سیاسی تبدیلیاں کسی بھی سیاسی نظام کا سب سے مشکل مسئلہ رہی ہیں۔ پاکستان میں سیاسی تبدیلیوں میں اعلیٰ عدلیہ کا کردار نمایاںرہا ہے۔ ایک بار پھر موجودہ حکومت نے صدارتی ریفرنس کے ذریعے سیاسی تبدیلی کے اس موجودہ مسئلے کے حل کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ معاملہ چونکہ زیر سماعت ہے، اس لیے اس کیس کے میرٹ پر بات کرنا مناسب نہیں، لیکن سیاسی اشرافیہ کی طرف سے حکومت کی تبدیلی کے معرکوں کو عدالت کے اندر لڑنے کی تاریخ کو سمجھنا بر محل ہوگا۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کی تبدیلی میں عدالتی کردار کو وسیع طور پر دو تصوراتی اور دو تاریخی ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 1954اور 2000کے درمیان اعلیٰ عدلیہ کو حکومت کی تبدیلی کے جواز کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے کہا گیا۔ وہ تبدیلی پہلے ہی واقع ہو چکی تھی۔ عدالت کے سامنے تبدیلی واقع ہونے کے بعد اس کے آئینی جواز کا سوال رکھا گیا تھا۔
2007اور 2018کے درمیان اعلیٰ عدلیہ حکومت کی تبدیلی میں فعال کردار ادا کرتی رہی۔ کئی ایک حکومتیں عدالتی مداخلتوں کے نتیجے میں تبدیل ہوئیں۔سب سے پہلے، 1954میں وفاقی عدالت نے مولوی تمیز الدین خان کیس میں آئین ساز اسمبلی کی غیر قانونی تحلیل کو جائز قرار دیا۔ دوسری بات یہ کہ 1958میں سپریم کورٹ نے داسو کیس میں ایوب خان کے مارشل لا کو قانونی حیثیت دی۔ تیسرا، 1972میں سپریم کورٹ نے 1969کے یحییٰ خان کے مارشل لا کو غیرقانونی قرار دے دیا اور عاصمہ جیلانی کیس میں سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر بھٹو کے اقتدار میں آنے کو قانونی حیثیت دی۔ چوتھا، 1977میں، سپریم کورٹ نے نصرت بھٹو کیس میں ضیاء الحق کے 1977کے مارشل لا کو قانونی حیثیت دی۔ پانچواں، 1988اور 1997کے درمیان سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 58(2B)کے تحت اسمبلیوں کی تحلیل کو برقرار رکھا سوائے 1993کے، جب سپریم کورٹ نے نواز شریف حکومت کی تحلیل کے حکم کو کالعدم قرار دیا تھا۔ چھٹا، 2000میں سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ کیس میں پرویز مشرف کے 1999کے مارشل لاکی توثیق کردی۔ لیکن 2007کی عدلیہ بحالی اور وکلا تحریک کے بعد اعلیٰ عدلیہ ایک انتہائی طاقتور فریق کے طور پر ابھری اور حکومت کی تبدیلی کے ایک اہم آلے کے طور پر اپنے کردار کو بھی بدل دیا۔ اول، 2007میں افتخار چوہدری بحالی کیس کے فیصلے کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف کے صدارتی انتخاب کو چیلنج کرنے کے متوقع فیصلے نے حکومت کی تبدیلی کے خدشے کو جنم دیا جس کے نتیجے میں 3نومبر 2007کو ایمرجنسی لگی۔ دوم، 2012میں توہین عدالت کی کارروائی میں سپریم کورٹ کا فیصلہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی برطرفی کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کا باعث بنا۔ سوئم، 2017میں پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں وزیراعظم محمد نواز شریف کی برطرفی کے ذریعے حکومت کی تبدیلی عمل میں آئی۔ مختصر مدت کیلئے فتح لیکن تزویراتی ناکامی: جیسا کہ مندرجہ بالا بیانیے سے واضح ہے کہ 2012اور 2017میں حکومت کی تبدیلی کے بعد کے معاملات میں حزب اختلاف کے اراکین ہی تھے جنہوں نے عدالتی ذرائع سے سیاست کی۔ جس کی وجہ سے سیاسی عمل میں ایک بڑی تاریخی اور ادارہ جاتی تبدیلی آئی ہے، یعنی حکومت کی تبدیلی کو عدالت کا بازو استعمال کرنے کی راہ مل گئی۔
سیاسی طبقہ اب حکومت کی تبدیلی کے مسئلے کو مذاکرات یا عوامی تحریک کے ذریعے حل کرنے کے بجائے عدالت میں چلا جاتا ہے اور اس عدالتی فعالیت کو ایک سیاسی نظریے کی شکل دی جا چکی ہے۔ سیاست میں ایک تاریخی تبدیلی یہ آئی ہے کہ سیاسی طاقت اب سیاسی اشرافیہ کی بجائے عدالتی اشرافیہ کے ہاتھ آگئی ہے۔ اس دوران اسٹیبلشمنٹ پہلے سے ہی ایک طاقت ور سیاسی کھلاڑی کے طور پر اپنی جگہ پر موجود ہے۔ عدلیہ کو سیاست زدہ کرنا: 1954سے 2000کے پہلے مرحلے میں عدلیہ کا بچائو یا اقتدار کے لالچ کی وجہ سے عدلیہ پر ’اسٹیبلشمنٹ نواز عدلیہ‘ کا لیبل لگایا گیا۔ 2007سے 2018کے دوسرے مرحلے میں عدلیہ کو جمہوری آئین پرستی کی آڑ میں سیاسی انجینئرنگ کرنے والی طاقت قرار دیا گیا۔ لہٰذا، حکومت کی تبدیلی کے لیے عدلیہ کو استعمال کرنے کی وجہ سے عدلیہ خود بھی سیاست زدہ ہو گئی ہے۔ 2000کے بش بمقابلہ گور کیس میں، جس کی وجہ سے جارج بش ریاست ہائے متحدہ کے صدر بنے، جسٹس جان پال سٹیونز نے درج ذیل پیشن گوئی میں سپریم کورٹ کی سیاست کرنے کے خطرات کی نشاندہی کی: اگرچہ ہم کبھی مکمل طور پر نہیں جان سکتے، یقینی طور پر اس سال کے صدارتی انتخابات کے فاتح کی شناخت، ہارنے والے کی شناخت بالکل واضح ہے۔ یہ قانون کی حکمرانی کے غیر جانبدار محافظ کے طور پر جج پر قوم کا اعتماد ہے۔ مختصر یہ کہ سیاست دانوں کا اپنے سیاسی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے وہ عدلیہ کو پھنساتے ہوئے عدالتی عمل کا استعمال اور غلط استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے سیاست دانوں کے اس جال سے ہوشیار رہیں، جو سیاسی طاقت سے محروم ہونے پر عدالتی ذرائع سے سیاسی اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔جمہوریت کو صاف کرنا: سپریم کورٹ ان مسائل کا حصہ بننے سے گریز نہیں کر سکتی کیونکہ ایسے سیاسی سوالات میں آئینی سوالات شامل ہوتے ہیں۔ جب فریقین عدالت سے رجوع کرتے ہیں تو ان معاملات کو ہاتھ میں لینا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ سوال ٹالنے کا نہیں بلکہ اس طرح کے مسائل سے نمٹنے کے لیے عدالتی انداز اختیار کرنے کا ہے۔ موجودہ صدارتی ریفرنس جس میں آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح بھی شامل ہے، حکومت سپریم کورٹ کو جمہوریت کو پاک کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے لیکن درحقیقت اپنے مخالفین کو نااہلی اور مشکوک ووٹوں کی دھمکیاں دے کر واپس لانے کے لیے عدالتی مدد چاہتی ہے۔ یہ عدالتی ذرائع کے سیاسی استعمال کے علاوہ اور کیا ہے؟