• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسئلہ کشمیر1947ء سے اب تک تقریباً 78سال کی طویل مدت میں نشیب و فراز کی ایک بڑی جاںگسل کیفیت سے دوچار چلا آرہا ہے۔ چشمِ زدن میں ابھر آتا ہے۔ اس نشیب و فراز میں نہ نشیب کو مستقل حیثیت حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی فراز کوکسی دائمی سرفرازی سے ہمکنار ہونے کا موقع ملتا ہے۔

تعطل کے طویل دورانیے آتے ہیں، پھر ایک نقطۂ اشتعال(Flashpoint)ابھر آتا ہے، دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے آجاتی ہیں، جنوبی ایشیا پر ایک نئی جنگ کے سائے منڈلانے لگتے ہیں، کبھی کبھی یہ جنگ حقیقت کا روپ بھی دھار لیتی ہے، دونوں ملکوں کے زرائع ابلاغ کی رگوں میں تازہ لہو دوڑ جاتا ہے، سفارتی سرگرمیاں تیز ہوجاتی ہیں، دوسرے ملکوں کے دارالحکومت جنوبی ایشیا اور بالخصوص کشمیر کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں لیکن اس سارے ابال کے بعد پھر ایک تعطل کا زمانہ آجاتا ہے۔

کیا اس مرتبہ بھی یہی ہوگا؟ گذشتہ ایک ماہ میں جو کچھ کشمیر میں اور اس کے حوالے سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہوا ہے، کیا یہ سرگرمی مسئلۂ کشمیر کوکسی بڑے اور مستقل حل کی طرف لے کر جائے گی یاحالات ایک مرتبہ پھر اسی مقام پر آجائیں گے جہاں 22اپریل 2025 سے پہلے تھے؟

کشمیر کا تنازعہ تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل میں سب سے زیادہ طوالت حاصل کرنے والا اور مشکل ترین مسئلہ ثابت ہوا ہے۔ مسئلۂ کشمیر کی یہ استعماری اساس تو ایک تاریخی حقیقت ہے لیکن گذشتہ 78برسوں میں یہ کن نشیب و فراز سے گزرا ہے، اس کا مختصر جائزہ بھی اس کی مستقل طور پر بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں اور اس کی راہ میں حائل دشواریوں کے ادراک کے لیے بہت ضروری ہے۔

3جون 1947 کو جب وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے ہندوستان کی تقسیم اور دو ڈومینین ریاستوں، پاکستان اور ہندوستان کے قیام کا اعلان کیا، اس وقت ہندوستان کی ساڑھے پانچ سوسے زیادہ نوابی ریاستوں (Princely States)کا فیصلہ ان ریاستوں پر چھوڑ دیا گیا تھا جو ان کو بعد ازاں اپنے محل وقوع اور اپنی آبادیوں کی نوعیت کے اعتبار سے کرنا تھا۔ کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ اپنی ریاست کے پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق پر آمادہ نہیں تھے، بلکہ ان کا خیال تھا کہ کشمیر کو آزاد یا الگ ریاست کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔

14 اور 15 اگست کو تقسیم ہند کے وقت کشمیر نے پاکستان کے ساتھ معاملات کو جوں کا توں رکھنے کا معاہدہ کیا،(standstill agreement)کیا۔ہندوستان نے ایسے کسی معاہدے کے لیے مزید وقت طلب کر لیااس دوران کشمیر کے مختلف علاقوں میں مہاراجہ کے خلاف بغاوت بھی شروع ہو چکی تھی، ہندو مسلم فسادات بھی کشمیر تک پہنچ گئے تھے۔

25 اکتوبر 1947کو دہلی میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی سر براہی میں اجلاس ہوا جس میں بتایا گیا کہ مہاراجہ نے ہندوستان سے فوجی امداد طلب کی ہے۔ اجلاس میں ریاستوں سے متعلق سیکرٹری دی پی مینن کو کشمیر بھیجا گیا تاکہ وہاں کی صورت حال دیکھ کر آئیں۔ مینن نے اگلے دن واپس آکر رپورٹ دی کہ مہاراجہ غیر مشروط طور پر ہندوستان سے الحاق پر آمادہ ہوگئے ہیں۔

ان کی صرف ایک شرط ہے کہ بعد ازاں اس الحاق کی عوام سے منظوری لی جائے۔ 26،27 اکتوبر کو مہاراجہ نے الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے اور ہندوستان کی فوجیں کشمیر میں داخل ہو گئیں۔ بعض تاریخ نویسوں نے اس وقت کی لمحہ بہ لمحہ تفصیلات کا جائزہ لے کر یہ بات لکھی ہے کہ الحاق کی دستاویز پر دستخط ہونے سے قبل ہی ہندوستان کی فو جیں کشمیر میں داخل ہو چکی تھیں۔

بظاہر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کا دروازہ کٹھکھٹانا ضروری ہو چکا ہے۔ ماؤنٹ بیٹن کا خیال تھا کہ اقوام متحدہ میں اس مسئلے کوئی حل نکل آئے گا۔ ماؤنٹ بیٹن ہی کے ایماء پر نہرومسئلۂ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جانے پر رضامند ہوئے۔31 دسمبر کو ہندوستان نے با ضابطہ طور پر سیکورٹی کونسل میں یہ مسئلہ بھجوایا۔ یکم جنوری 1948 کو سلامتی کونسل نے اس مسئلے پر ابتدائی غور و خوض کیا۔ 15 جنوری کوہندوستان اور پاکستان نے کونسل میں اپنا موقف پیش کیا۔

17 جنوری کو سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد نمبر 38 منظور کی جس میں ہندوستان اور پاکستان دونوں کو حالات کو مزید بگاڑنے سے بچانے کے لیے کہا گیا اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی کی کہ اگر حالات میں کوئی بھی بڑی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو اس کی رپورٹ سلامتی کونسل کو دی جائے۔ 20 جنوری کو سلامتی کونسل نے ایک اور قرار داد( قرار داد نمبر 39) منظور کی جس کے تحت مسئلہ کشمیر کا جائزہ لینے کے لیے ایک تین رکنی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ 

اس کا نام یونائیٹڈ نیشنز کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان (UNCIP) رکھا گیا۔ 5جنوری 1949کو UNCIP نے اعلان کیا کہ جموں اور کشمیر کے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ ایک آزاد اور غیر جا نبدار استصواب رائے (plebiscite) کے ذریعے کیا جائیگا۔1950 کے عشرے میں مسئلہ کشمیر ایک طرف اقوام متحدہ کی راہداریوں میں بھٹکتا رہا، جبکہ دوسری طرف خود اس خطے میں ہندوستان کی وہ پالیسیاں ایک بڑے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آگے بڑھتی رہیں جن کا مقصد تدریج کے ساتھ کشمیر پر اپنی عملداری کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا تھا۔

1951 کے ستمبر اور اکتوبر میں مقبوضہ کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے انتخا بات ہوئے ۔ ہندوستان نے اس انتخاب کو استصواب رائے کے متبادل کے طور پر پیش کیا۔ تب سے اب تک ہندوستان ہمیشہ یہ کہتا رہا ہے کہ کشمیر میں ہونے والے انتخابات یہ بتاتے ہیں کہ وہاں کے لوگ اب مزید کسی استصواب رائے کے حق میں نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ نے ہندوستان کے اس موقف کو تسلیم نہیں کیا۔ اس نے اپنی قرارداد نمبر 91 میں واضح کر دیا کہ اس طرح کے انتخابات استصواب رائے کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔

1950کے عشرے کے اوا خراور 1960 کے عشرے میں مسئلہ کشمیر میں مزید جہتوں کا اضافہ ہوا۔ 1949میں چین اور ہندوستان کے اختلافات ابھرے۔ مارچ 1963 میں چین اورپا کستان کے درمیان شمالی علاقہ جات اور سنکیانگ صوبے کے حوالے سے سرحد ی معاہدہ ہوا۔ اسی زمانے میں 1963اور 1964 کے دوران مقبوضہ کشمیر میں احتجاجی سیاست کارجحان پروان چڑھنا شروع ہوا۔ حضرت بل کی درگاہ سے مقدس موئے مبارک کی گمشدگی پر عوامی احتجاج شروع ہوا۔ موئے مبارک تو کچھ دنوں بعد مل گیا مگر احتجاج کی آگ بھڑک چکی تھی۔

ستمبر 1965میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوسری جنگ ہوئی جس کی بنیاد بھی مسئلہ کشمیر ہی بنا۔ ہندوستان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایک مرتبہ پھر سادہ لباس میں اپنے فوجیوں اور قبائلیوں کو اس کے زیر کنٹرول کشمیر میں داخل کیا ہے جن کا مقصداس توسیع پسندی ہے جو ہندوستان کے لیے کسی طور قابل قبول نہیں ہوگی۔ ہندوستان نے کشمیر میں خود پر پڑنے والے دباؤ کو کم کرنے کے لیے پاکستان کی سرحدوں پر حملہ کیا اور یوں وہ سترہ روزہ جنگ شروع ہوئی جس نے دونوں ملکوں کو شدید انسانی اور مالی نقصانات سے دوچار کیا۔ 

سیکورٹی کونسل کی جنگ بندی کی قرارداد کے ذریعے محاذ جنگ سرد پڑا اور پھر سوویت یونین کی مداخلت سے دونوں ملک معاہدہ تاشقند پر آمادہ ہوئے۔ اسی زمانے میں کشمیر میں قومی تحریکوں کا آغاز ہوا۔ امان اللہ خان اور مقبول بٹ نے آزاد کشمیر میں نیشنل لبریشن فرنٹ قائم کیا۔ 1971 میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تیسری جنگ مشرقی پاکستان کے موضوع پر ہوئی۔ اس موقعے پر بھی کشمیر کا محاذ گرم رہا۔ بعد ازاں جولائی 1972 میں معاہدہ ٔ شملہ کے تحت یہ طے پایا کہ مستقبل میں مسئلہ کشمیر کو دو طرفہ بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر کشمیرکا مسئلہ قراردادوں سے قرار دادوں تک اور جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے اجلا سوں سے اجلاسوں تک سفر کر تا رہا مگر اس کے حل کی طرف کوئی بامعنی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ البتہ 1980 اور اس کے بعد کے عشروں میں کشمیر میں داخلی طور پر نت نئے مسائل جنم لیتے رہے اور مختلف عسکری تنظیمیں اس میں ملوث ہوتی چلی گئیں ۔1999میں پاکستان اور ہندوستان کارگل میں آمنے سامنے آ گئے۔ یہ نیم جنگ بھی امریکہ کی مداخلت پر بند ہوئی۔ 

اس دوران پاکستان اورہندوستان میں اعلیٰ سطح پر سلسلۂ جنبانی بھی رہا۔ 2001 میں جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی میں مذاکرات ہوئے۔ 2004میں صدر مشرف کی وزیرا عظم من موہن سنگھ سے نیو یارک میں ملاقات ہوئی۔ ان چند واقعات سے قطع نظر دونوں ملکوں کے درمیان عمومی صورتحال انتہائی کشیدہ رہی۔ ادھر پچھلے چند برسوں سے اس کشیدگی میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہو چکا ہے۔ 

2019میں جب ہندوستان نے آرٹیکل 370 کو اپنے آئین سے حذف کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ واضح پیغام تھا کہ اب ہندوستان کے پیش نظر کشمیر کی کوئی خصوصی حیثیت نہیں ہے بلکہ وہ عملاً ہندوستان کے ایک صوبے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس اقدام کے بعد ہندوستان نے بڑی تیز رفتاری کے ساتھ اپنے زیر کنٹرول کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری کروائی۔ وہاں ہندوستان کے دوسرے صوبوں کے لوگوں کے لیے جائیدادیں بنانے پرجو پابندی تھی وہ اٹھالی گئی اور یوں کشمیر کی داخلی آبادی کا منظر نامہ تیزی سے بدلنا شروع ہوا۔

اس عمومی تاریخی پس منظر میں پہلگام کا حالیہ واقعہ ظہور پذیر ہوا ہے جس نے ایک مرتبہ پھر دونوں ملکوں کو ایک جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ سوال یہ ہے کہ پہلگام سے شروع ہونے والے ہندوستان کے’ ’آپریشن سیندور‘ ‘ اور پاکستان کے ’’آپریشن بُنیان مرصوص‘‘ کے بعد اب مسئلہ کشمیر کہاں کھڑا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان کی ہٹ دھری اپنی جگہ برقرار ہے۔ اب وہ آبی جارحیت کی دھمکی بھی دے رہا ہے۔ حالیہ واقعات کے نتیجے میں مجموعی طورپر اس کو شرمندگی اورہزیمت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے جو اس کو مزید جارحیت کی طرف مائل کرسکتا ہے۔ 

دوسری طرف پاکستان جو 2019میں ہندوستان کے آئین میں سے آرٹیکل 370نکال دیے جانے کے بعد سوائے زبانی احتجاج کے کچھ نہیں کرسکا تھا، اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مسئلہ کشمیر اب مستقل طور پر سردخانے کی نذر ہو چکا ہے، اس کے نقطۂ نظر سے صورتحال میں ایک نوعی تبدیلی یہ آئی ہے کہ یہ مسئلہ ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہوگیا ہے۔

امریکی صدر دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کی کوشش کے خواہاں بھی نظر آتے ہیں۔ بعض دوسرے ممالک بھی اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کرنا چاہیں گے، ان سب خواہشات اور پہل کاریوں کو تو ہندوستان رد کرے گا لیکن عالمی سطح پر جو ایک ماحول بن چکا ہے اس میں کچھ نہ کچھ گنجائش اس چیز کی ضرور موجود رہے گی کہ چونکہ خطے کا امن کئی عالمی طاقتوں اور علاقے کے ملکوں کے نقطۂ نظر سے اہمیت کا حامل ہے لہٰذا اس کے لیے سفارتی کوششوں کا امکان بھی موجود ہے۔ 

یہ پاکستان کے پالیسی سازوں کا بہت بڑا امتحان ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں اپنے دیرینہ مؤقف یا اس کو قابل ِ عمل بنانے کے لیے اس میں کی گئی ترمیم کو روئے کار لانے کے لیے نئے اُبھر آنے والے بین الاقوامی سفارتی ماحول سے کس حد تک فائدہ اُٹھا پاتے ہیں۔