پروفیسر خالد اقبال جیلانی
کسی بھی عبادت کے قبول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو وہ مل جائے جس کے لئے اس نے وہ عبادت کی ہے۔ ہم بہت سی عبادات اور دینی مناسک ادا کرتے ہیں جن کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں۔ یہ مقاصد اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ نے طے کیے ہیں۔ مقاصد حج کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے حج کیا اور اس سے دورانِ حج کوئی فحش بات، بدکلامی اور گناہ نہیں ہوا تو وہ (حج کے بعد گناہوں سے پاک ہو کر اپنے گھر اس طرح ) لوٹتا ہے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا‘‘۔ (حدیثِ نبوی ﷺ)
یہ دن، یہ مہینے ، یہ موسم حج کا موسم اور حج کے دن و مہینے ہیں۔ امت محمدیہ کے لاکھوں افراد دنیا کے کونے کونے سے فریضۂ حج کی ادائیگی کے لئے کشاں کشاں حرم کعبہ، شہر مکہ کی جانب رواں دواں ہیں۔ ان زائرینِ حرم کو یہ مقدس سفر اور عظیم عبادت مبارک ہو، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ زائرین حرم، حجاج کرام کو اس سعی میں اپنی تمام تر توجہات مقاصد ِحج اور زیاراتِ کعبہ پر رکھنی ہوں گی۔ اوپر ہم نے بیان کیا کہ حج کرنے والا گناہوں سے ایساپاک ہو جاتا ہے کہ جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
یہی مقاصد حج میں سے سب سے بڑا مقصد ہے۔ ہم جب کسی چھوٹے سے چھوٹے آدمی کی دعوت پر اس کے گھر جا کر مہمان بنتے ہیں تووہ میزبان اپنے مہمانوں سے ملاقات ضرور کرتا ہے او ر واپسی پر وہ اپنے مہمانوں کو کچھ نا کچھ تحائف سے ضرور نوازتا ہے، زائرین حرم آپ اس کائنات کے خالق و مالک تمام انسانوں کے رب اور معبود اللہ جل جلالہ کی دعوت پر اس کے گھر مہمان بننے جارہے ہیں تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ آپ سے ملاقات نہ کرے اور واپسی پر آپ کو کچھ تحائف دے کر واپس نہ لوٹائے، بس، گناہوں سے مغفرت و پاکی، بے حساب اجر و ثواب کے ساتھ وہ آپ کو جنت الفردوس میں داخلے کے تحفے کے ساتھ واپس لوٹائے گا، لیکن یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوگا کہ جب آپ کی نظر اس مقصد پر ہوگی کہ مجھے گناہوں سے پاک ہو کر جنت میں داخلے کے سند کی ساتھ واپس لوٹنا ہے، جب آپ میں جنت کو پانے کی طلب ہوگی اور اس سب کے ساتھ اپنے میزبان، اللہ رب العالمین سے شرف ِ ملاقات و دیدار کا شوق آپ کے اندرموجزن ہوگا۔ حج کی تمام عبادتوں اور مناسک کے مقاصدِ خداوندی اسی وقت حاصل ہوں گے، جب انہیں حاصل کرنے کا آپ عزم وارادہ اور پرخلوص نیت کریں گے۔
حج پر جانے والے بھی جب واپس آتے ہیں ، تو وضع قطع کے حوالے سے بظاہر ان میں کئی تبدیلیاں نظر آتی ہیں ، کہ سر منڈوائے، ہاتھوں میں تسبیح اور سر پر ٹوپی ہے، مخصوص عربی لباس زیب تن ہوتا ہے، رومال کندھے پر ہوتا ہے، لیکن باطن میں فرق نظر نہیں آتا۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے قبولیتِ حج کی علامت یہی بتائی کہ ’’بندہ حج کے بعد اگر ہدایت اور تقویٰ کے راستے پرگامزن رہے تو اس کا حج قبول ہو گیا‘‘۔
اے زائرین حرم ! یہ احرام کا لباس بے مقصد نہیں پہنایا جاتا۔ اللہ تعالیٰ کو سلے ہوئے کپڑوں سے نفرت نہیں اور نہ ہی اس نے سلے کپڑے حرام کئے ہیں۔ سفید رنگ کے بغیر سلے کپڑوں کو پہننا لازمی کرنا کوئی فضول رسم نہیں ہے، بلکہ لاکھوں کے مجمع میں یک رنگی پیدا کر کے یہ باور کرانا اور احساس دلانا ہے کہ تمہارا رنگ ایک ہی ہے، تم سب ’صبغۃاللہ ‘ اللہ کے رنگ میں رنگ دیئے گئے ہو۔
کائنات کے تمام رنگ اللہ کے رنگ ہیں اور دنیا کے رنگ اللہ کے رنگ کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے، تم ان کپڑوں میں ہو، جو قبر میں تمہارے ساتھ جائیں گے۔ یہ کفن ہے گویا تم نے یہ اعلان کردیا ہے کہ ہم اللہ کے حضور حرم کعبہ میں ہی نہیں، حشر کے میدان میں بھی حاضر ہونے کو تیار ہیں۔ یہ دو بن سلے کپڑے فقیرانہ لباس ہیں اور یہ بتارہے ہیں کہ ہم اللہ کے در کے فقیرہیں ۔ یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ دنیا کی زندگی میں مال و متاع کی کثرت بے معنی ہے صرف دو بن سلے کپڑوں میں بھی زندگی گزر سکتی ہے۔
یہ لباس حاجیوں میں قناعت اور کفایت شعاری کی صفت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ لبّیک اللّٰھُمّ لبّیک کی صدائیں یوں ہی بے معنی نہیں لگوائی جاتیں، بلکہ یہ شعور پیدا کرنے کے لئے لگوائی جاتی ہیں کہ جس طرح اللہ کی پکار پر ہم نے آج لبیک کہا ہے، ساری زندگی اسی طرح لبیک کہیں گے۔ اب کبھی حیّ علیٰ الصلوٰۃ کی آواز کو نظر انداز یا سنی ان سنی نہیں کریں گے۔ اب اللہ کے دین کی بقا، سربلندی اور غلبہ کے لیے جب ضرورت ہوگی، تب اپنی جان و مال کے ساتھ حاضر ہوجائیں گے۔
یہ طوافِ کعبہ اسی محبوب کے گھر کا طواف ہے جسے آپ ساری زندگی سجدے کرتے رہے ہیں ۔ اب اس کے گھر کے چکر لگا کر زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ تیرے گھر کے علاوہ کسی کے گھر کا چکر نہیں لگائیں گے۔ اب تیرے در کے علاوہ کہیں نہیں جائیں گے۔ اے محترم زائرینِ حرم اے اللہ کے گھر کا طواف کرنے کے لئے جانے والوں اس مرحلہ پر طواف کی حقیقت بھی جان لیں کہ یہ کیا ہے اور آپ سے کیوں طواف کرایا جا رہا ہے۔
جب اللہ نے حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا اور فرشتوں نے آدم ؑ کے بارے میں یہ توجیہ دی کہ یہ زمین پر فساد برپا کرے گا۔ اللہ نے اس پر فرشتوں کو آدم کو سجدے کرنے کا حکم دیا۔ اور آدم ؑ کو فرشتوں پر برتری عطا کی اس سجدے کے بعد اللہ کی جناب میں لب کشائی کی خطا کے کفارے کے طور پر فرشتوں نے عرش الہٰی پر بیت المعمور کا طواف کیا۔
اللہ کو فرشتوں کی یہ ادابہت پسند آئی اور اللہ نے جبرائیل ؑ کو حکم دیا کہ آدمؑ کو لے کر زمین پر جائیں اور عین بیت المعمور کے نیچے زمین پر ایک ایسا ہی میرا گھر تعمیر کریں اور جب میرے بندے میرے عشق سے سرشار ہوں یا ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو وہ کفارے کے طور پر میرے اس گھر کا طواف کریں۔
یہ ہے طواف کی حقیقت ۔ اس سے بڑھ کر ایک بات یہ کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے جب چاہے جتنی بار چاہے اللہ کے گھر کا طواف کر سکتا ہے لیکن بیت المعمور جس کا ستر ہزار فرشتے روز طواف کرتے ہیں اور ایک بار جو فرشتہ طواف کر لیتا ہے دوبار ہ قیامت تک اس کو اس گھر کا طواف نصیب نہیں ہوگا۔
اے حاجیو! غلاف کعبہ سے لپٹ کر چمٹ کر باب کعبہِ ملتزم کو پکڑ کر رونا اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہماری سنوائی اللہ کے در اور ہمارے اشکوں کی جائے پناہ اور اشک شوئی اللہ کے دامن کے سوا کہیں نہیں ۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی اور دوڑنا اللہ کے راستے میں تگ و دو کے جذبے کو مہمیز دیتی ہے۔
یہ میدان ِ عرفات کا اجتماع جہاں عالمی اخوت کا پیغام دیتا ہے، وہیں روز حشر کا دن یاد دلاتا اور میدان حشر کی منظر کشی کرتا ہے۔ یہ مزدلفہ میں ایک رات کا قیام دنیا کی زندگی کی مہلت عمر کا مظہر ہے یعنی انسان کی زندگی بس ایک رات کی مدت کی مانند ہے۔ شیطان نما ستونوں پر سنگ باری کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے، بلکہ شیطان ، شیطانی قوتوں، شیطانی اعمال سے اظہارِ برأت اور بیزاری کا اعلان ہے۔
اس پر پتھر مار کر ساری دنیا کو بتاتے ہیں کہ اللہ کے باغیوں سے ہمارا کوئی رشتہ ناطہ تعلق نہیں ہے۔ قربانی کا عمل اس بات کا مظہر ہے کہ جانور کے گلے پر چھری پھیرنا اور اپنے سر کو منڈوانا اپنی جان تک کا نذرانہ اللہ کے حضور پیش کرنے کا عہد ہے۔