• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایلون مسک کی کمپنی’ٹیسلا‘پر نسل پرستی کے الزامات

فوٹو، فائل
فوٹو، فائل 

ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا کے سابق ملازمین نے انکشاف کیا ہے کہ اُنہیں کمپنی میں نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔

ٹیسلا کمپنی اس وقت امریکا میں شہری حقوق کی ایک ایجنسی کی جانب سے دائر کیے گئے ایک مقدمے کا سامنا کررہی ہے۔

اس مقدمے میں ٹیسلا کمپنی پر نسل پرستی کے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ کپمنی میں تمام ملازمین کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جاتا ہے۔

اسی حوالے سے امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کو ٹیسلا کمپنی کے تین سابق ملازمین نے انٹرویو بھی دیا ہے۔

اگرچہ تینوں سابق ملازمین کی اپنی کہانیاں اور منفرد تجربات ہیں، لیکن موضوعات کافی حد تک ملتے جلتے پائے گئے۔

مثال کے طور پر، دو سابق ملازمین نےبتایا کیا کہ جب اُنہوں نے کمپنی کے نسل پرستانہ روّیہ کے بارے میں شکایت کی تو اُنہیں بلیک لسٹ کر دیا گیا جبکہ کچھ ملازمین سے زیادہ کام کروایا گیا۔

ان میں سے ایک ملازم نے بتایا کہ جب اس نے ساری صورتحال سے کمپنی کے ہیومین ریسورس ڈیپارٹمنٹ کو آگاہ کیا تو کمپنی میں اسے  ہراساں کرنا بند کردیا گیا لیکن کچھ مہینے گزرنے پر اسے محسوس ہوا کہ اس کی کارکردگی کا کوئی جائزہ نہیں لیا جارہا اور نہ ہی اسے پروموشن مل رہی ہے۔

کمپنی کے ملازم نے مزید بتایا کہ’وہ لوگ اس انتظار میں تھے کہ مجھ سے کوئی  غلطی ہو‘۔

اس کے علاوہ کئی اور ملازمین نے بھی اپنے اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا۔

دوسری جانب ٹیسلا کمپنی کے وکلاء نے نسل پرستی کے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ 

تاہم، اس مسئلے کے ساتھ کمپنی کی ایک تاریخ ہے کیونکہ اس سے قبل، کیلی فورنیا میں ٹیسلا کوباقاعدہ جیوری کی جانب سے حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے ایک ملازم کو 137 ملین ڈالر ادا کرے کیونکہ اس کی رپورٹ کردہ نسل پرستی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ 

اس کے علاوہ بھی کمپنی کو اپنے ایک ملازم کو 1 ملین ڈالر ادا کرنا پڑے تھے کیونکہ اس کے سپروائزر نےاس کے ساتھ انتہائی نامناسب انداز سے بات کی ۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید