ڈاکٹر سید جعفر احمد
ڈائریکٹر، انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ، کراچی
پاکستان کی سیاسی تاریخ مشکل اور پیچیدہ بحرانوں سے عبارت رہی ہے ۔ ان بحرانوں کا مجموعی اثر یہ مرتب ہوا کہ ملک شاید اپنے کسی بھی دور میں سیاسی استحکام سے ہمکنار نہیں ہو سکا۔ ملک کے سیاسی بحرانوں کے پیچھے جہاں ایک طرف کچھ مستقل نوعیت کے اسباب وعوامل کار فرما تھے وہیں ہر بحران کے اپنے انفرادی اسباب بھی موجود تھے۔ 1988 سے 1999 کے دوران ملک جس بحران سے دوچار رہا اُس کے پیچھے بھی ان ہی دونوں طرح کے اسباب کی کار فرمائی دیکھی جاسکتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو دیکھنے کا ایک زاویہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم اس کو فوجی حکومتوں اور سو یلین حکومتوں کے ادوار میں تقسیم کر کے دیکھیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو1988 سے 1999تک کا سیاسی دور ایک سویلین دور تھا۔ اور پھر اس دور کا اختتام بھی ایک اور فوجی حکومت کی آمد پر ہوا۔ یہ حکومت آٹھ سال برقرار رہی۔
دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ1988 سے 1999 کے درمیان کا سویلین دور، دو فوجی حکومتوں کے درمیان وقوع پذیر ہوا۔ خود اس دور میں چار سویلین حکومتیں وجود میں آئیں۔ اُن میں پہلی حکومت بے نظیر بھٹو کی تھی جو 2 دسمبر1988 تا 6 اگست1990 برسرِ اقتدار رہی۔ دوسری حکومت میاں نواز شریف کی تھی جو6 نومبر1990 سے 18 اپریل 1993 تک چلی(25 مئی کو سپریم کورٹ کی طرف سے قومی اسمبلی کی بحالی کے ساتھ نواز حکومت بھی بحال ہوگئی، مگر18 جولائی کو ٹرائیکا ٰیعنی صدر غلام اسحاق خان ، وزیر اعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عبد الوحید کاکڑ، کے ایک سمجھوتے کے مطابق یہ حکومت ختم ہوگئی)، اس کے بعد بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ حکومت میں آئیں۔ اُن کی یہ حکومت19 اکتوبر1993 کو قائم ہوئی، جبکہ 5 نومبر1996 کو اس کو معزول کر دیا گیا۔ اس کے بعد میاں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے۔ اُن کی یہ وزارتِ عظمیٰ17 فروری1997 سے12 اکتوبر 1999 تک برقرار رہی۔ اُن کی حکومت کا خاتمہ جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں فوج کے اقتدار پر قابض ہونے کی شکل میں ہوا۔
زیرِ نظر مضمون میں ہم اس دور کے چند نمایاں سیاسی پہلوئوں کا ذکر کرنے کے بعد اس پورے عرصے میں روزنامہ ’جنگ‘ کی کارکردگی کا تذکرہ کریں گے۔ جہاں تک اس دور کے سیاسی رحجانات کا تعلق ہے اس ضمن میں یہ بات ہمارے پیش نظر رہنی چاہیئے کہ1988 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کا قیام ایک فضائی حادثے میں جنرل ضیاء الحق کی ہلاکت کے بعد ہی ممکن ہوا تھا۔ جنرل ضیاء الحق زندگی کے آخری لمحوں تک اپنی حکومت کے تسلسل کے خواہش مند تھے اور اگر وہ زندہ رہتے تو شاید بے نظیر بھٹو دسمبر 1988 میں کسی بھی صورت میں برسرِ اقتدار نہ آپاتیں لیکن بے نظیر کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی جس گیارہ سالہ سویلین دور کا آغاز ہوا اُس کے ہر اہم واقعے پر ضیاء الحق کے دور کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔
ان گیارہ برسوں میں ضیاء الحق کا ورثہ دو بنیادی عوامل کی شکل میں موجود رہا۔ ایک تو دستور کی آٹھویں ترمیم اور دوسری وہ سیاسی تقسیم جس کی بنیاد ضیاء الحق نے رکھی تھی۔ جہاں تک آٹھویں ترمیم کا تعلق ہے اس کے ذریعے ضیاء الحق نے 1973 کے آئین کے پارلیمانی کردار کو ختم کر کے اس کو صدارتی طرز کا آئین بنا دیا تھا، یہی نہیں بلکہ صدر کو غیر معمولی اختیارات دے دیے گئے تھے جن میں وزیر اعظم کے تقرر اور معزولی کے ساتھ ساتھ اسمبلی کی تحلیل کا اختیار بھی شامل تھا۔ ویسے تو آٹھویں ترمیم کے ذریعے اور بھی کئی غیر جمہوری شقیں آئین کا حصہ بنا دی گئی تھیں لیکن پارلیمانی نظام کی جگہ عملاً صدارتی نظام کا قیام اس کا سب سے زیادہ دور رس نتائج کا حامل فیصلہ تھا۔
صدر کے اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اختیار کو سب سے پہلے ضیاء الحق نے ہی استعمال کیا اور 29 مئی 1988 کو اپنے ہی نامزد کردہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف اور قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 1988 سے1999 کے درمیان آٹھویں ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ بننے والی یہی شق یعنی آرٹیکل 58 (2) بی تین مرتبہ استعمال ہوئی۔ دو مرتبہ اس کا استعمال بے نظیر بھٹو کی حکومتوں کے خلاف اور ایک مرتبہ میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف ہوا۔ سو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مذکورہ دور کا سیاسی عدم استحکام بنیادی طور پر آٹھویں ترمیم کی مذکورہ شق کا شاخسانہ تھا۔
ضیاء الحق کے زمانے کی دوسری دین وہ سیاسی و نظریاتی تقسیم تھی جو انہوں نے اپنی گیارہ سالہ حکومت کے دوران ملک کی مجموعی سیاسی ہئیتِ اجتماعی کے اندر پیدا کر دی تھی۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف وہ سیاسی عناصر تھے جو بظاہر مذہبی اور قدامت پسندانہ سماجی و سیاسی نقطۂ نظر کے حامل تھے، جن کو اسلام اور قومی مفادات کے نام پر آمرانہ حکومتوں کا حلیف بھی بنایا جا سکتا تھا۔
دوسری طرف وہ عناصر تھے جو اپنی مختلف شناختوں کے باوجود ایک جمہوری نظام کے طرف دار اور طلب گار تھے۔ جن گیارہ برسوں کا ہم ذکر کر رہے ہیں اُن میں ان دونوں متحارب نقطۂ ہائے نظر اور سیاسی فریقوں کے درمیان آویزش کا دور دورہ رہا۔ میاں نواز شریف کے دوسرے دور اقتدار کے دوران برسر اقتدار جماعت اور حزبِ اختلاف کی پیپلز پارٹی کے درمیان آئین میں تیرھویں اور چودھویں ترامیم کے حوالے سے اتفاقِ رائے پیدا ہوا جس کے نتیجے میں دستور کی اُن شقوں کو تبدیل کر دیا گیا جن کو ضیاء الحق کی خواہش پر آٹھویں ترمیم کے ذریعے کتابِ دستور کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔
میاں نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اس اتفاق رائے نے پاکستان میں پارلیمانی نظام کی واپسی کو ممکن بنایا لیکن جلد ہی 1999 میں سویلین اور جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور یوں یہ گیارہ سالہ دور جنرل پرویز مشرف کی فوجی حاکمیت کے قیام پر اختتام پذیر ہوا۔
17 اگست 1988 کو جنرل ضیاء الحق کے دور کے خاتمے اور2 دسمبر1988 کو بے نظیر بھٹو کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں جس سیاسی دور کا آغاز ہوا اُس کی بھرپور نمائندگی روزنامہ ’جنگ‘ کے صفحات میں ہوئی۔1988 سے 1999 کے درمیان سیاسی کشمکش کے مختلف زاویے اخبار میں اداریوں اور تجزیوں کا موضوع بنے۔ ان میں صدر، وزیر اعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف کی ٹرائیکا، مقتدرہ اور سیاسی حکومتوں کی آویزش، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی کشمکش، 1973 کے آئین کی اصل شکل میں بحالی، آٹھویں ترمیم کے تحت کتابِ دستور کا حصہ بننے والی 58(2) بی کی شق جیسے موضوعات شامل تھے۔ یہ زیادہ تر داخلی سیاست سے متعلق موضوعات تھے۔
علاقائی صورت حال کے حوالے سے پاکستان کی افغان پالیسی، ہندوستان کے ساتھ تعلقات زیادہ اہم موضوعات ثابت ہوئے۔ بے نظیر کے دوسرے دور ِ حکومت میں پاک افغان تعلقات میں ایک نئی جہت طالبان کی شکل میں شامل ہوئی۔ پاکستان کا نیو کلیئر پروگرام بھی اُس زمانے میں توجہ کا مرکز بنا رہا اور اخبار میں سیکڑوں مضامین اور تجزیے اس پروگرام کے حوالے سے شائع ہوئے۔ مذکورہ بالا مختلف النوع موضوعات میں جو موضوع سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی باہمی چپقلش تھی۔ ان دونوں جماعتوں میں شخصیات کا ٹکرائو بھی تھا۔ یہ ایک دوسرے کے اراکین کو توڑ کر اپنی صف میں بھی لانا چاہتے تھے۔ اس رحجان کے نتیجے میں سیاست میں ہارس ٹریڈنگ، نقلی دستاویزات کے ذریعے ایوانوں تک پہنچنے کی روش عام ہوئی۔ اخبار میں یہ موضوع نمایاں جگہ پاتا رہا۔
’جنگ‘ کے کالم نگار مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے سیاسی رحجانات بھی ایک دوسرے سے مختلف اور بعض اوقات بالکل متضاد ہوتے تھے۔ لیکن قلم کاروں کی ایک بڑی اکثریت کے درمیان اس امر پر اتفاق پایا جاتا تھا کہ ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور اس استحکام کے لیے مختلف حکمت عملیاں اختیار کی جاسکتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ آئین میں آٹھویں ترمیم کی تنسیخ کے حق میں تھے اُن کی، یہ رائے رکھنے کے پیچھے یہ دلیل کارفرما تھی کہ اس ترمیم میں سیاسی عدم استحکام کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ جو لوگ آٹھویں ترمیم کے حق میں تھے اور جو خاص طور سے صدر کے غیر معمولی اختیارات کو جائز سمجھتے تھے اُن کا تجزیہ بھی یہی تھا کہ صدر کے یہ اختیارات سیاسی نظام میں ایک توازن پیدا کرنے کے لیے ضروری ہیں۔
بے نظیر بھٹو کی حکومت انیس ماہ چل سکی۔ اس حکومت کی بنیادیں شروع دن سے ہی کمزور تھیں۔ اس کا تقرر بھی اُسی وقت ممکن ہوا تھا جب بے نظیر نے غلام اسحاق خان کو صدر تسلیم کرنے کے علاوہ چیف آف آرمی اسٹاف ، جنرل اسلم بیگ کی بیان کردہ شرائط کو تسلیم کیا تھا۔ چنانچہ افغانستان اور کشمیر کے امور اُن کے دائرہ کار سے باہر رہے۔ قومی سلامتی کا موضوع، نیوکلیئر پالیسی اور بڑی حد تک اقتصادی پالیسی بھی وزیر اعظم کے دائرہ اختیار سے باہر تھی۔ بعد ازاں ایک مرحلے پر پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ1988 میں اُن کی پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے دی جانے والی شرائط کو قبول نہیں کرنا چاہیئے تھا اور حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کرنا چاہیئے تھا۔
بے نظیر بھٹو کی حکومت ایم کیو ایم سے اشتراک کے نتیجے ہی میں قائم ہوئی تھی۔ لیکن 1989 کے اواخر میں یہ اتحاد ٹوٹ گیا۔ بے نظیر کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد اسمبلی میں پیش کی گئی۔ قرارداد تو کامیاب نہ ہوسکی لیکن اس واقعہ کے بعد بے نظیر کی حکومت بہت کمزور ہو چکی تھی۔6 اگست1990 کو صدر نے بے نظیر حکومت کو بر طرف کر دیا اور اسمبلی تحلیل کر دی۔ انیس ماہ کے اس عرصے میں روزنامہ ’جنگ‘ نے صورت حال پر مفصّل تجزیے شائع کیے۔ اس کے اداریوں میں فریقین کو افہام و تفہیم کا مشورہ دیا جاتا رہا۔ اس عرصے میں چونکہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف تھے لہذا کشمکش کا ایک پہلو مرکز اور پنجاب کے درمیان آویزش کی شکل میں بھی سامنے آیا۔
اس پہلو پر بھی ’جنگ‘ اپنے اداریوں میں مستقلاً دونوں فریقوں کو کوئی انتہائی راستہ اختیار کرنے سے باز رہنے کا مشورہ دیتا رہا۔ اگست 1990 میں بے نظیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب نئے انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تو ’جنگ‘ نے انتخابات کو کور کرنے کے لیے تفصیلی فیچر اور تجزیے شائع کیے۔ یہی نہیں بلکہ ’جنگ‘ کے انتخابات کے حوالے سے نکلنے والے ایڈیشن بجائے خود ہماری سیاسی تاریخ کا ایک اہم ماخذ بن چکے ہیں۔ یہ چاہے 1990 کے انتخابات ہوں یا 1993 یا 1997 کے، ان سب انتخابات کے دوران ’جنگ‘ نے خصوصی ایڈیشن چھاپ کر حلقہ بہ حلقہ سیاسی رحجانات کو مرتب کرکے قارئین تک پہنچانے کی بڑی اہم روایت شروع کی۔
انتخابی ایڈیشنوں میں سیاسی جماعتوں کے منشوروں کا تجزیہ، اُن کے رہنمائوں کے مفصّل انٹرویوز وغیرہ شامل تھے۔ 6 نومبر1990 کو میاں نواز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کو اسلامی جمہوری اتحاد کی پشت پناہی حاصل تھی۔ کیونکہ اُن کا پنجاب میں بہت مضبوط اور وسیع حلقہ موجود تھا، لہذا مرکز میں حکومت کرنا اُن کے لیے اتنا مشکل نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ لیکن جلد ہی وہ بھی صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ تصادم میں آگئے۔ اُن کی حکومت بھی ختم ہوئی لیکن پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں وہ بحال ہوئی مگر معزولی اور بحالی کے درمیان کے ایک مہینے میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔
غلام اسحاق خان صوبوں میں اپنی وفادار حکومتیں قائم کروا چکے تھے۔ انہوں نے میاں نواز شریف کو اُن کی بحالی کے بعد جمنے نہیں دیا اور میاں صاحب کی حکومت صرف اسلام آباد تک محدود ہو کر رہ گئی۔ بحالی کے کچھ ہی دنوں کے بعد18 جولائی 1993 کو نواز شریف اور صدر اسحاق، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مداخلت سے اس حل پر آمادہ ہوئے کہ وہ دونوں مستعفی ہو جائیں۔ اس پورے عرصے میں ’جنگ‘ کے اداریے فریقین کو مسلسل یہ مشورہ دیتے رہے کہ وہ نظام کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نہ کریں اور ملک کے مجموعی حالات کا پاس کرتے ہوئے تصادم کے راستے پر نہ جائیں۔
نواز شریف کی حکومت کے رخصت ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر انتخابات منعقد ہونے کے نتیجے میں 19 اکتوبر 1993 کو بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ وزیر اعظم مقرر ہوئیں۔ گو کہ اس دور میں وہ اپنی پارٹی کے ایک دیرینہ رفیق فاروق لغاری کو صدر بنوانے میں کامیاب ہوگئیں لیکن کچھ ہی عرصے بعد صدر اور وزیر اعظم میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ اس پورے عرصے میں یہ تنائو قومی سیاست کو گھیرے رہا۔ اس بحران کی لمحہ بہ لمحہ تفصیلات ’جنگ‘ کے خبروں کے کالموں میں جگہ پاتی رہیں۔
نواز شریف کے دور میں کراچی میں جو آپریشن ہوا تھا اور جو کسی نہ کسی شکل میں بے نظیر کے دوسرے دور میں بھی جاری رہا اُس کی تفصیلات بھی ’جنگ‘ میں جگہ پاتی رہیں۔ اُس زمانے میں ’جنگ‘ نے مختلف سیاسی عناصر اور جماعتوں کا نقطۂ نظر قارئین تک پہنچایا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت جن دشواریوں کا شکار رہی، خاص طور سے امن وامان کے قیام میں اُس کو جن چیلنجوں کا سامنا تھا اُن کے حوالے سے ’جنگ‘ میں بے شمار اداریے اور کالم شائع ہوئے۔ بے نظیر کی دوسری حکومت کا عدلیہ کے ساتھ بھی تنائو رہا ۔یہ پہلو بھی اخبار کے کالموں میں تکرار کے ساتھ زیرِ بحث آتا رہا۔
5 نومبر1996 کو صدر فاروق لغاری نے بے نظیر کی دوسری حکومت کو برطرف کر دیا اور قومی اسمبلی تحلیل کر دی۔ 3فروری 1997 میں ایک مرتبہ پھر انتخابات منعقد ہوئے اور 17 فروری کو میاں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے۔
خوش قسمتی سے اس دور سے متعلق ’جنگ‘ کے اداریے اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ لہذا بے جا نہ ہوگا کہ اس دور کے سیاسی اتار چڑھائو سے متعلق ہم براہ راست ان اداریوں کی مدد سے ’جنگ‘ کی سوچ اور طرزِ فکر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد 5 فروری 1997 کو ’جنگ‘ نے ’عوام کی عدالت کا فیصلہ‘ کے عنوان سے اپنے اداریے میں لکھا کہ ’’ان انتخابات کا سب سے زیادہ مثبت پہلو یہی سامنے آیا ہے کہ عوام نے اپنے حق رائے دہی کے استعمال سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ پارلیمانی جمہوری نظام کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘ اخبار نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا کہ’ ’اسے اپنی آئینی ذمہ داریوں کے حوالے سے یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیئے کہ اسے ایک بار پھر پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کا موقع ملا ہے اور اس بار اسے اس سے فائدہ اٹھا کر آئین کو صحیح معنوں میں وفاقی پارلیمانی جمہوری آئین میں بدل ڈالنے کا فریضہ سرانجام دے دینا چاہیئے تا کہ اگر اس کی حکومت کو آئندہ کسی نادیدہ وجہ سے 58 (2) بی کا شکار بننا پڑے تو عدالت عظمیٰ کو یہ نہ کہنا پڑے کہ آخر کوئی سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں آئین میں آئینی طریقہ کار کے مطابق اپنی مرضی کی ہر تبدیلی لانے پر قادر ہونے کے باوجود اس دفعہ کو (اگر یہ بری ہی ہے) تو ختم کیوں نہیں کرتی۔‘‘
12 فروری 1997 کو ‘جنگ‘ نے اپنے اداریے ’’نو منتخب حکومت سے عوام کی توقعات‘‘ میں لکھا کہ:
’’بہت سے سیاسی حلقے آئین کی حقیقی پارلیمانی اور وفاقی روح کی مکمل بحالی پر اس لیے بھی زور دیتے ہیں کہ جب تک آئین اپنی بعض متنازعہ دفعات اور دوسری خامیوں اور ابہام کی صورتوں کے ساتھ برقرار رہے گا ملک کے مختلف مقتدر اداروں کے درمیان کشمکش اور تصادم کے امکانات بھی موجود رہیں گے۔‘‘
نواز شریف کے دوسرے دور اقتدارکے آغاز ہی میں دو اہم آئینی فیصلے ہوئے۔ تیرہویں ترمیم کے ذریعے آئین کا پارلیمانی تشخص بحال کر دیا گیا جبکہ چودھویںترمیم کے ذریعے ہارس ٹریڈنگ کا راستہ روک دیا گیا۔ یکم اپریل 1997 کو تیرہویں ترمیم پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مکمل اکثریت کی حمایت سے منظور کر لی گئی۔ پیپلز پارٹی نے اس موقع پر برسراقتدار جماعت کا بھر پور ساتھ دے کر قومی اتفاقِ رائے کو ممکن بنایا۔2اپریل کو ’جنگ‘ نے اپنے اداریے ’’پارلیمانی جمہوریت کی مکمل بحالی کا تاریخی اقدام‘‘ کے عنوان سے لکھا کہ یہ وہ اقدام تھا ’’جس کا ملک میں ہر جمہوریت پسند شخص ایک مدّت سے منتظر تھا اور اس کے لیے عوام کی غالب اکثریت نے بڑی کٹھن اور صبر آزما جدوجہد کی ‘‘’جنگ ‘ نے اس اقدام کا خیر مقدم کرنے کے بعد آئین میں موجود بعض دیگرقباحتوں کو دور کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ مثلاً اس نے لکھا کہ ’’پارلیمانی جمہوریت کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے فلور کراسنگ کا مکمل خاتمہ کر دینا چاہیئے اور آخری بات یہ کہ گورنروں کے تقرر سے متعلق صدارتی اختیارات کو بھی وزیر اعظم کے مشورے کے ساتھ مشروط کر دیا جائے۔‘‘
جون کے اواخر اور جولائی کے اوائل میں قومی اسمبلی اور سینٹ سے چودھویں آئینی ترمیم کے بل کی منظوری سے سیاسی نظام کا ایک بہت بڑا سقم دور ہو گیا اور فلور کراسنگ کا راستہ روک دیا گیا۔ یہ ترمیم بھی تیرھویں ترمیم کی طرح حزب اقتدار اور حزبِ اختلاف کے درمیان اتفاقِ رائے کا حاصل تھی۔ چودھویں ترمیم کو منظور کرتے وقت حزبِ اختلاف کی پیپلز پارٹی کی جانب سے پیش کردہ تین ترامیم کو بھی بل کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ چودھویں ترمیم کی منظوری ایک قابلِ ذکر واقعہ تھا البتہ جس عجلت میں اس ترمیم کو پاس کیا گیا اُس پر بعض حلقوں نے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔’جنگ‘ نے 2 جولائی 1997 کو اپنے اداریے’ ’قانون سازی میں اتنی عجلت کیوں؟‘‘ میں لکھا:
’’فلور کراسنگ، لوٹا کریسی اور سیاسی اسٹاک ایکسچینج کی دیرینہ لعنت کو ختم کرنے پر جمہوریت کے طور طریقوں کی پاس داری کرنے والے کسی فرد یا حلقے کو اختلاف نہیں اور اس پر عمومی سطح پر اظہارِ طمانیت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں دونوں پارٹیاں آپریشن چھانگا مانگا، آپریشن میریٹ ہوٹل، آپریشن پشاور، آپریشن سوات کے حوالوں سے خود لوٹا کریسی میں ملوث رہی ہیں۔تاہم اس امر کے باوجود کے فلور کراسنگ کے انسداد کے نئے قانون کی تدوین ومنظوری سے حکومت کی نیک نیتی کا مظاہرہ ہوتا ہے مگر موجودہ حکومت کی قانون سازی کے عمل میں بے جواز اور ناقابلِ فہم جلد بازی ہر اعتبار سے محل نظر ہے۔‘‘
آئین کے دو اہم سقم دور کرنے کے بعد توقع تھی کہ سیاسی عمل نسبتاً ہموار شکل میں آگے بڑھے گا مگر جلد ہی ملک کی سیاست دو تین زاویوں سے بحران کا شکار ہو گئی۔ ایک جانب عدلیہ اور انتظامیہ میں تنائو پیدا ہوا جس نے بحران کی شکل اختیار کرلی۔ دوسری طرف صدر اور وزیر اعظم کے درمیان کشمکش بالآخر صدر لغاری کے 2 دسمبر 1997 کو مستعفی ہونے پر منتج ہوئی۔ صدر لغاری کے استعفیٰ پر ’جنگ‘ نے اپنے اداریے ’’بحران میں فتح یابی کے بعد حکومت کی نئی ذمہ داریاں‘‘ میں لکھا:
’’ملک میں جاری قانونی، سیاسی اور انتظامی بحران کا جو ڈرامائی نتیجہ برآمد ہوا ہے اُس پر وزیر اعظم اور اُن کے اتحادیوں اور حامیوں کا احساسِ فتح مندی قابلِ فہم اور قابلِ جواز ہے۔ کیونکہ اب کسی ٹرائیکا کے بجائے اقتدار واختیار کی ساری طاقت بظاہر تنہا وزیر اعظم کی ذات میں مرتکز ہوگئی ہے۔۔۔۔ مگر غالباً خود انہیں بھی اس تاریخی صداقت کا احساس ہے کہ جس کے پاس جتنا زیادہ اختیار ہوتا ہے اُس پر جواب دہی کابار بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔‘‘
آئندہ دنوں میں ’جنگ‘ کے اداریوں کے عنوانات بجائے خود قومی سیاسی دھارے کے رخ اور اس کے حوالے سے اخبار کی سوچ کا مظہر تھے۔ مثلاً ’جنگ‘ کے چند اداریوں کے عنوانات کچھ یوں تھے:
’’اب قومی معیشت کی بحالی اولین ترجیح رہنی چاہیئے‘‘ (5 دسمبر 1997)، ’’اصل اقتصادی حقائق قوم کے سامنے لائیں‘‘ (8 دسمبر )،’’منصب صدارت کے لیے سینیٹر رفیق تارڑ کی نامزدگی‘‘ (17 دسمبر) اور ’’وزیر اعظم سے زیادہ ملک کا طاقتور ہونا ضروری ہے‘‘ (18 دسمبر )
1998 میں پاکستان ہندوستان کے تعلقات آویزش کے ایک اور مرحلے میں داخل ہوئے۔ مارچ 1998 ہی سے ’جنگ ‘کے اداریوں میں آنے والے دنوں کے بار ے میں خدشات کا اظہار شروع ہو چکا تھا۔ بعد ازاں ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں اور اُس کے چند دنوں بعد پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں کشمکش کا جو منظر نامہ تشکیل پا رہا تھا اُس کی ایک اچھی تصویر ’جنگ‘ کے اداریوں کی سرخیوں سے بھی عیاں ہو جاتی ہے۔ مثلاً اس دور کے چند اداریے ان سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئے:
’’علاقے میں دہشت گردی اور ہتھیاروں کی دوڑ کا مسئلہ‘‘ (13 مارچ1998)، ’علاقائی سلامتی کے لیے بڑھتا ہوا خطرہ‘‘ (14 مارچ )، ’’ملّت اسلامیہ کو بھارتی ایٹمی قوت اور عزائم سے خطرہ‘‘ (15 مارچ )، ’’بھارت میں حلف اٹھانے والی نئی حکومت کی آزمائش‘‘ (20 مارچ )، ’’اب ایٹمی پالیسی پر نظر ثانی ناگزیر ہو گئی ہے‘‘ (21 مارچ )، ’’پاکستان بھی بھارت کے بارے میں واضح مؤقف اختیار کرے‘‘ (30 مارچ )، ’’کیا صرف مذاکرات سے بھارت کے ساتھ کوئی مفاہمت ممکن ہے؟ ‘‘ (5 اپریل )، ’’جنوبی ایشیا کو تباہ کن اسلحہ سے پاک رکھنے کی ضرورت‘‘ (25 اپریل )، ’’عالمی برادری بھارت کو اس پاگل پن سے روکے‘‘ (27 اپریل )، ’’بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا موزوں تر جواب‘‘ (13 مئی )، ’’بھارتی ایٹمی دھماکے ۔۔۔۔ حکمراں سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں‘‘ (14 مئی )،’’آپشن کے انتخاب میں تدبر سے کام لینے کی ضرورت ‘‘ (15 مئی )، ’’صرف بھارت کو نہیں پوری دنیا کو مؤثر جواب دیا جاسکتا ہے‘‘ (18 مئی)، ’’بھارت کا اگلا قدم ۔۔۔۔ آزاد کشمیر پر جارحیت؟‘‘ (20 مئی )، ’’کیا قوم ایٹمی دھماکے کی قیمت دینے کے لیے تیار ہے‘‘ (21 مئی )،’’خطرہ سر پر آگیا ہے کیا تیاریاں مکمل ہیں؟ ‘‘ (24 مئی)،’’بھارت کی ممکنہ جارحیت اور ہمارا قومی طرزِ عمل‘‘ (27 مئی )، ’’قومی سلامتی کے لیے بڑھتے ہوئے نئے خطرات‘‘ (28 مئی )،اور ’’کامیاب ایٹمی دھماکے۔ دعوتِ انقلاب ‘‘ (30 مئی )
1998 کا داخلی وخارجی بحرانوں سے پُرسال ختم ہوا اور1999 کا سورج طلو ع ہوا۔بد قسمتی سے یہ سال بھی نہ تو داخلی اور نا ہی خارجی اعتبار سے کسی بہتری کی نوید لا سکا۔ اسی سال کے آخری مہینوں میں پاکستان میں کمزور جمہوریت اور غیر مستحکم سیاسی اداروں کی ایک مرتبہ پھر شکست و ریخت ہوئی اور ملک ایک مرتبہ پھر فوجی حکمرانی کی نذر ہو گیا۔
کارگل کے بحران پر اس کے بعد بھی ’جنگ‘ کے اداریے شائع ہوتے رہے لیکن جولائی کے بعد ملک کی سیاسی صورت حال ایک مرتبہ پھر داخلی امور کی طرف مرتکز ہونے لگی۔ میاں نواز شریف کی حکومت، صدر لغاری اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے عہدہ برآ ہونے کے بعد جس اعتماد سے ہمکنار ہوئی تھی، پاک بھارت تعلقات کی نئی جہتوں اور کارگل کے بحران نے اس کو زبردست ٹھیس پہنچائی۔ ایک طرف ملکی معیشت تمام تر دعوئوں کے باوجود کسی قابلِ ذکر استحکام کی طرف جاتی ہوئی نظر نہیں آرہی تھی، دوسری طرف کراچی میں امن وامان کے مسائل جوں کے توں تھے۔
ایسے میں کار گل کے بحران نے نواز شریف کی حکومت اور فوج کے تعلقات میں واضح دراڑ پیدا کرنی شروع کر دی۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات کی خلیج بڑھتی چلی گئی۔ وزیر اعظم نے جنرل مشرف کو جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا چیئرمین بھی بنا کر اُن کا اعتماد جیتنا چاہا لیکن یہ ممکن نہ ہوسکا۔ بالآخر12 اکتوبر کو وہ ڈرامائی واقعہ ظہور پذیر ہوا جس کے نتیجے میں فوج نے میاں نواز شریف کو اقتدار سے محروم کر کے ایک مرتبہ پھر حکومت پر قبضہ کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف ملک کے چیف آیگزیکیوٹیو بن گئے۔ ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ اور ایک عبوری آئینی حکم کے تحت ملک کو ایک نئے دور میں پہنچا دیا گیا۔ پاکستان کا چوتھا فوجی اقتدار آٹھ سال جاری رہا اور 2008 میں انتخابات کے کچھ عرصے کے بعد جنرل مشرف کی ایوانِ صدر سے رخصت پر اس دور کا اختتام ہوا۔
1988 سے 1999 تک پاکستان میں جو چار حکومتیں بر سرِ اقتدار رہیں اُن کے قیام اور معزولی کی یہ گیارہ سال پر پھیلی ہوئی کہانی ہماری قومی تاریخ کا ایک ایسا حصّہ ہے جس میں بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔ پاکستان میں اداروں کا عدم توازن، سیاسی اداروں کی قومی سلامتی کے اداروں کے مقابلے میں کمزوریاں، اہلِ سیاست کے باہمی تضادات، سیاسی جماعتوں میں داخلی سطح پر جمہوریت کی عدم موجودگی، بیشتر جماعتوں کا قومی امور پر کسی قابلِ ذکر ہوم ورک کا نہ کرنا__یہ اور ایسے ہی مسائل مذکورہ دور میں ہمارے بحران کا بنیادی سبب بنے رہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے اس دور سے کچھ نہ کچھ سبق ضرور سیکھا جس کا مظہر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان طے پانے والا2006 کا’ ’میثاقِ جمہوریت‘‘ ، 2010 میں منظور ہونے والی اٹھارویں آئینی ترمیم اور 2009 کا قومی مالیاتی ایوارڈ تھے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ2008 میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود 5 سال مکمل کر کے رخصت ہوئی اور اُس حکومت کو گرانے کی کوئی بڑی کوشش حزبِ اختلاف نے نہیں کی۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی 2013 ء میں قائم ہونے والی حکومت کو بھی غیر مستحکم کرنے سے پیپلز پارٹی پر مشتمل حزبِ اختلاف نے احتراز کیا۔ کسی حکومت کا اپنی مدت پوری کرنا پاکستان کے سیاسی تناظر میں ایک اہم بات قرار دی جاسکتی تھی۔
تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں لینا چاہیئے کہ حکومتِ وقت خود کو محض اسی بنا پر مستحکم سمجھنے لگے کہ حزبِ اختلاف کا اُس کی طرف روّیہ دشمنی اور معاندت کا نہیں ہے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور بھی زاویوں سے پیدا ہوسکتا ہے۔ سو کسی بھی حکومت کے پاس سہل انگاری اور عوام کی معاشی ضروریات اور امن وامان کے مسائل سے چشم پوشی کی گنجائش موجود نہیں رہتی۔