• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو برطانوی حکمرانوں سے قانونی اور عدالتی نظام ورثے میں ملا۔ ہمارے نوآبادیاتی آقائوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قدم آگےبڑھائے اور اپنے قوانین اور طریقہ کار میں مسلسل تبدیلیاں کیں۔ ہم ابھی تک 1850 کی دہائی میں ساکت و جامد کھڑے ہیں۔ اس بات پرعمومی اتفاق رائے موجود ہے کہ موجودہ نظام غیر مساوی، مہنگا، طویل اور وِقت طلب ہے۔ کئی مراحل پربہت سی اپیلوں اور نظر ثانی کے بعد جب فیصلہ آبھی جائے تو حکم نامے پر عمل درآمد سست اور اکثر غیر موثر ہوتا ہے۔ لاحاصل قانونی چارہ جوئی، شواہد کی تبدیلی اور اہم گواہوں کا دباؤ اور مالی فوائد کے تحت گواہی سے پھر جانا ہماری عدالتوں میں اکثردیکھے جانے والے مناظر ہیں۔ کیس مینجمنٹ، شواہد کی ریکارڈنگ، کاز لسٹوں کی تیاری میں شفافیت، سمن کی فراہمی اور دیگر انتظامی امور میں جدید آئی سی ٹی ٹولز کا استعمال باقاعدگی سے نہیں کیا جاتا تاوقتیکہ کوئی مخصوص کیس ہو۔ قانونی تعلیم کا معیار اور مواد، وکلا کا داخلہ، ضابطہ اخلاق کی عدم پابندی اور کھلے عام بدمعاشی کے مظاہرے اور مفادات کے ٹکراؤ کو خود بار کے سنجیدہ ممبران نے بارہا اجاگر کیا ہے۔ انٹری لیول پر ججوں کی تقرری کا طریقہ کار اور انہیں جلد بازی میں دی گئی ٹریننگ، کارکردگی اور مطلوبہ مہارت کی بجائے سنیارٹی کی بنیاد پر ترقی، نااہل اور بدعنوانوں کا صفایا کرنے سے ہچکچاہٹ اور پورے بورڈ میں ہر ایک کو یکساں معاوضے کی ادائیگی نے عدلیہ میں انسانی وسائل کے استعمال کو مطلوبہ معیار سے بہت پست کردیا ہے۔ سپریم کورٹ میں تقرری کے بارے میں حالیہ بحث کہ کیا اعلیٰ سطحی عدالتی تقرریاں میرٹ کی بجائے سنیارٹی کی بنیاد پر ہوں؟اس پیشے کے اندر ہی اختلاف رائے کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ واقعی خوش آئند ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں اعلیٰ ترین اہلیت اور دیانت کے حامل افراد کو سینارٹی کی بجائے میرٹ، مہارت اور کارکردگی کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا ہے۔

پہلا لا ریفارم کمیشن 1958 میں تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کے بعد 1967 میں ایک اور کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ 1979 تک کے درمیانی عرصے میں عدالتی اصلاحات پر کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ایک کل وقتی لا اینڈ جسٹس کمیشن قائم کیا گیا جو قانونی نظام کی بہتری، جدت کاری اور اصلاحات کے لیے مسلسل کام کرتا تھا۔ 2002 میں نیشنل جوڈیشری پالیسی بنانے والی کمیٹی قائم کی گئی۔ اس نے 2009 کی نیشنل جوڈیشل پالیسی مرتب کی۔ ہر کمیشن اور کمیٹی نے بہت معقول اور قابلِ عمل تجاویز پیش کیں لیکن بعض وجوہ کی بنا پر انھیں اپنانے اور ان پر عمل درآمد میں پیش رفت انتہائی سست رہی۔ وقت آگیا ہے کہ ان سفارشات اور تجاویز پر طے شدہ وقت کے اندر عمل درآمد کرکے اس کے نتائج حاصل کیے جائیں۔

جس موضوع کو میں یہاں اٹھانا چاہتا ہوں وہ طویل تاخیر اور بار بار بلاجواز التوا، غیر معینہ مدت تک کے حکم امتناعی، اپیلوں کے متعدد مراحل، سپریم کورٹ کی طرف سے لیا گیا از خود نوٹس اور اس کے نتیجے میں عدالتی سرگرمی اورسنائے گئے فیصلوں پر عمل درآمد میں تاخیر کی اداکی جانے والی معاشی قیمت ہے۔ اس معاشی قیمت پر مفصل بحث کرنے سے پہلے دو تجاویز پیش خدمت ہیں۔ سب سے پہلے، ماتحت عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک، عدلیہ کے پورے انتظامی ڈھانچے میں انسانی وسائل کی شمولیت، فروغ، تربیت و اقتصادیات اور مالیات، آئی سی ٹی کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا،اور ای آرپی اور ای آفس کو اپنانا، ڈیش بورڈکے ساتھ مرکزی ڈیٹا سنٹر اور متحرک ویب سائٹ کے ذریعے ای کیس مینجمنٹ سسٹم بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ ججوں اور ان کے عملے کے لیے مناسب فزیکل انفراسٹرکچر، اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کے ذریعے باقاعدہ نگرانی و جائزے، ریڈرز اور ناظر اور کلرکوں کے پرانے نظام کو پیشہ ورانہ انتظامی نظام سے تبدیل کرناہوگا۔ دوسرا، تنازعات کے حل کا متبادل طریقہ کار، وکلاکی نمائندگی کے بغیر چھوٹے اور کم سنگین مقدمات کے لیے عدالتیں ان غریب مدعیان کو کافی ریلیف دیں گی جو قانونی چارہ جوئی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ اس سے عدالتوں پر بوجھ بھی کم ہوجائے گا۔

معاشی حکمرانی کے دائرے میں قوانین، ضوابط، قواعد کی تشریح عدلیہ کے دائرہ کار سے تعلق رکھتی ہے اور ان کے فیصلوں کا اطلاق ایگزیکٹو برانچ پر ہوتا ہے۔ اس بات کو شاید ہی تسلیم کیا جا ئے کہ عدالتی فیصلوں میں معاشی تجزیہ کو شامل کرنے سے ممکنہ طور غیر قانونی بستیوں میں دبے غیر فعال سرمائے کو متحرک کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ذریعے مالی بچت کو فروغ، ٹیکس محصولات میں اضافہ اورزمین کی قیمتوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔بینکنگ اور دیگر ریگولیٹری تعمیل کو نافذ کیا جا سکتا ہے۔ معاشرے کو بہت سے دوسرے معاشی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی معاشی تجزیے کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور جج ماہرین کی رائے لیتے ہیں تو فیصلے کا معیار بہتر ہوتا ہے اور معیشت کو فائدہ ہوتا ہے۔

ایک درست عدالتی نظام سے کیا معاشی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟ سب سے پہلے، کھربوں روپے کی شہری جائیداد ملک کے مرکزی میٹروپولیٹن مراکز میں غیر رسمی اور غیر قانونی بستیوں، کچی آبادیوں میں رہنے والے گھرانوں کے پاس ہے۔ وہ غیر معیاری اور غلیظ حالات میں رہتے ہیں کیونکہ انہیں بنیادی خدمات تک رسائی حاصل نہیں۔چونکہ وہ لینڈ مافیا، سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور پولیس کی ملی بھگت سے غیر قانونی طور پر آباد ہوئے ہیں، ان کے پاس جائیداد کے مالکانہ حقوق نہیں ہوتے۔جن کچی آبادیوں کی زمینوں کو ریگولراز کیا گیا، اس میں رہنے والے مالکانہ حقوق حاصل کرنے کے قابل ہوگئے۔ اس بنیاد پر وہ اپنے پلاٹ کو ضمانت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مزید بہتری کے لیے قرض حاصل کرسکے۔ عدالتیں ایسے قوانین کے نفاذ کا حکم دے سکتی ہیں جن کا مقصد ان کچی آبادیوں کو باقاعدہ اور قانونی بنانا ہو۔اس سے وہاں رہنے والوں کو مالکانہ حقوق مل سکتے ہیں۔ اس علاقے میں مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے انسانی سہولیات، کھلی جگہوں اور بہتر ماحول کے ساتھ رہائش فراہم کی جاسکتی ہے۔ یہ بات قابل تعریف ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے حال ہی میں چھ سال پرانے کیس کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کیس فور کلوزرلا کے خلاف ہے جس کی وجہ سے ملک کے کمرشل بینکوں کی مارگیج کی شرح بہت بلند ہوگئی تھی۔

تازہ ترین