ راست بھارت کے سامنے نہیں تھا اور نہ ہی اس کے ریاستی، بڑے اور اسٹریٹجک ہتھیار بھارت کے خلاف استعمال ہوئے۔

٭ آذربائیجان،ترکی اور چین کھل کر اس جنگ میں پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر آئے اور ایران اورسعودی عرب نے ثالث کا کردار اداکرنے کی کافی کوشش کی۔

٭ روس جو کسی زمانے میں بھارت کا اسٹریٹجک پارٹنر اور اسے اسلحے کا سب سے بڑا سپلائر تھا اور اس کا بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ تھا، اس جنگ میں بھارت کا حمایتی بن کر سامنے نہیں آیا۔

٭ خِطّے اور دنیا کویہ پیغام ملاکہ پاکستان مشکل اقتصادی حالات سے گزرنےکے باوجود کوئی ایرا غیرا ملک نہیں ہے۔ اس کے پاس بھی عالی دماغ سیاسی اور فوجی قیادت ہے جو مشکل ترین حالات میں بھی صبر وتحمل اور بہت دانش مندی کے ساتھ سیاسی اور عسکری فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

٭ دنیا پر یہ واضح ہوا کہ پاکستان جوہری طاقت رکھنے کا پوری طرح اہل اور اسی طرح ذمے دار ملک ہے جس طرح دیگر جوہری طاقت رکھنے والے ممالک ہیں۔

٭ دنیا کو یہ پیغام ملا کہ صرف کسی سپر پاور کی دوستی ہی کسی ملک کے لیے سب کچھ نہیں ہوتی بلکہ آج کی دنیا میں پاکستان کی طرح بین الاقوامی تعلقات میں دیگر آپشنز کے دروازے کھلے رکھ کر اور دانش مندانہ فیصلے کرکے بھی قومیں مشکل حالات میں اپنا وجود کام یابی سے برقرار رکھ سکتی ہیں۔

٭ دنیا نے یہ جاناکہ چین اپنے دوست ممالک کو مشکل حالات میں دھوکا نہیں دیتا اوراور وہ آج کی دنیا کے پے چیدہ بین الاقوامی تعلقات میں خود اور اپنے دوست ممالک کو محفوظ انداز میں آگے لے کر چلنے کی کام یاب حکمت عملی، صلاحیت اور طاقت رکھتا ہے۔

٭ماضی میں کشمیر کے مسئلے پر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت جس نے بھی ثالثی کی پیش کش کی،بھارت نے اسے نہایت حقارت سے ٹھکراتے ہوئے یہ مؤقف اپنائے رکھا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کا دو طرفہ معاملہ ہے، لیکن اب وہ امریکی صدر کی جانب سے ایسی پیش کش پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے، جو دراصل اس کی رضامندی کا اشارہ ہے۔بھارتی حکومت اس بارے میں اس لیے کھل کر بات نہیں کررہی کہ اس سے اس کے سیاسی بیانیے کو زبردست دھچکا لگے گا۔

دراصل امریکی ثالثی نے مودی سرکارکے لیے نئی پریشانی کھڑی کردی ہے۔ اسے خطرہ ہے کہ اگر ٹرمپ انتظامیہ نےاس معاملے میں مداخلت کی تویہ مودی حکومت کے لیے ایک اور سفارتی شکست ہوگی، کیوں کہ امریکی ثالثی سے جنگ بندی کی خبروں نے مودی سرکار کے لیے پہلے ہی نئی پریشانی کھڑی کی ہوئی ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی نائب صدر کے ذریعےبھارت نے سیز فائر کی درخواست کی تھی۔

اُدہر ٹرمپ بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ دونوں ممالک کو ایک سطح پر دیکھتے ہیں۔ اس طرزِعمل سے بھارت ناخوش ہے، بھارتی سیاست داں اسے عالمی سطح پر بھارت کا بہت بڑا سیاسی نقصان قرار دے رہے اور اس کے لیے اپنے وزیر اعظم کو ’’دوشی‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ اگرچہ پہلے وہ انکاری تھے، مگر اب بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے بھی پاک بھارت کشیدگی کم کروانے میں امریکی کردارکو تسلیم کرلیا ہے۔ 

اُدہر امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی میں کمی اور جنگ بندی کا کریڈٹ امریکا کی شمولیت اور معاونت کو جاتا ہے اور اب دونوں ممالک کے دیرینہ تنازعات کے حل کا نیا موقع سامنے آیا ہے۔ ترجمان نے واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ اگرچہ ماضی میں کئی بار یہ تنازعات حل نہیں ہوسکے، لیکن اب امید کی ایک نئی کرن نظر آ رہی ہے۔

اندرونی سیاسی دباو اور نقصان

پہل گام میں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد سے 10مئی کو جنگ بندی تک بھارت کے وزیر اعظم کو جس تناؤ کا سامنا تھا اب وہ داخلی اور خارجی سطح پر شدید دباؤ کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اندرونی سطح پر اس کا اندازہ لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کی جانب سے لگائے گئے الزامات اور اٹھائے جانے والے سوالات سے لگایا جاسکتا ہے۔ 

انہوں نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں بھارتی وزیر خارجہ جے شنکرسے یہ سوال بھی کیا ہے کہ آپریشن سندور میں بھارتی فضائیہ کتنے طیاروں سے محروم ہو گئی ہے اور دیس کو کتنا نقصان ہواہے؟ اسی طرح حزبِ اختلاف کے دیگر راہ نما بھی اب مودی جی سے آپریشن سندور کے بارے میں ایسے سوالات تسلسل کے ساتھ کررہے ہیں، جو ان کے لیے بہت پریشان کن ہیں کیوں کہ ان کا جواب دینے سے بی جے پی کی حکومت، جو پہلے ہی شدید داخلی اور بیرونی دباو کا شکار ہے، اسے اندرون اور بیرون ملک مزیدہزیمت اٹھانا پڑے گی۔

یہ ہی وجہ ہے کہ مودی سرکار ان سوالات کا جواب دینے سے کترارہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کب تک کرے گی، آخر کسی روز تو اسے ان سوالات کا جواب دینا ہی ہوگا اور جس روز ایسا ہوگا اس روز مودی سرکار گھٹنوں پر آجائے گی۔

گُھس کر مارنے کے بیانیے کی عالمی سطح پر شکست 

گزشتہ برس بھارت کے انتخابات کے دوران اور 2019 کے انتخابات کی مہم کے دوران بھی نریندر مودی نے بھارت میں دہشت گردی کے الزامات پاکستان پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم دشمن کے گھر میں گھس کے اُسے ماریں گے۔ رواں ماہ پاکستان کی جانب سے جب بھارتی حملے کا منہ توڑ جواب دیا گیا تب سے مودی جی یہ جملہ بھول گئے ہیں۔

اس مرتبہ پاکستان نے اپنی ہر طرح کی حکمت عملی اور ردعمل سے نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کو حیران کردیا ہے۔ اس مرتبہ پاکستان نے صرف ردِعمل نہیں دیا بلکہ اپنی عسکری قابلیت، ٹیکنالوجی اور حکمت عملی کی بنیاد پر فعال دفاع کی نئی جہت بھی متعارف کرائی۔

انتہائی کشیدہ ماحول میں پاکستان نے جس انداز سے عالمی برادری کو متحرک کیا، وہ بلاشبہ ایک سفارتی کام یابی تھی۔ اقوام متحدہ،او آئی سی، چین، ترکی، ایران، آذربائیجان اور روس سے فوری رابطے اور اپنے موقف کی وضاحت نے دنیا کے سامنے بھارت کی جارحیت کو بے نقاب کیا۔ 

پاکستان نے ایک طرف امن کا پیغام دیا تو دوسری جانب یہ واضح کر دیا کہ قومی خودمختاری پر کسی قسم کا سمجھوتا ممکن نہیں۔ اس کے برعکس بھارت کو عالمی سطح پر خاصی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ مودی حکومت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی، سفارتی بائیکاٹ اور فضائی حدود کی بندش جیسے اقدامات نے بھارت کو ایک غیر ذمے دار جوہری ریاست کے طور پر پیش کیاجو دنیا کے امن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ 

پاکستان نے اپنی عسکری حکمت عملی میں فوری جوابی کارروائی سے گریز کیا اور صرف عسکری اہداف کو نشانہ بنایا جو اس کے ذمے دار ریاست ہونے کی عکاسی کرتاہے۔ اس کے برعکس بھارت کے حملوں میں عام شہری، عبادت گاہیں اور اسکول متاثر ہوئے۔ 

دوسری جانب امریکی دفاعی تجزیہ کار کرسٹین فیئر نے پاکستان کے طیارے مار گرانے کے بھارتی دعوے کو بکواس اور بھارتی دفاعی تجزیہ کار پراوین سواہنی نے آپریشن سندور کو بھارتی افواج کی ناکامی اور مودی کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے 5 بھارتی طیارے گرانے کے بیان پر بھارت کی جانب سے کوئی جواب نہ آنے کو دنیا نے دیکھا ہے اور بھارت کی ساکھ بہ طور ریاست اور عسکری سطح پر بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ پراوین سواہنی کا کہناہے کہ مودی کا مضبوط لیڈر ہونے کا امیج ختم ہونے سے بھارتی عوام کو دھچکا لگا ہے، بھارتی میڈیا کے سرکس سے دنیا میں تماشہ بنا، انفارمیشن وار فیئر میں بھی بھارت کی ناکامی ہوئی۔

اسی طرح ایک بھارتی اخبارمیں شایع ہونے والے مضمون میں کہا گیا ہے کہ آپریشن سندور کے دوران بھارت کو کسی پڑوسی ملک کی حمایت حاصل نہ ہوسکی، یورپی یونین کے ساتھ بھارت کی سفارتی کشیدگی ظاہر ہوگئی، روس کی بے رخی نےبھی بھارت کی خارجہ پالیسی کی کم زوریوں کو بے نقاب کر دیا۔ مضمون میں کہا گیا کہ امریکی ثالثی کے بعد بھارت کی قیادت مایوسی اور انکار کی کیفیت میں مبتلا ہےاور آپریشن سندور کی قانونی حیثیت پر بھی عالمی سطح پر شکوک و شبہات ابھر رہے ہیں۔

نئی روایات اور نئی حقیقتیں

اس مرتبہ ابلاغ کے شعبے میں بھی نئی روایات قائم ہوئیں۔ ماضی کے برعکس، جب عالمی ذرایع ابلاغ بھارت کے موقف پر زیادہ توجہ دیتے تھے، اس مرتبہ انہوں نے پاکستان کے موقف کو سنجیدگی سےسُنا اور پیش کیا۔ پاکستان کے تجزیہ کاروں اور حکومتی نمائندوں نے سفارتی زبان میں، ثبوتوں اور بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے دنیا کو قائل کیا کہ یہ تنازع بھارت کی جانب سے پیدا کردہ ہے۔ 

نریندر مودی ایک متنازع سیاست داں ہیں اور بین الاقوامی سطح پر سوالیہ نشان بن چکے ہیں، ان کی قیادت میں بھارت میں مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف پالیسیوں میں شدت آئی ہے، 2002کے گجرات کے فسادات سے لے کر مقبوضہ کشمیر سے متعلق آرٹیکل370 کی منسوخی، شہریت کے ترمیمی قانون اور حالیہ عسکری مہمات تک مودی کی پالیسیز میں انتہا پسندی، جارحیت اور اندرونی سیاسی فائدے کا عنصر غالب رہا ہے۔

نریندر مودی اپنے بچھائے ہوئے جس جال میں اندرون اور بیرونِ ملک بری طرح پھنس چکے ہیں، اب اس سے نکلنے کے لیے پھر جھوٹ اوربے بنیاد باتوں کا سہارا لینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ حالاں کہ خود ان کے ملک کے بعض سلجھے ہوئے اور دیانت دار تجزیہ کار یہ قبول کررہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے دور میں مودی جی کی عقل سے عاری حکمتِ عملیوں کے سبب پاکستان نے عسکری، سفارتی اور اخلاقی برتری حاصل کر لی ہے جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں بھارت کے ایک طاقت ور ملک ہونےکےخیال کو سخت دھچکا لگا ہے جو خِطّے میں طاقت کے توازن میں ممکنہ تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

در حقیقت حالیہ واقعات کے بعدعالمی برادری یہ نئی حقیقت تسلیم کرنے پر مجبورہے کہ جنوبی ایشیا میں امن، ترقی اور استحکام کے لیے ازحد ضروری ہے کہ بھارت اپنی توسیع پسندانہ اور جارحانہ پالیسیزپر نظرِ ثانی کرے اور پاکستان کے ساتھ مساوی بنیاد پر، عزت اور سنجیدگی سے تعلقات قائم کرے۔

دوسری جانب یہ حقیقت ہے کہ جوہری طاقت رکھنے والے دو ممالک کے درمیان انتہا درجے کے کشیدہ ماحول میں پاکستان نے ہر سطح پر جو حکمتِ عملی اختیار کی اس نے خِطّے اور دنیا بھر میں اس کی روایتی تصویر اور کردار کو بدل دیا ہے جو خِطّے اور عالمی سیاست میں ہمارے لیے نئی جہتوں کے دروازے کھول سکتا ہے۔

یہ کوئی معمولی تبدیلی نہیں ہے،اگر ہم اس ضمن میں مزید سنجیدہ کوششیں کریں تو ایک ممکنہ نئے جغرافیائی منظرنامے میں اہم مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ جہاں طاقت صرف عسکری قوت نہیں بلکہ سفارتی فہم، اخلاقی برتری اور سٹریٹجک توازن پر مبنی ہو گی۔

مالی نقصانات

ان جھڑپوں میں بھارت کو کافی مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے جس میں عسکری نقصان ایک جانب اور اقتصادی نقصان دوسری جانب ہے۔ بھارت کی جانب سے حتمی طور پر حالیہ لڑائی پر ہونے والے اخراجات کا تخمینہ تو نہیں لگایا گیاہے، لیکن کہا گیا ہے کہ کارگل کی لڑائی کے دوران اس کا ہر روز کا خرچ 14.6ارب روپے اور پاکستان کا3.7ارب روپے تھا، جو اب کئی گنا بڑھ چکا ہے۔

دوسری جانب ممتاز عالمی ذرایع ابلاغ، مثلا بلوم برگ، امریکی مالیاتی انٹیلی جنس ایجنسیز، بھارتی معیشت دانوں، سابق سکیورٹی اہل کاروں اور عالمی خطرات کا تجزیہ کرنے والی مشاورتی کمپنیز کے ماہرین نے پاک بھارت،حالیہ مختصر مگر اہم جنگ کے دوران واضح کیا کہ اگر یہ تنازع طول پکڑتا تو پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو کہیں زیادہ اقتصادی نقصان برداشت کرنا پڑتا۔

اُدہر بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق جنگ کے ابتدائی 48گھنٹوں میں بھارتی سرمایہ کاروں کو اسٹاک مارکیٹس میں اُتار کی وجہ سے 83 ارب ڈالرز (تقریباً 23.5 کھرب پاکستانی روپے) کا نقصان اٹھانا پڑا،جو 4.19کھرب ڈالرز کی معیشت کے لیے بڑا دھچکا تھا دوسری جانب امریکی مالیاتی ادارے اسٹینڈرڈ اینڈ پوورز (S&P) نے خبردار کیا کہ ایک طویل جنگ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی بھارت میں سرمایہ کاری اور سپلائی چین کی منتقلی کے منصوبوں کو پے چیدہ بنا سکتی ہے۔

پاکستان کے منہ توڑجواب کے بعد بھارتی خزانے کو جھٹکا لگنے کی ایک اور پیش رفت میں مودی سرکار نے جنگی جنون کو برقراررکھتے ہوئے اسلحے کا ڈھیر لگانا شروع کر دیا ہے اور ہنگامی خریداری کے لیے فوج کو اختیارات کی منظوری دے دی ہےجس کے تحت 40ہزار کروڑ روپے کا دفاعی سازوسامان خریدا جاسکے گا۔

حالیہ کشیدگی کے دوران دونوں ممالک نےایک دوسرے کے تجارتی اور فوجی طیاروں کے لیے اپنی فصائی حدود بند کیں جس میں چوبیس جون تک توسیع کردی گئی ہے۔2019کے برعکس اس مرتبہ صرف انڈین ایئر لائنز پر پابندی لگائی گئی ہے جس سے پاکستان کو بہت کم نقصان ہونے کے امکانات ہیں۔

اگر جہاز ایک گھنٹہ پرواز کرے تو تقریباً پانچ سے سات ہزار ڈالرز کا فیول خرچ ہوتا ہے۔ یوں ایک اندازے کے مطابق ایک فلائٹ سے بھارت کو تقریباً 10ہزار ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اوسطاً80 سے 100فلائٹس روزانہ پاکستان سے گزرتی ہیں۔ 

اس حساب سے اوسطاً 10لاکھ ڈالرز کا یومیہ نقصان ہو سکتا ہے۔اس کے مقابلے میں پاکستان کو ایک فلائٹ کی مد میں تقریباً ایک ہزار ڈالرز تک نقصان ہو سکتا ہے۔ لیکن بھارت کا نقصان تقریباً نو گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے بھارتی ائیر لائنز کو ایک ماہ میں 800 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔