• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں رواں ہفتے ہونیوالے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل اجلاس میں بہت سے غیررُکن ملکوں کے اعلیٰ سطحی وفود بھی بطور مبصر شریک ہوئے جب کہ چین کے وزیرِ خارجہ وانگ ژی بطور مہمانِ خصوصی اجلاس کا حصہ تھے۔ پاکستان اور چین میں دوستی کی تاریخ طویل ضرور ہے مگر پاکستان حقیقی معنوں میں امریکا کا اتحادی ہی رہا ہے۔ حالیہ کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں عالمی بلاکس میں شامل ہونے سے گریز کرنے اور مسلم ممالک کا بلاک بنانے کی بات کی جو اس لیے ممکن نہیں کہ مسلم ممالک خود مغربی طاقتوں کے زیرِبار ہیں۔ او آئی سی بھی اب اسی کی دہائی کی طرح فعال نہیں۔ علاوہ ازیں، اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ چینی وزیرِ خارجہ وانگ ژی کا اس اجلاس میں شرکت کرنا معنی خیزتھا، تاہم جو بعد ازاں افغانستان اور پھر بھارت کے دورے پر روانہ ہو گئے اور سرِدست وہ بھارت کے دورے پر ہیں۔ بھارت کے دورے میں چین بھارت سرحدی کشیدگی روکنے کے لیے اقدامات کرنے پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر سبرامینم نے کہا کہ وانگ ژی کی بھارت کے ساتھ معمول کے تعلقات کی خواہش پر بات چیت ہوئی ہے جس کے لیےسرحد سے فورسز کی واپسی کی تجویز پر عملدرآمد کرنے کے علاوہ امن درکار ہوگا۔ خیال رہے کہ وانگ ژی کے دورہ بھارت سے قبل بھارتی حکام نے پاکستان میں منعقدہ او آئی سی کے حالیہ اجلاس کے دوران مقبوضہ کشمیر کے بارے میں چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر کے ذکر کو غیر ضروری قرار دیا تھا۔ بھارت اور چین دونوں ہی اس خطے کی بڑی طاقتیں ہیں، دونوں ملکوں میں تلخیاں بھی موجود ہیں مگر سفارتی تعلقات بھی قائم ہیں اور یہی حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی کا بنیادی جزو ہے، خارجہ پالیسی ایک ایسی سائنس ہے جس پر اس کی روح کے مطابق عمل پیرا ہو کر ہی ترقی کی جا سکتی ہے۔

تازہ ترین