ایک بیٹے کی سبق آموز تحریر
’’ابو پچاس روپے ہیں‘‘’’تم نے ابھی صبح تو ہزار روپے لیے تھے، اب دوبارہ مانگ رہے ہو‘‘ باپ نے حیرت سے پوچھا ’’ابو میرا دوست آگیا ہے اسے بھی کافی پلانی پڑے گی‘ صبح کے ہزار روپے صبح کے دوستوں پر خرچ ہو گئے‘‘۔باپ نے جیب میں ہاتھ ڈالا‘ گن کر سو سو کے دس نوٹ نکالے اور اس کے بعد بیٹے کو دعا دی‘ میں دوست کے ساتھ باہر آ گیا‘ کافی شاپ گھر سے ذرا سے فاصلے پر تھی‘ ہم پیدل چل پڑے، راستے میں دوست سے پوچھا ’’کیا تم اب بھی اپنے والد سے پیسے لیتے ہو؟‘‘ میں نے ہنس کر سر ہاں میں ہلایا اور بولا ’’بالکل میں روزانہ کئی مرتبہ والد صاحب سے پیسے لیتا ہو ں،کبھی پچاس روپے،کبھی سو روپے اور اگر تم جیسا کوئی معزز مہمان آ جائے تو پانچ سو اور ہزار روپے بھی لے لیتا ہوں‘‘۔
وہ یہ سن کر حیران ہوا اور پھر پوچھا ’’تم پچاس سال کی عمر میں والد سے پیسے لینے والے پہلے شخص ہو‘ اللہ نے تمہیں بہت کچھ دے رکھا ہے،تمہارے بچے بھی بڑے ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود والد سے روزانہ پیسے مانگنا مجھے منطق سمجھ نہیں آئی۔‘‘
میں مسکرایا، رکا، اپنا دایاں ہاتھ نیچے رکھا اور بایاں اس کے اوپر رکھ کر بولا ’’اب بتاؤ ہمارے دو ہاتھ ہیں‘ ایک نیچے والا ہاتھ جسے ہم لینے والا ہاتھ کہتے ہیں اور دوسرا اوپر والا ہاتھ ہے، جسے ہم دینے والا ہاتھ کہتے ہیں‘ ان دونوں میں سے افضل کون سا ہے؟‘‘۔
دوست نے فوراً جواب دیا ’’اوپر والا یعنی دینے والا ہاتھ‘‘ میں نے مسکرا کر دیکھا اور پھر پوچھا ’’ اب ذرا فرض کرو، آپ پوری زندگی اوپر والا ہاتھ رہے ہو، عمر بھر اپنی اولاد اور دائیں بائیں موجود لوگوں کو صرف دیا ہو لیکن پھر اچانک آپ نیچے والا ہاتھ بن جائیں اور آپ کو معمولی معمولی ضرورت کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنا پڑے تو پھر آپ کی فیلنگ کیا ہو گی؟‘‘ اُس نے ذرا سا سوچ کر کہا ’’انسان اپنے آپ کو کمتر اور محتاج سمجھے گا۔‘‘
بالکل صحیح میرے والد پوری زندگی اوپر والا ہاتھ رہے‘ ہم جوانی تک ان سے مانگتے تھے‘ جوتے لینے ہوں یا کپڑے یا پھر مہمان آئے ہوں ہم ابو سے پیسے مانگ کر اپنا خرچ چلاتے تھے‘ ابو ہمارا واحد سورس آف انکم تھے لیکن پھر ہم معاشی طور پر آزاد ہوتے چلے گئے اور والد کے سورس آف انکم کم ہوتے چلے گئے۔
ابو نے پوری زندگی کسی سے مانگا نہیں تھا‘ میں نے دیکھا یہ مجھ سے بھی نہیں مانگتے تھے‘ ان کی جیب مہینہ مہینہ خالی رہتی تھی‘ جوتے اور کپڑے بھی پرانے ہو جاتے تھے اور اگر ان کو دوا کی ضرورت پڑتی تھی تو بھی یہ خاموش رہتے تھے، میں شروع شروع میں اس رویے پر غصہ کرتا تھا۔
میرا خیال تھا والدین کا اپنی اولاد کی دولت پر حق ہوتا ہے لیکن مجھے اندازہ ہی نہیں تھا اوپر والا ہاتھ کبھی نیچے نہیں آ سکتا اور اگر اسے کبھی آنا پڑجائے تو اس کے لیے مر مٹنے کا مقام ہوتا ہے‘ میرے والد خود کو محتاج سمجھنے لگے تھے اور آہستہ آہستہ کمرے تک محدود ہو گئے تھے۔
میرا خیال تھا یہ بڑھاپے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ والد کی عمر 75 سال ہو چکی ہے۔ یہ علیل بھی رہنے لگے ہیں چناں چہ یہ ایکٹو لائف سے نکل رہے ہیں لیکن پھر میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔
میرا بیٹا 17 سال کا تھا۔ اس نے اچانک مجھ سے پیسے لینا بند کر دیے۔ میں نے جاننا چاہا تو پتا چلا یہ تعلیم کے ساتھ ساتھ آن لائن کام کرتا ہے اور اسے اس سے ٹھیک ٹھاک آمدنی ہو جاتی ہے چنانچہ اب اسے جیب خرچ مانگنے کی ضرورت نہیں رہی، یہ ماں اور اپنی بہنوں کوبھی پیسے دینے لگا۔
آپ یقین کریں مجھے برا لگا اور میں خود کو غیر ضروری اور محتاج سا محسوس کرنے لگا‘ مجھے اس وقت سمجھ آئی اوپروالا ہاتھ جب نیچے والا بنتا ہے تو اسے کتنی تکلیف ہوتی ہے، اسی لمحے مجھےاپنے والد کی تکلیف کا اندازہ ہوا، میں سیدھا ان کے پاس گیا اور بچپن کی طرح ان سے پوچھا،ابو کیا آپ کے پاس پچاس روپے ہیں۔
میرے والد اس وقت اداس بیٹھے تھے‘ آپ یقین کریں یہ الفاظ ان کے کانوں سے ٹکرانے کی دیر تھی‘ ان کے جسم میں جیسے توانائی آ گئی، فوراً سیدھے ہو کر بیٹھے‘ بے اختیار جیب میں ہاتھ ڈالا اور پچاس روپے نکال کر میرے ہاتھ پر رکھ دیے۔اس کے بعد ان کی باڈی لینگوئج ہی بدل گئی، یہ چہکنے لگے۔
بس وہ دن ہے اور آج کا دن، میں اپنے والد سے روزانہ ایک دو مرتبہ پیسے مانگتا ہوں، باہر جانے سے قبل ان سے اجازت بھی لیتا ہوں، یہ شروع میں انکار کرتے ہیں‘ حالات کی خرابی کا شکوہ کرتے ہیں‘ احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں اور اس کے بعد مجھے جانے کی اجازت دے دیتے ہیں‘ اس سے میرے ان کے ساتھ تعلقات بھی اچھے ہو گئے ہیں اور یہ خوش بھی ہیں۔‘‘
لیکن تم والد کو پیسے کیسے دیتے ہو؟ ان کا سورس آف انکم تو کوئی نہیں‘‘ دوست نے پھر پوچھا تو میں نے ہنس کر کہا ’’میں نے اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ ان کے نام ٹرانسفر کر دیا ہے، یہ رقم سیدھی ان کے اکاؤنٹ میں آتی ہے، چیک بک بھی ان کے پاس ہے‘ یہ رقم نکلواتے ہیں اور اپنی جیب اور الماری میں رکھ لیتے ہیں اور وہاں سے نکال نکال کر مجھے دیتے رہتے ہیں۔
میں نے سبزی اور فروٹ کی ذمے داری بھی ان کو سونپ دی ہے، ملازمین ان سے پیسے لیتے ہیں اور فروٹ اور سبزی خرید کر لاتے ہیں، دودھ اور گوشت بھی ابو کی ڈیوٹی ہے، یہ خود دودھ خریدتے ہیں۔ گوشت کی دکان سے بھی انھی کا رابطہ ہے، جس دن قصاب کے پاس اچھا گوشت ہوتا ہے ،وہ ابو کو فون کر کے بتا دیتا ہے اور ابو جی خوش ہو جاتے ہیں۔
میں کپڑے بھی ان کی مرضی کے خریدتا ہوں اور اگر آپ جیسے دوست آ جائیں تو ان سے پیسے مانگ کر انھیں چائے کافی بھی پلاتا ہوں‘ اس سے میرے والد کی صحت بھی اچھی ہو گئی اور ہمارے تعلقات بھی‘‘ یہ سن کر دوست نے کہا’’آپ یہ بھی دیکھیں یہ حقیقت اس وقت پتا چلی جب آپ کا اپنا بیٹا خود مختار ہوا اور آپ نے خود کو نیچے والا ہاتھ محسوس کیا‘‘ میں نے ہاں میں سر ہلا تے ہوئے کہا ،’’ہم سب کی یہی ٹریجڈی ہے‘ ہمیں زندگی کی حقیقتوں کا ادراک اس وقت ہوتا ہے جب وقت کا پہیہ ہماری طرف گھوم کر آتا ہے، مجھے چند دن قبل کامیڈین اور اداکار افتخار ٹھاکر کا ایک کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا،ٹھاکر صاحب نے اس میں بتایا، میرا بھائی رات کو عموماً لیٹ گھر واپس آتا تھا۔ میرے والد اس کے انتظار میں صحن میں بے چین ہو کر پھرتے رہتے تھے،وہ جب آتا تھا تو والد اس سے صرف اتنا پوچھتے تھے تم کہاں رہ گئے تھے اور اس کے بعد سونے کے لیے چلے جاتے تھے۔
یہ روز کا معمول تھا،بھائی ایک رات زیادہ لیٹ ہو گئے، وہ واپس آیا اور والد کو پریشان دیکھا تو ناراض ہو کر بولا، ابو آپ ساری رات صحن میں کیوں پھرتے رہتے ہیں‘ میں اب بڑا ہو گیا ہوں‘ آپ مجھے بچہ سمجھنا چھوڑ دیں، والد نے یہ سن کر صرف اتنا کہا، بیٹا میں اللہ سے صرف اتنی دعا کر رہا تھا یہ تمہیں جلد سے جلد صاحب اولاد بنائے ،تاکہ تمہیں میری پریشانی کا اندازہ ہو سکے۔ اللہ کی کرنی کیا ہوئی؟
میرے بھائی کی شادی ہو گئی ،اللہ تعالیٰ نے اسے اولاد کی نعمت سے نوازدیا، بیٹا ذرا بڑا ہوا تو اس نے بھی رات گھر سے غائب ہونا شروع کر دیا، ایک رات میرا بھتیجا لیٹ ہو گیا، میرا بھائی باہر تھڑے پر بیٹھ کر اس کا انتظار کر رہا تھا، والد آئے اور بھائی کو تسلی دے کر بولے، بیٹا تم کیوں پریشان ہو رہے ہو تمہارا بیٹا اب سیانا ہو گیا ہے، یہ کوئی بچہ تو نہیں آجائے گا، یہ سن کر بھائی کو اپنی جوانی یاد آ گئی، وہ اٹھا اور والد کی ٹانگوں سے لپٹ کر رونا شروع کر دیا۔ افتخار ٹھاکر صاحب نے یہ واقعہ سنا کر کہا، میرے بھائی کو والد کی تکلیف کا احساس اس وقت ہوا جب یہ خود باپ بنا اور اس کے بیٹے نے بھی وہ غلطی شروع کر دی جو یہ جوانی میں کرتا تھا‘‘۔ یہ سن کر میرے دوست کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
ہم اس دوران کافی شاپ پہنچ گئے‘ کافی کا آرڈر دیا اور اس کے بعد میں نے اسے اپنا واقعہ سنایا، آج سے 20 سال قبل میرے گھر کی پانی کی موٹر خراب ہو گئی تھی‘ گرمیوں کے دن تھے‘ خوف ناک دھوپ پڑ رہی تھی اور میں مکینک کے ساتھ کھڑا ہو کر موٹر ٹھیک کرا رہا تھا۔ میرے والد مجھے بار بار کہہ رہے تھے گرمی بہت زیادہ ہے، دھوپ ہے، سائے میں آجاؤ، تمہیں سن اسٹروک ہو جائے گا لیکن میں ان کا مشورہ اگنور کر رہا تھا۔
میرا خیال تھا اگر موٹر ٹھیک نہ کرائی تو ٹینکی میں پانی ختم ہو جائے گا۔ ابا جی کہتے رہے اور میں اگنور کرتا رہا، یہ سلسلہ تھوڑی دیر چلتا رہا، والد اس دوران اندر گئے۔ میرے بیٹے کو اُٹھا کر لائے اور اسے میرے ساتھ دھوپ میں کھڑا کر دیا، میں نے تڑپ کر احتجاج کیا۔ ابا جی! یہ چھوٹا بچہ ہے اور آپ نے اسے دھوپ میں کھڑا کر دیا، آپ کتنے ظالم ہیں۔
میرے والد اس وقت تک برآمدے میں بیٹھ چکے تھے، وہ ہنسے اور اونچی آواز میں کہا، بیٹا تم بھی میرے بیٹے ہو اگر تم اپنے بیٹے کو دھوپ میں برداشت نہیں کر سکتے تو میں اپنے بیٹے کو دھوپ میں کیسے دیکھ سکتا ہوں چناں چہ جب تک تم میرے بیٹے کو دھوپ میں کھڑا رکھو گے اس وقت تک تمہارا بیٹا بھی دھوپ میں رہے گا۔
مجھے شروع میں برا لگا لیکن پھر میں نے ٹھنڈے دل سے سوچا تو میرے والد کی بات ٹھیک تھی‘ میں اگر اپنے بچے کی تکلیف نہیں دیکھ سکتا تھا تو میرے والد میری تکلیف کیسے برداشت کر سکتے تھے؟ ہم سب کی بدقسمتی ہے ہم حقیقتوں کو اس سے پہلے انڈر اسٹینڈ نہیں کر پاتے جب تک ہم خود اس صورت حال کا شکار نہیں ہوتے۔