سلمان احمد صدیقی (وصفی ؔ )
ویسے تو ہر دن، ہر لمحہ والدین کا ہی ہوتا ہے، ان کے بغیر تو زندگی کا تصور ہی نہیں جو ماں باپ کے سائے سے محروم ہیں، درحقیقت وہی اس کمی کو جانتے ہیں۔ کچھ عرصے سے یہ رواج پڑ گیا کہ سال میں ایک خاص دن والد کی محبت کے نام مختص کر دیا گیا ہے۔
میرے والدِ محترم عرفان احمد صدیقی پیدائشی طور پر سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم ہیں، مگر اپنے محدود وسائل کے باوجود انہوں نے ہم چاروں بھائیوں کی پرورش بہترین انداز میں کی۔
انہوں نے کبھی بھی اپنی اس معذوری کو مجبوری نہیں بنایا اور اپنی خودداری پہ کبھی ذرا سی بھی آنچ نہیں آنے دی۔ اسی مناسبت سے میں نے کچھ نظمیں قلمبند کیں اُن میں سے دو نظمیں نذر قارئین ہیں۔
ایک باپ کی محبت
اپنوں کی چھوٹی سی خوشی خریدنے کے لیے، بار بار جاتا ہے
باپ بے لوث ہے، بے غرض ہے، کب اپنے لیے بازار جاتا ہے
دل میں محبت کا سمندر، مگر زباں ہے کہ اظہار سے قاصر نظروں نظروں
میں باپ، اپنے بچوں پہ ہوتا نثار جاتا ہے
گرچہ اولاد کی بےجا فرمائش، پورا کرنا بس میں نا بھی ہو
سمجھا بجُھا کر بالاخر باپ، ان کی ضد کے آگے ہار جاتا ہے
دن بھر کی مشقت کے بعد، گھر لَوٹنے پر درد سے وہ چُور بدن
بچوں کی اک پیار بھری نظر سے، ساری تھکن اُتار جاتا ہے
خوش نصیب ہے ہر وہ شخص، جس کا باپ سلامت ہے
اُس کے چلے جاتے ہی، چَلا دل کا سکوں اور قرار جاتا ہے
وصفیٓ جنکی خوشی کے لیے، ہر سختی ہنس کر گزار آیا
بڑھاپے میں اُسی اولاد کا سرد رویہ، اُسے اندر سے مار جاتا ہے
……٭٭……٭٭……
فخرِ فرزندگی
دوڑتا ہے جو لہو بن کر، میرے رگ و جاں میں
مرھون ہے پدر تیرا، مری عرفاں ہے جہاں میں
کھل اٹھتی ہے میری زیست، ترے اک تبسم سے
چھاؤں ہے ترے پرتؤ میں، روشنی ہے اگر ماں میں
فخر ہے مجھے خود پر، کہ میں عکسِ پدر ہوں
اس احساس کی بدولت، برتر ہوں زماں میں
عطائے ربی پہ شاکی نہیں، مگر حیراں ہے پسر تیرا
کیوں سماعت نہیں بخشی، کیوں گویائ نہیں زباں میں
جوانی کی طرح تری، بے مثل ہے ضعیفی بھی
ناپید ہے یہ استقامت، اس زمانے کے جواں میں
ہے میری تمنا کہ جیوں میں، بن کے زباں تیری
سنیں سب میری زبانی، جو جو تھا ترے گماں میں
وصفیٓ تجھے کچھ نہ دے پائے گا، سوا اس اک دعا کے
رکھے میرا مالک، سدا تجھے اپنی اماں میں