میمونہ ہارون
دل کے آنگن میں طلوع ہونے والے محبتوں کے سورج کی کرنوں کو چراغ میں سمیٹ لینے کی بات کرتے ہو، جذبوں کے بحر بے کراں کو کوزے میں بند کرنے کی بات کرتے ہو۔ تم اس رشتے کو جو اس فانی جسم کی فانی سانسوں تک محیط نہیں ہے، بلکہ اس کے انمٹ نقوش فنا ہو کر بھی فنا نہیں ہوتے، وہ رشتہ، جسم سے روح پرواز کرنے کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔ میں عشق کے اس لامکاں، لا زماں احساس کو چند ساعتوں میں مقید کیسے اور کیوں کر، کر سکتی ہوںکہ، اسے تو میں اپنی سانسوں کے بعد بھی یاد رکھوں گی!
ہر چبھتی ہوئی آنکھ جس کی چھاؤں میں جھک جایا کرتی ہے، عزم کے وہ آہنی بازو جو اپنی اولاد پر ذرّہ و بکتر کی مانند حصار باندھ لیتے ہیں، غمِ روزگار میں اپنی تمام طاقت صرف کرنے والے کمزور، مگر طاقتور بازو، عمر، فکر اور مشقت میں راتوں کو جاگ جاگ کر تھکنے اور ماند پڑنے والی کمزور آنکھیں، طاقتور بازو یہی کمزور مگر بینا آنکھیں!جی ہاں! میں جس شجرِ سایہ دار کی بات کر رہی ہوں،جس کی ٹھنڈی چھاؤں میں زمانے کی سخت جھلسا دینے والی دھوپ مجھے اور آپ کو جلانے سے قاصر رہی۔
وہی بادلِ ایثار و وفا جس کے سائے میں، میں اور آپ جلتی دوپہروں میں بھی ٹھنڈی میٹھی نیند سو گئے اور وہ بادل دھوپ میں جھلستا رہا، مگر ہمیں سایہ دے کر۔ وہ شجر ایثار جو اپنی ضرورت کا پانی بھی اکثر اپنے پھلوں، پھولوں شاخوں کو پلا دیتا ہے اور اپنی جڑوں کو صبر کے امرت سے سیراب کرتا ہے، کتنی ہی دفعہ خواہشات کی تو کیا ہی بات کرنی یہ عظیم شخصیت اپنی ضروریات کی فکر بھی ترک کر کے اپنی نسل کی صرف ضروریات نہیں سہولیات کی فکر میں گھلی رہتی ہے۔
یہ کہانی بہت طویل ہے اور شجر بہت مضبوط، اس نے صرف میرے اور آپ کی بیاضِ عمر میں کچے آموں کے موسموں میں نیم کے درختوں پر جھولا جھولنے اور مست قہقہوں کا وقت ہی رقم نہیں کیا، بلکہ جب میں اور آپ اس پر ٹیک لگائے لگائے اس پر اپنا بوجھ ڈالتے ڈالتے خود بوجھ اٹھانے کے قابل بھی ہوگئے تو بھی اس نے ہمیں اپنی ٹیک سے محروم نہیں کیا، گویا وہ تھک کر بھی نہیں تھکتا یا یوں کہہ لیں کہ وہ شدید تھکن کے باوجود بھی ہم پر اپنی تھکن ظاہر نہیں کرتا۔
مبادا وہ اپنے وعدۂ ایثار و وفا میں کہیں وعدہ خلاف نہ ٹھہرے۔آئیے ،اپنی حیات میں ایثار و وفا، مشقت، عظمت، دیانت، حفاظت، غیرت، محبت، شفقت ہمت اور استقلال کی اس آہنی چھت کو دیکھتے ہیں، جس کے تلے خاندانوں کی اکائیاں خیمہ زن ہوتی ہیں، وہی خیمے جن کی کیاریوں میں تحفظ ،فراہمے رزقِ حلال اور ضروریاتِ زندگی کے پانی سے صحت مند پھل اُگتے ہیں، پھول کھلتے ہیں، تر و تازہ ،جاذب نظر، معطر فائدہ بخش پھول ،وہی پھول جو باغ نبی ﷺ میں کھلا تو فاطمۃ الزہرا ءرضی اللہ تعالیٰ عنہا کہلایا، وہی پھول جب باغِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں کھلا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہلایا۔
جب باغ ،باغِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا تو حسن و حسین رضوان اللہ علیہم جیسے پھول کھلے، گویا جب اس پیکر عظیم کی بات کریں تو انسانوں میں اکمل الانسان، مربیوں میں اکمل المربی اور والدوں میں اکمل الوالد، اُم کلثوم، زینب، رقیہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہن کے والد محترم حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺکے عظیم نام کو سر فہرست رکھنا ضروری ہے، جو کائنات کے سب سے عظیم والد اور مربی ہیں۔
شفقت ایک اعزاز ہے اور باپ ہونا ایک مقام اور ہر مقام کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں اور ان تقاضوں کو پورا کرنے کی صورت ہی میں آپ زبردست انعام کے مستحق۔ یہی وہ عظیم والد ہیں، جو اپنی عظیم زبان سے ارشاد فرماتے ہیں ’’اکرمو اولادکم ‘‘عزت کا کیا عظیم فلسفہ ہےکہ، اپنی اولاد کو عزت دو، جب والد محترم اپنی اولاد کی عزت فرمائیں گے، تو ایسا کیوں کر ہوگا کہ اولاد وفادار، ایمان دار، فرماں بردار اور اخلاص والی نہ ہو۔
عزت ہی وہ بیج ہے جس کی جڑوں سے محبت وفاداری، ایمانداری اور اخلاق کی دیگر جڑیں پھوٹتی ہیں۔ یہی وہ ذات ﷺ تھی کہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا تشریف لاتیں تو اپنی چادر مبارک بچھا دیا کرتے کہ اس پر بیٹھو۔فرمایا کرتے فاطمہ تو میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ واہ عزت، محبت، اکرام کیا خوبصورت آمیزش ہے، حسین جذبوں کی۔
یہی تو وہ باغ تھا جہاں سے فرمانبرداری، اطاعت، اخلاص کے وہ حسین رنگ جگ مگائے، پھر بیٹی ایسی کہ جنت کی عورتوں کی سردار ہونے کا شرف پا گئی۔ نبی اکرم ﷺفرماتے ہیں۔ مفہوم کہ’’ فاطمہؓ تو جنت کی عورتوں کی سردار ہے۔‘‘بیٹی ایسی کہ جب روٹی میسر ہوتی تو اپنے بابا کی محبت ستاتی آدھی خود نوش فرماتی اور آدھی اپنے بابا کو پیش کر دیتیں اور کیوں نہ کرتیں وہ ان کے والد محترم تھے۔ تاہم ،ہم جس پرچم کے علمبردار ہیں وہ محبت ،ایفائے وفا، قربانی ،جان فشانی، رشتے ناطوں کی جڑوں کو قربانی کے بیش قیمت پانی سے سیراب کرنے کا اعلان ہے۔
وہی اعلان جو ہمیں منع کرتا ہے کہ اگر والد کے ساتھ جا رہے ہوں، تو ان سے آگے مت چلو، اگر ان کے ساتھ کھانا کھاؤ تو پہلے سالن کی اچھی بوٹی خود مت نکالو، بلکہ ان کو موقع دو،ان کے کلام کے دوران قطع مت کرو ان کی بات کو غور سے سنو، خواہ وہ بات تم پہلے کئی مرتبہ سن چکے ہو، مگر ان پر اس کا اظہار مت کرو کہ تم ان کی بات سے بیزار ہو رہے ہو اور کبھی ہمیں یہ سمجھا دیا کہ تمہارا مال گویا کہ ان کا مال ہے تم ان سے اس کے بارے میں تعارض نہ کرو!!
یہ ہے والد محترم کو اصل خراج تحسین، ان کی اصل محبت اور اس کا اقرار،جو چند ساعتوں اور لمحوں میں محصور نہیں ہے، بلکہ تاحیات کے تمام رویوں میں مطلوب ہے۔ بچے میری انگلی تھامے دھیرے دھیرے چلتے تھے۔ پھر وہ آگے دوڑ گئے ،میں تنہا پیچھے چھوٹ گیا۔ بہر کیف خیر القرون کا دور رخصت ہوا، مگر ہر دور میں مالی اپنی بساط کے مطابق یا بقدر بیج بوتا رہا، حل جوتتا رہا، پانی دیتا رہا، مشقت اٹھاتا رہا پھل پھول اُگاتا رہا۔
آئیے! ہم اپنی یادوں کی محفل میں ایسے ہی ایک عکس کی تصویر سجاتے ہیں، مگر اک عزم کے ساتھ کہ ایک خاص دن اور ایک ساعت میں ،اس محبت کو محیط کر لینا سراسر نا انصافی ہے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان ساعتوں میں یہ عہد کریں کہ اپنے والد محترم کو ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھیں گے، یہاں بھی ہم اپنی محبت و خدمت، اطاعت و وفاؤں اور عطاؤں میں ان کے لیے اپنا پورا حصہ ڈالیں گےاور اگلے جہان میں بھی اپنی بھرپور کاوش!! والدِ محترم مہربان ہیں مجھ پہ ،کتنے ان کے احسان ہیں۔
وہ میرےدل کی دھڑکن ہیں، وہ میری جان ہیں۔ان کی سانسوں سے زندہ ہوں میں، میرا تن، میرا من، میرا دھن سبھی کچھ مرا ان پہ قربان ہے۔والدِ محترم میری جان ہیں! خدمت کسی سے وہ لیتے نہیں، درد میں دوسروں کےپریشان ہوتےہیں، ضعیفی میں بھی بلند حوصلہ، گویا مردِ مجاہد کی سی شان ہیں۔
شکر ہے اے خدا، ان کی نسبت تو میری پہچان ہے، طاقت سے زیادہ انہوں نے مجھے دیا، میرے لیے کیا کچھ نہ کیا، میرے بچوں میں ان کی جان ہے، راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں ،وہ اللہ سے بھی خوب ڈرتے ہیں وہ، سخاوت کی ان کے ہیں قصے بہت۔ والدِ محترم میری جان ہیں۔