ماریہ منصب
’’پانی روکا تو ہمارے جواب کے نتائج دہائیوں تک محسوس ہوں گے۔ کوئی پاگل ہی 24 کروڑ لوگوں کا پانی روکنے کا سوچ سکتا ہے۔ بھارت میں اتنی ہمت نہیں، وقت آیا تو ہمارے اقدامات دنیا دیکھے گی۔‘‘ ان خیالات کا اظہار پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کیا۔
پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے ’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان 1960ء میں ہوا تھا۔ بھارت کا یہ اقدام نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کی شرائط کے خلاف ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
یہ معاہدہ پاکستان اور بھارت میں پانی کی تقسیم کا ایک ایسا مقرر کردہ فارمولا ہے جس پر طرفین نے اتفاق کیا تھا، تقریباً سات دہائیوں سے اس پر عمل درآمد معاہدے کی تاریخی حیثیت متعین کرتا ہے، گرچہ اس دوران دونوں ملکوں میں تنازعات اور کشیدگی کے نہ جانے کتنے واقعات ہوئے، بھارت کی حکومتوں نے آبی منصوبوں کے نقشوں میں ہیر پھیر کرکے اپے حصّے کے پانی کی مقدار بڑھانے کی کوشش بھی کیں، مگر یہ پہلی بار ہوا ہے کہ بھارت معاہدے کی معطلی کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ یہ معاہدہ، اس خطے میں قیام امن کی ضمانت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے پاس وہ بنیادی ڈھانچہ، صلاحیت یا جغرافیائی امکانات موجود نہیں کہ وہ یکطرفہ طور پر پاکستان کی جانب پانی کے بہاؤ کو روک سکے۔ تاہم، اگر وہ ایسا قدم اٹھانے کی کوشش کرے گا تو اسے مالی، ماحولیاتی، جغرافیائی و سیاسی نتائج کا بھاری بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ عالمی بینک کی ثالثی میں 19 ستمبر 1960 کو بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے فیلڈ مارشل ایوب خان کے درمیان طے پانے والا "سندھ طاس معاہدہ" (Indus Waters Treaty) بھارت کو مشرقی دریاؤں ،ستلج، بیاس اور راوی، جبکہ پاکستان کو مغربی دریاؤں، سندھ، جہلم اور چناب پر مکمل اختیار دیتا ہے۔
یہ معاہدہ عالمی سطح پر پانی کی منصفانہ تقسیم کی ایک مثال کے طور پر جانا جاتا ہے، جو جنگوں اور کشیدگیوں کے باوجود قائم رہا ۔بھارت کے بیانیے کو وہ حقائق بے نقاب کرتے ہیں جنہیں وہ جھٹلا نہیں سکتا۔ معاہدے کے تحت بھارت کو مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) سے محدود استعمال کی اجازت ہے جس میں 1.25 ملین ایکڑ فٹ آبپاشی و گھریلو ضروریات کے لیے، 1.6 ملین ایکڑ فٹ پن بجلی کے لیے اور 0.75 ملین ایکڑ فٹ سیلاب کے کنٹرول کے لیے شامل ہیں۔
مجموعی طور پر بھارت کو 3.6 ملین ایکڑ فٹ ذخیرہ کرنے کی اجازت ہے، تاہم عملی طور پر بھارت نے اس میں سے صرف 0.2 ملین ایکڑ فٹ کا ہی استعمال کیا ہے۔ معاہدے کے تحت بھارت کو جہلم پر 0.5 ملین ایکڑ فٹ ، سندھ پر 0.25 ملین ایکڑ فٹ اور چناب پر 1.7 ملین ایکڑ فٹ تک ذخیرہ کرنے کی اجازت ہے۔لیکن پاکستان کو سالانہ اس کا مکمل حصہ یعنی تقریباً 23 ملین ایکڑ فٹ پانی مل رہا ہے۔
جب بھارت عارضی طور پر پانی کا بہاؤ روکتا یا کم کرتا ہے، تو یہ عام طور پر مرمت کےکام یا موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ٹفٹس یونیورسٹی سے وابستہ پاکستانی ماہرِ شہری و ماحولیاتی پالیسی، حسان ایف خان کے مطابق بھارت "پاکستان کے پانی کے بہاؤ کو روک نہیں سکتا، کم از کم اس پیمانے پر تو ہرگز نہیں جس سے بہاؤ میں کوئی اہم کمی آئے، خاص طور پر اونچے بہاؤ کے موسم (مئی تا ستمبر) میں۔"
اس عرصے میں دریا برف پگھلنے کے سبب اربوں مکعب میٹر پانی لے کر آتے ہیں، اور بھارت کے بالائی علاقوں میں موجود بنیادی ڈھانچہ اتنی بڑی مقدار کو روکنے یا موڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔"بھارت کے موجودہ ڈیم جیسے کہ بگلیہار اور کشن گنگا، "رن آف دی ریور" طرز کے پن بجلی منصوبے ہیں، جن کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت محدود ہے اور یہ پانی کے بہاؤ کو روکنے کے لیے بنائے ہی نہیں گئے۔
اگر بھارت تمام موجودہ ڈیمز سے پانی کے بہاؤ کو مربوط بھی کرے تو وہ زیادہ سے زیادہ بہاؤ کے وقت میں معمولی تبدیلی لا سکتا ہے، مکمل طور پر بہاؤ روک نہیں سکتا۔ ۔ اس سے بھی بدتر، مصنوعی طریقے سے بہاؤ میں خلل ڈالنے کی کوشش بھارت کے اپنے بالائی علاقوں میں سیلاب کا سبب بن سکتا ہے۔ پاکستان کے 2014 سے 2017 تک بھارت میں ہائی کمشنر، عبدالباسط کے مطابق، بھارت کی جانب سے معاہدہ معطل کرنے یا چیلنج کرنے کی باتیں احمقانہ ہیں، کیونکہ اس وقت بھارت کا بنیادی ڈھانچہ اس قابل نہیں ہے۔ بھارت نے جو تعمیرات کی ہیں، وہ زیادہ تر "رن آف دی ریور" نظام پر مبنی ہیں، جو قابلِ ذکر ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں رکھتے۔
جنوبی ایشیا نیٹ ورک آن ڈیمز، ریورز اینڈ پیپلز سے وابستہ ماہرِ آبی وسائل، ہمانشو ٹھاکر کے مطابق یہ بجلی گھر دریا کے بہاؤ کو استعمال کرکے توانائی پیدا کرتے ہیں، نہ کہ بڑے پیمانے پر پانی ذخیرہ کر کے۔ ہر سال بھارت سے پاکستان آنے والا پانی تقریباً 182 مکعب کلومیٹر ہوتا ہے، جن میں سے تقریباً 170 مکعب کلومیٹر سندھ، جہلم اور چناب سے آتا ہے، جو بنیادی طور پر پاکستان کو دیے گئے ہیں۔
معاہدے کے مطابق بھارت کو ان مغربی دریاؤں پر صرف 4.4 مکعب کلومیٹر (3.6 MAF) تک ذخیرہ کرنے کی اجازت ہے جو کل بہاؤ کا نہایت معمولی حصہ ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو بھارت کے پاس نہ تو قانونی اختیار ہے اور نہ ہی صلاحیت کہ وہ اتنی بڑی مقدار میں پانی کو روک سکے یا موڑ سکے، لہٰذا پاکستان کے حصے پر کوئی بڑا اثر ڈالنا تقریباً ناممکن ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بھارت پاکستان کے پانی کو روکنے کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچہ بنا سکتا ہے، تو یہ خیال اربوں ڈالر کےمالی اخراجات کو نظرانداز کرتا ہے۔ نئے ڈیمز اور موڑنے والے نظام بنانے میں نہ صرف اربوں ڈالر لاگت آئے گی بلکہ اس سے بڑے پیمانے پر بے بے دخلی اور ماحولیاتی تباہی بھی ہوگی۔ سندھ کے پانی کو موڑنے کا کوئی منصوبہ مالیاتی لحاظ سے انتہائی بھاری ہوگا۔
اس کے علاوہ، ہمالیائی علاقوں میں تعمیرات کے منفرد چیلنجز ہیں مثلاً زلزلےاور مضبوط انجینئرنگ کے تقاضے جو منصوبوں کی لاگت کو اور بڑھا دیتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر بے دخلی سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی نقصانات اور دیکھ بھال کے اخراجات بھارت پر سالانہ اربوں ڈالر کا اضافی بوجھ ڈال سکتے ہیں، اگر بھارت پاکستان کے خلاف پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے، تو یہ اپنے بالائی ہمسائے چین، کے لیے ایک خطرناک مثال قائم کرے گا۔دریائے سندھ کا منبع تبت میں ہے، اور چین پہلے ہی یارلنگ سانگپو (براہماپترا) پر بڑے ڈیمز تعمیر کر رہا ہے۔
اگر بھارت پانی کی جنگ چھیڑتا ہے، تو بیجنگ کی طرف سے اسی حکمت عملی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو براہما پترا بیسن پر کہیں زیادہ اختیار رکھتا ہے۔ بھارت کی پانی سے متعلق ڈرامہ بازی، اگر اس کے پرجوش بیانیے اور نمائشی لفاظی سے ہٹ کر دیکھی جائے، تو ایک مایوس کن بلف کے سوا کچھ نہیں۔
اس کے پاس نہ تو صلاحیت ہے، نہ بنیادی ڈھانچہ، نہ سیاسی ہم آہنگی اور نہ ہی معاشی طاقت کہ اپنی دھمکیوں پر عمل کر سکے۔ دریں اثنا، پاکستان نہ صرف سندھ طاس معاہدے بلکہ جغرافیہ، انجینئرنگ کی حقیقتوں اور بین الاقوامی قانون کی وجہ سے محفوظ ہے۔ پانی بہتا رہے گا۔
اندیشہ یہ بھی ہے کہ پانی پر ہونے والے تنازعات دریائے سندھ کے طاس تک محدود نہیں رہیں گے۔ جموں و کشمیر کا مسئلہ آٹھ دہائیوں سے حل طلب ہے، اگر بھارت اس کے ساتھ پانی کا تنازع بھی پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کے اس اقدام سے خطے میں امن کا مستقبل غیر یقینی ہوجائے گا۔