• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی نے سچ کہا، ’آگ اور پانی‘ ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے۔ اگر آپ اُن کی پوری سیاست پر گہری نظر ڈالیں تو وہ ’خون‘ کے گرد ہی گھومتی ہے جس میں سب سے نہایا خود۔ بھارتی گجرات میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے سے، بی جے پی کی انتہا پسندی کو ایک نیا رُخ دیا اور وہ وزیراعلیٰ سے وزیر اعظم بنادیئے گئے، ورنہ تو اس جماعت میں اٹل بھاری واجبائی جیسے لوگ بھی تھے جنہوں نے نا صرف اپنے ملک میں سیاست کو نیا رُخ دیا بلکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں عملی اقدامات کیے، جس کی سب سے بڑی مثال 1998ءمیں بس سے لاہور آنا اور ’مینار پاکستان ‘ جانا تھا۔’سچ‘ تو یہ بھی ہے کہ اُس بار ہم نے موقعہ گنوادیا۔ 

’’کارگل‘ کے معرکہ کے بعد جب جنرل پرویز مشرف برسر اقتدار آئے، ایک آئینی حکومت کا خاتمہ کرکے تو 2001ء میں واجپائی نے مشرف کو ’آگرہ‘ آنے کی دعوت دی لیکن بات ’تاریخٰ معاہدہ‘ پر پہنچنے سے پہلے ہی بی جے پی کے انتہا پسند وں جس میں سرے فہرست، ایل کے ایڈوانی تھے کی بھینٹ چڑھ گئی اور یہ ابتدا تھی سیاست میں مودی کی اُٹھان کی ،کیونکہ انتہاپسند وںکی رائے میں پاکستان سے امن بی جے پی کی سیاست کی نفی ہوگی مگر واچپائی یہ نہیں سمجھتے تھے اسی لیے انہیں ناکام بنایا گیا۔

جب ’سچ‘ جنگ میں پہلی ’موت‘ ہو تب ہی ’سچ‘ سب سے ضروری ہوتا ہے۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کے آج تک دونوں ملکوں کے درمیان ’اعتماد‘ کیوں بحال نا ہوسکا۔ ایسا نہیں کہ کوششیں نہیں ہوئیں مگر چار جنگوں نے ہر بار صورتحال کو خراب ہی کیا، یہاں تک کہ پاکستان تقسیم ہوگیا۔ 1971ء میں بھارت جنگ جیتا یا ہم جنگ ہارے اِس پر بھی کھلے دل سے ہمیں خود بات کرنی چاہئے ، وہ تو جنگ ہوتی ہی نہیں اگر ہم بنگالیوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کرلیتے۔ ’دہشت گردی‘ تو اِس خطے میں بہت بعد میں آئی، پھر ’کشمیر‘ کا مسئلہ اتنا بھی پیچیدہ نہیں تھا جتنا دونوں ملکوں کے سیاستدانوں  نے بنادیا۔

اب ہمارے یہاں مسائل کچھ اور ہی ہیں ۔کمزور سیاسی نظام کی وجہ سے خارجہ اور سیکورٹی کے معاملات ،سولین کے پاس کم رہے ہیں ،ماسوائے ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں ،دوسری طرف بھارت سے مسلسل جوابی وار ہوتے رہے اور دونوں ملک ’اٹوٹ انگھ‘ اور ’شہ رگ‘ کی بحث میں اُلجھ کر رہ گئے۔ 

بات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تک گئی تو ایک قرارداد کے ذریعہ فیصلہ ہوا کہ جن کا مسئلہ ہے یعنی کشمیریوں کا ،اُن کو رائے کا حق دیا جائے مگر آ ج تک یہ حق ناملا ،پاکستان میں تو خیر زیادہ تر فوجی حکومتیں رہیں لیکن بھارت جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعوی دار ہے، اس قرارداد سے کیوں پیچھے ہٹ گیا۔ میں نہیں کہہ سکتا کے کشمیری (دونوں  طرف کے) پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا نہیں، اتنا آسان سوال اور اُن سے جواب لینے کے لئے ہم 75 سالوں سے لڑرہے ہیں، لاکھوں  کشمیری شہید ہوگئے۔

’’سانحہ‘ مشرقی پاکستان‘‘ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ملک کے صدر اور آئین کی غیر موجودگی اور لیگل فریم ورک آڈر کے خاتمہ کے بعد پہلے سولین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تو ملک غموں، مایوسی میں ڈوبا ہوا تھا۔

بھٹو پر بھی الزمات تھے، فوج کے سربرا ہ جنرل یحیٰ خان اور اُن کے ساتھیوں پر بھی۔ وقت کیسے بدلتا ہے، بنگلادیش بننے کے چند سال بعد اُ س نئے ملک کا بانی اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں مارا جاتا ہے اور آج پچاس سال بعد عوامی لیگ پر پابندی لگادی جاتی ہے۔ مجیب کی بیٹی شیخ حسینہ واجد بھارت میں  جلاوطنی کی زندگی گُزار رہی ہیں۔

بھٹو نے اقتدار میں آنے کے سال بھر میں ہی 1972ء میں  بھارت جانے کا فیصلہ کیا تو پوری پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر شملہ گئے جو اُن کی سیاسی بصیرت کی دلیل تھی ،حالانکہ بھٹو مخالف سیاستدان بہت بھاری بھر کم تھے، خان عبدل ولی خان سے لے کرمولانا مفتی محمود تک۔ یہ وہ وقت تھا جب 1971ء کی جنگ کے نتیجے میں ہمارے 90 ہزار لوگ بشمول فوجی افسران اور جوان اُن کی قید میں تھے۔ 

مغربی پاکستان کا کئی ہزار مربع علاقہ اُن کے قبضہ میں تھا۔ کم اُمید تھی کہ بھٹو کامیاب ہونگے ،مگر آخری لحموں میں دونوں رہنماؤں کے درمیان اچانک ’معاہدہ‘ ہوگیا۔ شاید وہ ایک سنہری موقعہ تھا کہ سب سے متنازع ’مسئلہ کشمیر‘ کے حل کا چاہے وہ شملہ میں نا ہوتا مگر دونوں کے رہتے ہوئے ہوجاتا۔ شملہ سے واپسی پر بھٹو نے پھر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا۔ 

قیدی واپس آگئے، علاقے واپس مل گئے اور اُمید کی نئی راہئیں کھل رہی تھیں کہ بھارت نے ’ایٹمی دھماکےکرکے خطہ کو ایک خوفناک ’نیوکلیئر‘ریس میں لگادیا جو آج تک جاری ہے، گو کہ بھارت نے اسے چین کے تناظر میں دکھانے کی کوشش کی، مگر پاکستان کے خدشات بے وجہ نہیں تھےکیونکہ 1971ء کی جنگ کے بعد پاکستان میں مایوسی تھی۔ 

بھٹو نے جواب میں ’نیوکلیرپروگرام‘ کے آغاز کا اعلان کیا تو اسے ناصرف عسکری حلقوں کی حمایت ملی ،ساتھ  کئی عرب ملکوں خاص طور پر لیبیا، شام، فلسطینوں کی نمائندہ تنظیموں اور خود سعودی عرب کی حمایت ملی۔ یوں یہ خطہ ایک خطرناک صورتحال سے دوچار ہوگیا جس کی ابتدا خود بھارت اور اندرا گاندھی نے کی۔ چند سالوں بعد ہی اندرا کو ملک میں ایمرجنسی لگانی پڑی جبکہ پاکستان میں 1977ء میں مارشل لا لگادیا گیا۔ 

بھٹو نے اس کا الزام امریکہ پر لگایا جو اتنا غلط بھی نہیں تھا کہ اُسے اقتدار سے بے دخل کرنے کی وجہ اُن کا امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو ایٹمی پروگرام ختم کرنے سے ’انکار‘ تھا 4۔؍اپریل ،1979ءکو اندرا گاندھی کو اُ ن کے دو سکھ سیکورٹی گارڈز نے گولی مار کر ہلاک کردیا، جو بظاہر سکھوں کی عبادت گاہ ’گولڈن ٹیمپل‘ میں فوجی آپریشن کا ردِ عمل تھا۔ اس واقعہ نے بھارت میں ہولناک فسادات کو جنم دیا۔ یوں’شملہ معاہدہ، کے دونوں مرکزی کردار راستے سے ہٹادئے گئے۔ 

بھارت میں ماتما گاندھی کے قتل کے بعد یہ سب سے خوفناک واقعہ تھا، جس سے وہاں کی سیاست میں  توازن برقرار نا رہ سکا۔ آنے والے وقت میں ہم نے دیکھا کہ دونوں ملکوں میں 85 کی دہائی میں سیاسی قیادت دو نوجوانوں بے نظیر بھٹو اور راجیوگاندھی کے ہاتھوں میں آئی، اُمید تھی کہ شاید بات ’شملہ معاہدہ‘ سے آگے جائے گی ، دونوں میں بات چیت کا آغاز بھی ہوا ،مگر پھر 21؍مئی 1994ء میں راجیوگاندھی ایک خود کش حملہ میں مارے گئے۔

 اس حملے کی ذمہ داری . سری لنکا کے گروپ شامل ٹائیگرز نے قبول کی، خودکش بمبار ایک خاتون تھی۔ اُس سے پہلے راجیو نے اسلام آباد کا دورہ بھی کیا،بی بی سے بات آگے بڑھی لیکن خود بے نظیر دائیں بازو اور اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی تنقید کا نشانہ بنیں یہاں تک کہ اُس وقت کے وزیر داخلہ چودھری اعتز ازاحسن پر اُن سکھوں کی فہرست بھارت کو دینےکا الزام لگا جو بھارت کو مطلوب تھے۔ 

یوں پاک بھارت تعلقات ایک بار پھر سرد مہری کا شکار ہوگئے مگر اس سب کے باوجود دونوں ملکوں کےلوگ بڑی تعداد میں خاص طور پر منقسم خاندانوں کو ملنے کا موقعہ ملا، آنے جانے کے راستے کھلے، لیکن اندرا اور راجیو کے بعد ’کانگریس‘ کبھی دوبارہ کھڑی ناہو سکی، گو کہ سونیا گاندھی نے اپنے آپ کو منوانے کی بہت کوشش کی مگر ان کےغیر ملکی تشخص کو اپوزیشن اور خود کانگریس کے اندر تنقید کا نشانہ بنا دیا جس بنا پر اُن کے بیٹے راہول گاندھی کو آگے آنا پڑا،حالاں کہ، اندرا گاندھی نے اپنے دوسرے بیٹے سنجے پرزیادہ توجہ دی اور شایدیہ اُن کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی کیونکہ سنجے کا انداز سیاست شدید تنقیدکا نشانہ تھا ،جس کی ایک بڑی وجہ اُنکا شاہانہ انداز تھا۔ تاہم اُن کی حادثاتی موت نے اندرا کو توڑ دیا تھا۔ 

گاندھی خاندان کے سیاسی زوال نے بھارت میں ایک نئی سیاسی سوچ کو جنم دیا ،جس کی ایک جھلک بی جے پی کی شکل میں نظرآئی، جس کا بنیادی بیانیہ بھارت کے سیکولزم کو ختم کر کے انتہا پسند ہندو ریاست بنانا تھا ،یہ وہ سوچ تھی جو انتہا پسند گروپ ،آر ایس ایس اور شیو سنا کی تھی اُس وقت انتہا پسندوں میں سب سے نمایاں نام بال ٹھاکرے کا تھا۔ 

نریندر مودی تو بہت بعد میں آنے والے لوگوں میں سے ہیں، مگر اُن کی زندگی کا جائزہ لیں تو لگتا ہے انہوں نے اپنے زمانے میں بے انتہا غریت دیکھی ہے اور شاید جس ماحول میں وہ رہے اُس میں انسان غصہ اور نفرت کا زیادہ اثر لیتا ہے ایسے میں اگر آپ کو کوئی جماعت اپنا لے اور آپ دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کی بلندی کو چھو جائیں تو پھر ردِ عمل کی سیاست میں آپ بہت آگے نکل جاتے ہیں۔

بی جے پی کی سیاست کی بنیاد پاکستان مخالف رکھنے کا ایک مقصد عام آدمی کو اُس کے اصل مسائل سے توجہ ہٹانا اور دور رکھنا تھا ،کیونکہ ’منفی سیاست‘ آسانی سے بکتی ہے ۔ پاکستان میں بھی انتہا پسند گروپ بھارت مخالف بیاینہ کو بیجتے ہیں البتہ اُن کو وہ انتخابی کامیابیاں نہیں ملتیں جو بھارت میں جے پی یا اُس بغل بچہ آر ایس ایس کو ملتی ہے۔ 

کانگریس کے زوال نے بہت سے زیرک سیاست دانوں کو بی جے پی میں رہ کر اپنی سیاست کرنے کا موقعہ ملا ،جن میں ایک بڑا نام اٹل بہاری واجپائی کا تھا، دوسری طرف ایل کے ایڈوانی تھے جو انتہا پسند سوچ ضرور رکھتے تھے مگر تھے ’سیاسی۔

بھٹو،اندرا ، بینظیر ،راجیو، واجپائی - نواز شریف ،مشرف اور واجپائی یہ وہ مواقع تھے جو دونوں ہی کے پاس تھے دونوں ملکوں کو قریب لانے کے ،مگر ہم دور ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ سیاست اور اقتدار ایک انتہائی انتہا پسند نریندر مود ی کے ہاتھ آیا ، ان پچاس سالوں میں بھارت کی سیاست انتہاپسندی کی طرف چلی گئی اور پاکستان میں دو افغان جنگوں میں حصہ لینے کی بھاری قیمت دینی پڑی ۔ کئی انتہاپسند یہاں تک کہ دہشت گرد گروپ تشکیل پاگئے، جس سے خود پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ،کیونکہ ان میں کئی گروپ نے ریاست کو چیلنج کرنا شروع کردیا۔ 

اب یہ ہماری ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ جن کو افغان مجاہدین کا درجہ دے کر پہلی افغان جنگ کے بعد وائٹ ہاؤس میں استقبال کیا گیا، انہی کو 9/11کے بعد دنیا کے دہشت گرد گروپ کی فہرست میں شامل کیا گیا اور پاکستان کو انہیں پناہ دینے کے الزام میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ 

اس صورتحال سے بھارت نے سیاسی فائدہ اٹھایا حالانکہ جنرل مشرف کے دور میں نا صرف جہادی تنظیموں پر پابندی لگائی گئی بلکہ فرقہ وارانہ گروپس کو بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑا ۔ ہماری ریاستی اور خارجہ پالیسی انتہائی ناقص رہی ۔کشمیر کی جدوجہد کی اپنی تاریخ ہے۔

مقبو ضہ کشمیر میں سات دہائیوں سے یہ قومی تحریک رہی، مگر بعد میں اس میں بہت سے جہادی گروپس بھی شامل ہو گئے۔جموں کشمیر لیبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) نے زور کشمیری رہنما مقبول بٹ کی پھانسی کے بعد پکڑا، بعد میں برہان وہانی اور افضل گرو کی قربانیوں نے اسے نیا حوصلہ دیا۔ 

ایک وقت تھا جب یہ قومی تحریکیں تھیں مگر 1989کے بعد صورتحال بدل گئی کشمیر ہی کیا خود فلسطین کی تحریک بھی قومی تحریک تھی ۔ ان دونوں تحریکوں میں آنے والے وقت میں مذہبی رنگ غالب آگیا، یہ دونوں مسئلے آج دنیا کے واحد نہیں تو اہم ترین ضرور ہیں ، تاہم یہ بات طے ہے اور سب ہی کو سمجھ لینی چاہیئے کہ حل بہر حال بات چیت ہی سے نکلتا ہے۔جنگ مسئلہ کا حل نہیں دیتی ،لاکھوں لوگ مارے جاچکے ہیں۔

غلطیاں ان 77سالوں میں دونوں طرف سے ہوئیں ۔ مسئلہ کشمیر کا ہو یا دہشت گردی کا پانی کا ہو یا ایٹمی دوڑ کا ،دونوں ملکوں کے ڈیڑھ دو ارب لوگوں کا مسئلہ تو غربت ،بے روزگاری، پینے کا صاف پانی ،بہتر صحت کی سہولتیں اور سب سے بڑھ کر ان کے جینے کا حق ہے۔ انتہا پسند سیاست کے خوفناک نتائج صرف سیاست پر ہی نہیں معاشرہ پر بھی پڑتے ہیں ۔بی جے پی کو اپنی سیاست کو پاکستان مخالفت سے باہر لانا ہوگا اور ایسا بہر حال نریندر مودی کے ہوتے ہوئے مشکل لگتا ہے۔

دوسری طرف پاکستان کو اپنی پالیسیوں میں جنرل ضیاء اور جنرل حمید گل جیسے لوگوں کی سوچ سے باہر آنا ہوگا۔ دہشت گردی کا شکار سب سے زیادہ ہم ہوئے، مگر آخر طالبان کو بنانے اورپالنے کی ذمہ داری بھی تو ہم ہی نے لی۔

سیاست میں انتہا پسند گروپس کو لانے میں کس کا کردار رہا ، اب بھی وقت ہے کہ ہم اس طرزسیاست کوبدلیں۔ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی رائے سے ہی حل ہوگا اور اس پر بہر حال معاہدہ جتنی جلد ہواتنا اس خطہ کے لئے بہتر ہے، حل جب ہی نکلے گا جب دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد ہوگا اور اس کے لئے نیتوں کا صاف ہونا ضروری ہے، راہیں بہرحال بات چیت ہی سے نکلتی ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حالیہ جنگ سے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی طاقت اور کمزوری کا اندازہ ہوگیا۔ پاکستان نے دفاعی ، سفارتی ،سیاسی یہاں تک کہ صحافتی محاذ پر کامیابیاں حاصل کیں ،فتح کا جشن بھی منالیا۔بھارت میں نریندر مودی بی جے پی اور بھارتی میڈیا کو اپنے ہی لوگوں کا جواب دینے میں مشکل پیش آرہی ہے 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے اور اس وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگی ماحول بن گیا تھا بھارت نے آپریشن پکار کا آغاز کردیا تھا اور فوجیں بڑی تعداد میں بارڈر تک پہنچا دی تھیں مگر اس وقت بھی انہیں اندرونی طور پر اور سیاسی محاذ پر نقصان ہوا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی، یوپی کا الیکشن ہار گئی۔

یہی سال نریندر مودی اور ایل کے ایڈوانی کی انتہا پسند سوچ کا نکتہ آغاز تھا، بی جے پی گجرات میں سیاسی طور پر کمزور ہوئی اور وہاں کے وزیراعلیٰ کو دباؤ کا سامنا ہوا تو آر ایس ایس نے پٹیل کی جگہ مودی کا نام تجویز کیا واجپائی مودی کو گجرات کی سیاست سے دور رکھنا چاہتے تھے، اسی لئے انہیں دلی لے آئے تھے مگر پھر انہیں وزیر اعلیٰ بنانا پڑا، یوں آہستہ آہستہ مودی نے اپنی جڑیں مضبوط کرلی اور پھر بی جے پی نے ایک ایسے وقت میں ان کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا جب گجرات کے مسلمانوں کے خون سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے تھے۔ 

یہ فیصلہ بھارت میں سیکولرازم اور گاندھی ازم کے خاتمہ کا نکتہ آغاز تھا۔ نریندر مودی کے 10سال کا جائزہ لیں تو ماضی میں بڑے بڑے تنازعے رہے، مگر نفرت کی سیاست کھیلوں، فلموں اور ثقافت تک نہیں گئیں اب ان سب کو پاکستان مخالفت سے جوڑ دیا گیا ہے، اب تو مہاتما گاندھی کے قاتل کو ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے یہ سارے شعبہ انتہا پسند سوچ کے یرغمال نظر آتے ہیں۔ 

واجپائی اور من موہن سنگھ جیسے لیڈر اب نہیں رہے، ایسے ماحول میں بی جے پی مخالف سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ان کی سیاست کو پاکستانی ایجنٹ کہہ کر ذہنوں کو پراگندہ کیا جارہا ہے، رہ گئی بات ہماری تو ہم نے تو سیاست کو ہی ہائبرڈ کردیا ہے اور سیاسی جماعتوں نے اپنی اسپیس کم کردی۔ 

سابق وزیر اعظم نواز شریف ہوں یا محترمہ بینظیر بھٹو ، دونوں کے زیر عتاب آنے کی ایک وجہ بھارت کے ساتھ بات چیت بھی رہی ہے، میاں صاحب ، واجپائی ملاقات اور مودی کے اچانک دورہ لاہور نے میاں صاحب کو مشکل میں ڈال دیا اور انکی حب الوطنی پر ہی سوالات اٹھادیئے گئے، کوشش تو عمران خان اور جنرل باوجوہ نے بھی کی، یہاں تک کہ عمران نے بحیثیت وزیر اعظم اپنی حلف برداری میں اپنے زمانے کے کرکٹرز کپیل دیو ، سنیل گواسکر ، سدھو کو دعوت دی ،گواسکر اور کپیل دیو نے بین الاقوامی مصروفیت کی بنا پر معذرت کی، مگر سدھونے ناصرف شرکت کی بلکہ موجودہ بھارتی ٹیم کے دستخط شدہ بیٹ بھی عمران کو بطور تحفہ پیش کیا گیا ، سدھو اس وقت بی جے پی کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں تنقید کا نشانہ بنے جب انہوں نے جنرل باوجوہ سے ہاتھ ملایا اور گلے ملے۔ 

یہ پاک بھارت کی روایتوں میں سے ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں میں تعلقات کو بہتر لانا کتنا مشکل ہے، مسکراہٹیں تک کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا، جب بھی دونوں ملکوں کے عوام قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں کوئی نہ کوئی انہیں دور کردیتا ہے، کرکٹ اس کی سب سے بڑی مثال ہے، جو امن و شانتی کا باعث بن سکتا ہے، مگر بھارت کا موجودہ رویہ اسے دور رکھے ہوئے ہے، ورنہ تو ایک وقت تھا جب واجپائی نے پاکستانی ٹیم کے دورہ بھارت کا خیر مقدم کیا تھا، کیونکہ یہ دورہ اس وقت ہورہا تھا جب ہندو انتہا پسندوں نے دلی میں وکٹ خراب کردی تھی اور ٹیم کو دھمکی دی تھی۔ واجپائی نے کہا کہ کرکٹ کو سیاست سے دور رکھیں، مودی نے اس کے برعکس پوزیشن لی، جب تک دہشت گردی کراس بارڈر رہے گی کوئی کرکٹ نہیں ہوگی دونوں کے درمیان۔

بات پہلگام سے شروع ہوئی تھی 26افراد کی ہلاکت سے اور ختم جنگ پر ہوئی آج بھی سیز فائر ہے نا کوئی قاتل پکڑاگیا نا شواہد سامنے آئے اور پڑوسی ملک پر حملہ کردیا ، مودی کا یہ فیصلہ ن کے اپنے اور بی جے پی کے لئے خود کش ثابت ہوا ، آج ان سے سوالات ہور ہے ہیں ان کو سیاسی نقصان اور پاکستان کو فائدہ ہوا مگرایک بار پھر دونوں ملک سالوں پیچھے چلے گئے، آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے، کشمیر کامسئلہ کھلے دل اورذہن سےحل کریں اور کسی غیر جانبدار مبصر اور یا اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ریفرنڈم کرا لیں وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اس رائے کا بھی احترام ضروری ہے ۔

دوسرے دہشت گردی اور ہر طرح کے انتہا پسند اور دہشت گرد گروپس کا خاتمہ ضروری ہے۔ پاکستان اس کا سب سے بڑا نشانہ رہا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں سے بیشتر گروپس ہمارے یہاں ہی پائے جاتے ہیں اور بعض تو ہمارے ہی لوگوں اور قانون نافذ کرنے والوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

پاکسان کے ٹھوس اقدامات کے باعث کئی دہشت گرد مارے گئے اور بدلے میں انہوں نے پاکستان کے اندر حملے تیز کردیئے، جس کی سب سے بھیانک مثال 16دسمبر،2014 کو سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور ہے ۔ بہرحال دہشت گردی کا خاتمہ بھی مشترکہ کاوشوں سے ہوسکتا ہے ۔ امن ہی واحد آپشن ہے جوبات چیت سے ہی ممکن ہے بقول احمد فراز؎

اگر تمھاری انا کا ہی ہے سوال تو پھر

چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے

پھر اس کا جواب علی سردار جعفری نے کچھ اس طرح دیا:

تم آو گلشن راہوں سے چمن بردوش

ہم آئیں صبح بنارس کی روشنی لے کر

ہمالیہ کی ہواؤوں کی تازگی لے کر

پھر اس کے بعد یہ پوچھیں گے کون دشمن ہے

شاعروں کے دیکھنے کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے کیونکہ شاعر تو جاوید اختر بھی ہیں مگر دو ایٹمی طاقتوں کی جنگ آنے والی کئی نسلوں کو تباہ اورخطے کو برباد کرسکتی ہے، اس لئے جنگ ٹلنی ہی نہیں ختم کردی جائے تو بہتر ہے ماسوائے دونوں ملکوں میں غربت کےخاتمہ کے خلاف جنگ سے ۔ امید کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں، کیونکہ ہر دوسرا آپشن صرف تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔