بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے پہلی آئین ساز اسمبلی سے 11؍اگست 1947ء کو تقریر کرتے ہوئے قوم کو خبردار کیا تھا کہ اگر رشوت، کرپشن اور بلیک مارکیٹنگ کے خلاف ٹھوس اقدامات نہ کئے تو یہ معاشرے کی تباہی ہوگی۔ اب انہیں کیا پتا تھا کہ جس قوم کیلئے وہ ملک بنا رہے ہیں، وہ 75؍سال بعد بھی محض ہجوم ہے۔
مایہ ناز مصنف Stanley Wolpert نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’جناح کا پاکستان‘‘ میں ان کی اس تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ، جناح نے واضح کیا کہ حکومت کی دو بنیادی ذمہ داریاں ہیں۔ اول اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت۔ دوم ملک کو کرپشن، رشوت ستانی اور اقربا پروری جیسے ناسور سے بچانا۔ بدقسمتی سے ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے دونوں پر توجہ نہیں دی اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ’’کرپشن ہماری ریاست کا ’’پہلا ستون‘‘ بن گئی ہے جو باقی چار ستونوں کو دیمک کی طرح کھا رہی ہے۔
کرپشن کی اس بیماری میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اس کو ختم کرنے کی بجائے ہماری بیوروکریسی اور حکمرانوں نے ایسے قوانین بنائے جس سے اس معاملے کو سیاسی طور پر استعمال کیا گیا، اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے!قائدِ اعظم نے اپنی پہلی ہی تقریر میں اس طرف اشارہ اس لئے کیا تھا کیونکہ، ان کے بقول بھارت میں یہ ناسور بہت نظر آرہا تھا اور انہیں خطرہ تھا کہ یہ وبا پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
پاکستان میں اس وبا نے زیادہ زور پہلی افغان جنگ کے بعد پکڑا جب ڈرگ یا منشیات بے دریغ انداز میں یہاں آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پیسہ کی ریل پیل نظر آنے لگی جس کی لپیٹ میں اس وقت کے چند جرنیل بھی آئے اور سیاستدان بھی۔ یہ وہی زمانہ تھا جب انڈر ورلڈ نے بھی پیر جمانے شروع کردیئے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ طاقت کا ایک ذریعہ بن گئی۔ اایسے ایسے واقعات دیکھنے میں آئے کہ بڑے بڑے منشیات فروشوں اور مافیا کو کیسے تحفظ دیا گیا۔ یہی نہیں ان الزامات میں بند ملزمان کو جیلوں اور عدالتوں میں پیشی کے موقع پر بھی اپنا کاروبار جاری رکھتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
’’کرپشن‘‘ ریاست کا پہلا ستون بن گیا، یہ باقی چار ستونوں کو دیمک کی طرح کھارہا ہے
جیلر اور پولیس والے ان کے نوکر زیادہ اور قانون کے محافظ کم نظر آتے تھے۔ ایسی ان گنت کہانیاں ہیں۔ ایک بڑے اسکینڈل میں بند ایک بینکر نے اپنی سزا کم کرانے کے سلسلے میں مختلف طریقہ کار اختیار کیا۔ جیل مینول کے مطابق اگر کوئی قیدی اپنا خون دیتا ہے، سانپ مارتا ہے، اچھے طریقے سے رہتا ہے، کوئی امتحان دیتا ہے تو سزائوں میں کمی ہوتی رہتی ہے۔ ان موصوف نے جعلی خون دیا، مرے ہوئے سانپ منگوا کر جیلر کو دیئے اور اس طرح 10؍سال کی سزا 5؍سال کروا لی۔
بہرحال یہ عجب کرپشن کی غضب کہانیاں ہیں جہاں جیلیں بھی ان کیلئے آرام کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ حال ہی میں ہم سب نے شاہ رخ جتوئی، سعید بھرم اور دیگر قیدیوں کے آرام کی خبریں سنی ہوں گی، یہ ایک الگ دنیا ہے۔ افغانستان کی پہلی جنگ کے دوران کئی بلین ڈالرز کی داستانیں آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔ اس کی ایک ہلکی سی جھلک ہمیں کتاب "Decep Tiom" میں ملتی ہے۔ بہرحال جناح کے رہنما اصولوں کو ہم نے ان کی وفات کے ساتھ ہی دفن کردیا۔
بانیٔ پاکستان کی آنکھیں بند ہوتے ہی مفاد پرست ٹولے نے ہوس اقتدار میں ان تمام بنیادی اصولوں کو پس پشت ڈال کر جن کا ذکر قائداعظم نے پہلی آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا، اپنے مطلب کے اصول اور ضابطے طے کردیئے جس کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام نے جنم لیا اور جس کی ابتداء لیاقت علی خان کے قتل اور پھر اس کی تحقیقات پر پردہ ڈالنے سے ہوئی۔ ملک میں سیاست کو بھی نشانہ بنایا گیا اور ایسے قوانین بنائے گئے جن سے سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں کو رشوت، کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات لگا کر نااہل قرار دیا گیا۔
جناح کا بیانیہ تو ملک کی ویلفیئر اسٹیٹ بنانا تھا، پارلیمانی طرز جمہوریت پر چلانا تھا، ہم نے سیکورٹی اسٹیٹ بنا ڈالا، لہٰذا نہ اچھا تعلیمی نظام دے کر نوجوانوں کی کردار سازی کرسکے، نہ ہی بنیادی جمہوری اصول اپنا سکے۔ جب اخبارات نے اس پر آواز بلند کرنا شروع کی تو آزادی صحافت پر ہی پابندی لگا دی گئی۔
پاکستان کے سینئر ترین بیوروکریٹ جناب روئیداد خان جو ان 249؍لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے 1949ء میں پاکستان سول سروس کا امتحان پاس کیا تھا، سے ایک بار اس حوالے سے بھی گفتگو ہوئی جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ ہماری اشرافیہ نے شروع کے ادوار سے ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ نہ اس ملک میں نہ آزاد عدالیہ چاہئے، نہ غیر جانبدار پریس! ’’ہم اس سمت کا تعین ہی نہیں کر پاتے جو قائداعظم کی سمت تھی۔ میرٹ کے قتل سے لے کر اقربا پروری کا راستہ اپنا لیا گیا اور ملک میں حکمران کا قانون چلا ،قانون کی حکمرانی نہیں۔‘‘
کرپشن، رشوت اور بلیک مارکیٹنگ کو ختم کرنے کے قوانین تو بنائے اور اس کی آڑ میں پہلے مارشل لا کے بعد دکھاوے کیلئے کچھ سزائیں بھی ہوئیں مگر پھر ان کالے قوانین کو اپنا لیا گیا جو انگریزوں نے تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے بنائے تھے۔
75سالوں میں ’’احتساب‘‘ سیاست کی نذر ہوگیا
’’احتساب‘‘ کا نعرہ بھی کوئی نیا نہیں مگر یہ جب بھی سیاسی مقاصد کیلئے استعمال ہوا، اس کا فائدہ صرف ان عناصر کو ہوا جو کرپشن کو اپنا ذریعہ معاش سمجھتے تھے۔ اس کی مثال ہمیں 1949ء یعنی پاکستان کے قیام کے دو سال بعد ملتی ہے جب ایک ’’پروڈا‘‘ نامی قانون بنایا گیا یعنی Pabli and Representative offices (Disqualficatiom Act) بنا اور اس کے ذریعے ایک تلوار مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے سر پر لٹکا دی گئی۔ جو بھی حکومت وقت کے خلاف بولا یا کابینہ کے اندر سے گڑبڑ کی کوشش کی، اس پر جانبداری، اقربا پروری اور بدعنوانی کے الزامات لگا کر 10؍سال کیلئے نااہل قرار دے دیا گیا۔
ویسے تو یہ ایکٹ 1949ء میں آیا مگر عملی طور پر اس کا اطلاق 1947ء سے کیا گیا۔ اس قانون کو آئین ساز اسمبلی نے منسوخ کردیا۔ ابھی گورنر جنرل غلام محمد اور اسمبلی اراکین کے درمیان اختیارات کی جنگ چل رہی تھی کہ 1958ء میں ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کردیا گیا۔ اس سے پہلے ایک گہری سازش کے تحت بیوروکریٹ محمد علی بوگرہ کی حکومت نے حیران کن فیصلہ کیا اور اس وقت کے آرمی چیف کو وزیر دفاع بنا دیا۔ بہرحال اقتدار کی اپنی لذت ہوتی ہے اور ایوب خان نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ حضرت علیؓ کا قول ہے ’’جس پر احسان کرو، اس کے شر سے ڈرو۔‘‘
اقتدار پر قبضہ کرتے ہی انہوں نے دو ایسے قانون بنائے ’’احتساب‘‘ کے نام جس کا واحد مقصد رشوت، کرپشن اور بدعنوانی کے نام پر سیاستدانوں کو سیاست سے باہر کرنا تھا اور پھر اپنے مطلب کے لوگوں کو اوپر لانا۔ اب تصور کریں جن لوگوں کو ایک نئے قانون ’’ابیڈو‘‘ کے تحت سیاست میں حصہ لینے سے ہی باہر کردیا گیا۔ ان میں ایک سو کے قریب ممتاز سیاستدان ، جن میں سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی ، ممتاز محمد خان دولتانہ، ایوب کھوڑو، خان عبدالقیوم خان وغیرہ شامل ہیں۔ اس قانون کے خوف سے بہت سو نے رضاکارانہ طور پر بھی سیاست سے توبہ کرلی۔
ایسے بہت سے لوگوں کے نام قدرت اللہ شہاب کی مشہور کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں درج ہیں۔ (دفعہ596 اور 597) بعد میں ان میں سے کچھ رہنما ڈیکلیئرنگ کرا کر واپس آگئے۔یہی نہیں، بقول شہاب صاحب صرف مشرقی اور مغربی پاکستان کے بڑے سیاستدان ہی نہیں، کوئی دو ہزار کے قریب اوپر سے نچلی سطح کے سیاسی کارکن بھی اس کالے قانون ’’ابیڈو‘‘ کا شکار ہوئے۔ اس کے بعد جو بات انہوں نے لکھی، وہ آنے والے حکمرانوں خاص طور پر آمروں کی آنکھیں کھولنے کےلئے کافی تھا ،مگر اس لذت اقتدار کو کون چھوڑنا چاہتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ان اعدادوشمار سے صرف ایک بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ ایک فوجی افسر چھائونیوں کی محدود فضا میں اپنی عمر عزیزیہ کے باون سال گزارنے کے بعد اچانک ایک سول حکومت کو زبردستی برطرف کرتا ہے اور خود مسنداقتدار پر قبضہ جما کے بیٹھ جاتا ہے لیکن اس ایک عمل سے یہ لازم نہیں کہ اس پر عقل و دانش کی ایسی بارش ہوجائے کہ ملک بھر کے تمام اکابرین اور ہزاروں کارکنوں کو یک جنبش قلم نااہل ثابت کرنے میں حق بجانب ہوں‘‘۔
جب آپ سیاست کی نرسری میں پودہ ہی غلط لگائیں گے تو نہ درخت سیدھا نکلے گا، نہ وہ پھل دار ہوگا۔اس کے بعد سے ’’کرپشن‘‘ کو ہمیشہ سے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا صرف اور صرف ایسے مخالفین کے خلاف جس کاسب سے زیادہ فائدہ کرپٹ عناصر کو ہوا ،خاص طور پر کرپٹ بیوروکریٹس کو جنہوں نے حکمرانوں سے سازباز کی، ہاں میں ہاں ملائی۔ یہی پاکستان کے 75؍سال کی کہانی ہے جس کے نتیجے میں بدعنوانی بڑھی، کرپٹ عناصر میں اضافہ ہوا، میرٹ کا کلچر ختم ہوا اور ’’احتساب‘‘ محض ایک نعرہ اور دکھاوا بن کر رہ گیا۔ یوں کرپشن ہماری پہچان اور ضرورت بنا دی گئی۔
آنے والے حکمرانوں نے اس ہتھیار کو موثر انداز میں اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔ ایوب خان، یحییٰ خان یا ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کئی سو افسران نکالے گئے، لیکن نہ ان پر کوئی مقدمہ چلا، نہ تحقیقات! کیونکہ یہ سب کارروائی نوکر شاہی نے حکمرانوں کی ہاں میں ہاں اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کر کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایماندار افسران نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کرپٹ افسران متبادل کے طور پر بھرتی ہوگئے۔ ’’کچھ دو اور کچھ لو‘‘ کی بنیاد پر!اس سب کے باوجود ’’کرپشن‘‘ سیاستدانوں میں انتہا کو نہیں پہنچی تھی کیونکہ سیاست کے کچھ اصول تھے، نظریہ تھا چاہے وہ محترمہ فاطمہ جناح ہوں، شیخ مجیب الرحمان ہوں، مولانا مودودی ہوں یا خان عبدالغفار خان، نوابزادہ نصراللہ خان ہوں یا اصغر خان، ان پر کبھی کرپشن کا الزام نہیں لگا۔ سب سے اہم کردار پاکستان کی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو کا ہے۔
جتنے ان کے ہامی ہیں، اتنے ہی مخالف! اور وہ تو برسراقتدار بھی رہے۔ ایوب خان کی کابینہ کے وزیر کے طور پر بھی اور بعد میں وزیراعظم کے طور پر بھی! ایوب اور جنرل ضیاء الحق دونوں بھٹوکے مخالف بھی رہےمگر نہ ایوب خان ادوار میں اور نہ ضیاءالحق کے دور میں بھٹوکے خلاف کرپشن کا کوئی مقدمہ قائم کرسکے۔ اس کے بدترین مخالفوں نے بھی اس پر یہ الزام نہیں لگایا۔ آج بھی 79؍کلفٹن کراچی اور المرتضیٰ اس کے آبائی شہر لاڑکانہ کے سوا کسی اور شہر میں مکان نہیں مگر یہ بات پی پی پی کی بعد میں آنے والی سیاسی قیادت کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی۔
سیاست میں کرپشن ایک ناسور کے طور پر اس وقت سامنے آئی جب ملک سے نظریاتی سیاست کا خاتمہ کرکے اس کو بلاسوچے سمجھے منصوبے کے تحت کاروبار بنا دیا گیا۔ مقصد صاف تھا جمہوریت اور سیاست کو گالی بنا دیا جائے تاکہ لوگوں کا اعتبار اس ’’نظام‘‘ پر سے ہی اٹھ جائے۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد کوئی بھی اس قد کا سیاستدان آ بھی نہ سکا۔ کسی حد تک وہ قوتیں اس میں کامیاب رہیں مگر ریاست کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی اور پھر کرپشن کے ایسے ایسے اسکینڈل سامنے آئے جس کی مثال ہمیں 1947ء سے لے کر 1977ء تک نہیں ملتی۔
بس یوں سمجھ لیں کہ سیاست ’’غیر سیاسی‘‘ ہوگئی۔ سیاست اور کاروبار کا ’’ملاپ‘‘ ہوا تو مفادات کا ٹکرائو صاف تھا۔ ایک طرف معاشرے کو لسانی و فرقہ واریت، ذات پات، برادری میں تقسیم کیا گیا تو دوسری طرف ایسے مزید قوانین بنائے گئے کہ کسی بھی جمہوری حکومت کو 58-2(B) کے تحت کرپشن کا الزام لگا کر برطرف کردینا یعنی ایک ہاتھ سے تھپکی تو دوسرے ہاتھ سے تھپڑ!
کرپشن کو بے نقاب کرنے میں میڈیا کا کردار
قیام پاکستان کے بعد سے ہی جن دو اداروں کی آزادی اور خودمختاری ختم کی گئی تاکہ ریاست بھی جمہوری اصولوں پر استوار ہو ہی نہ پائے، وہ عدلیہ اور آزاد پریس ہے۔ ان دونوں اداروں سے منسلک افراد نے طویل جدوجہد بھی کی مگر ہر ادارے کی طرح یہاں بھی ’’یس سر‘‘ کہنے والوں کی کمی نہیں؎
قلندارانہ وفا کی اساس تو دیکھو
تمہارے ساتھ ہے کون آس پاس تو دیکھو
کسی بھی صحافی یا اخبار کیلئے سب سے بڑی سند یہ ہوتی ہے کہ حکومت وقت یا وقت کے حکمراں اس سے ناراض رہیں جس کی بہرحال ان کو قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ کبھی اخبار پر بندش کی صورت میں تو کبھی اشتہارات بند ہونے کی صورت میں کبھی ’’خبر‘‘ دینے والا صحافی خود خبر بن جاتا ہے۔ حکمرانوں کی کرپشن کو بے نقاب کرنے پر صحافی کی زندگی کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں، کبھی مدیر دبائو میں تو کبھی مالک کو بھی بند کردیا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ سب کچھ ہوا۔
پاکستان میں صحافت بیشتر ادوار میں پابند سلاسل ہی رہی ہے اور یہ دبائو آج بھی برقرار ہے مگر اس سب کے باوجود صحافیوں نے اپنی خبروں کے ذریعے نہ صرف ’’غضب کرپشن کی عجب کہانیاں‘‘ عوام تک پہنچائیں بلکہ اس کی قیمت بھی ادا کی گو کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں یہ نعرہ ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ سیاسی مقاصد کیلئے لگایا گیا مگر میڈیا نے اس کو بھی بے نقاب کیا۔
پاکستان میں بلاشبہ کرپشن کی بڑی بڑی خبروں کا کریڈٹ ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہائوس جنگ گروپ کو خاص طور پر ’’جنگ‘‘ اخبار کو جاتا ہے، جس نے 75؍سالوں میں تمام تر مشکل صورتحال میں بھی انڑ کیس سے لے کر مہران بینک یا اصغر خان کیس ہو یا عالمی شہرت یافتہ پانامہ کیس ہو یا حال میں آنے والا پینڈورا کیس ہو، اپنی تحقیقاتی رپورٹنگ کے ذریعے ہر حکومت اور حکمران کی ناراضی مول لی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بے نظیر بھٹو شہید ہوں یا ان کے شوہر آصف علی زرداری، میاں نواز شریف یا اب موجودہ وزیراعظم عمران خان، سب نے ہی اس ادارے اور اس میں کام کرنے والے صحافیوں کو ٹارگٹ کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے؎
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی بات نئی!
ایوب خان نے تو 1960ء اور پھر 1963ء میں پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس لاکر پریس کی آواز دبا دی، جس کے نتیجے میں اس وقت کے گندھارا انڈسٹری کی منتقلی اسکینڈل، جس میں مبینہ طور پر ان کے بیٹے کا نام آرہا تھا، دبا دیا گیا۔پاکستان میں ادارہ جاتی کرپشن کی کہانیاں بھی سامنے آئیں اور پھر یوں بھی ہوا کہ محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو کی دو حکومتوں اور نواز شریف کی حکومتوں کا خاتمہ 1988ء سے لے کر 1996ء تک دوسرے الزامات کے ساتھ کرپشن کو بنیاد بنایا گیا۔
اس سلسلے میں ’’جنگ‘‘ کو ایک منفرد مقام حاصل ہے خاص طور پر تحقیقاتی رپورٹنگ کے حوالے سے اور چند مثالیں کامران خان، عمر چیمہ، انصار عباسی، احمد نورانی اور کچھ اور ساتھیوں کی خبروں کی جنہوں نے بلاشبہ بڑی خبریں بریک کیں۔ دیگر اخبارات اور میڈیا سے خاص طور پر میگزین نے بھی اس سلسلے میں نمایاں خدمات انجام دی۔
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پچھلے 35؍سالوں میں یہ میڈیا ہی تھا جس نے اس ناسور کو ایشو بنایا اور یہی وجہ ہے حکومتوں کی برطرفی کی چارج شیٹ میں ان خبروں کے تراشے شامل کئے گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ’’دی نیوز‘‘ اور ’’جنگ‘‘ میں انڑ کیس رپورٹ ہوا جس میں یہ غیر معمولی بات سامنے آئی کہ کس طرح پیروں میں بم باندھ کر، تاوان وصول کیا گیا ۔
اس خبر پر محترمہ خاص طور پر آصف علی زرداری ’’جنگ‘‘ اور کامران سے بہت ناراض ہوئے کیونکہ یہ کیس بنیاد بنا، 1990ء میں حکومت کے خاتمےکا! یہ وہی زمانہ تھا جب ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کی اصطلاح سامنے آئی،مگر اس کے بعد جب 1990ء میں جام صادق علی وزیراعلیٰ سندھ بنے اور مرکز میں میاں نواز شریف کی حکومت بنی تو احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمان ’’جنگ‘‘ اور ’’دی نیوز‘‘ کی حکومتی کرپشن کی تحقیقاتی رپورٹنگ سے اتنے ناراض ہوئے کہ انہوں نے دھمکیاں دینی شروع کردیں، ایڈیٹر کے ٹیلیفون ٹیپ کروانے شروع کردیئے اور مالکان پر دبائو ڈالا گیا کہ چند صحافیوں اور ایڈیٹرز کو فارغ کیا جائے۔ اب میاں صاحب ناراض اور بی بی خوش ہوئیں۔
جام صادق کی حکومت میں سندھ کے مشیر داخلہ عرفان اللہ مروت اور ڈی آئی جی، سی آئی اے سمیع اللہ مروت کو مبینہ کرپشن اور اپنے مخالفین پر جھوٹے مقدمات کی خبروں نے میاں صاحب کو مجبور کردیا کہ وہ اس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کریں جس پر انہوں نے جنرل (ر) شفیق الرحمان کو کراچی بھیجا۔ اس وقت جام صاحب کو صدر اسحاق خان اور مقتدر حلقوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ وینا حیات جنسی ہراساں کیس نے اور بھی سنسنی پھیلا دی تھی۔ جنرل (ر) شفیق کی رپورٹ کی بنیاد پر سمیع اللہ مروت کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اسی عرصے میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا غالباً سب سے بڑا کیس مہران بینک یعنی اصغر خان کیس بھی سب سے پہلے ’’جنگٔ‘‘ اور ’’دی نیوز‘‘ نے رپورٹ کیا۔ اپوزیشن میں رقوم تقسیم کی گئیں، ان میں بڑے سیاستدانوں کے، جن میں نواز شریف، غلام مصطفیٰ جتوئی اور سیدہ عابدہ حسین وغیرہ کے نام سامنے آئے۔ ایک خبر جتوئی صاحب کے نگران دور کی اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے 90؍پلاٹ کی آئی تو اس پر خاصا شور ہوا کیونکہ اس کی تردید بھی نہیں کی گئی۔ جتوئی صاحب سے ایک بار اس کے بارے میں، میں نے پوچھا تو کہنے لگے۔ ’’جو اختیارات تھے، انہی کا استعمال کیا۔‘‘
مہران بینک اسکینڈل نے اس وقت ایک نیا موڑ لیا جب ایئرمارشل اصغر خان نے سپریم کورٹ کو ایک خط کے ذریعے سوال اٹھایا کہ کیا "ISI" کا سیاسی سیل اب تک موجود ہے جو 1974ء میں بھٹو صاحب نے اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے بنایا تھا۔ اس کا جواب آنے میں کئی سال لگ گئے۔ یہ سوال غالباً انہوں نے اس لئے اٹھایا تھا کیونکہ "ISI" کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی کے حلف نامہ میں یہ تحریر تھا کہ اپوزیشن کے سیاستدانوں میں رقوم اس وقت کے آرمی چیف کے کہنے پر تقسیم کی گئی تھی۔ کئی سالوں بعد غالباً 2012ء میں سپریم کورٹ نے 1990ء کے انتخابات کو دھاندلی شدہ قرار دیا اور FIA کو ہدایت کی کہ ان تمام افراد کے خلاف ایکشن لیا جائے جنہوں نے رقم لی اور جنہوں نے رقوم تقسیم کیں۔ اس سلسلے میں کوئی دو سال پہلے FIA کے سابق ڈی جی بشیر میمن نے کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی کہ پیسہ تقسیم کرنے والے تمام افسران اب بیرون ملک مقیم ہیں یا ان کا پتہ نہیں مل رہا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اتنا بڑا اسکینڈل جس کو بریک کرنے کا سہرا بہرحال ’’جنگ‘‘ کو ہی جاتا ہے کہ آج تک اپنے منتقی انجام تک نہیں پہنچایا گیا۔
حالیہ تاریخ کا دوسرا بڑا اسکینڈل 2016ء میں بلاشبہ ’’پانامہ‘‘ کیس ہے جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کا تعلق مختلف افراد جن میں سیاستدان، بیوروکریٹ، بزنس مین وغیرہ سے ہے، کی ’’آف شور‘‘ کمپنیوں سے تھا۔ اہم سوال یہی تھا کہ انہوں نے ان کو اپنی انکم ٹیکس میں ظاہر کیا تھا یا نہیں! یہ کام بڑی محنت سے صحافیوں کی ایک بین الاقوامی کنسورشیم نے کیا۔ اس میں پاکستان سے ’’جنگ‘‘ اخبار سے تعلق رکھنے والے تحقیقاتی خبروں کے حوالے سے مشہور عمر چیمہ کو شامل کیا گیا۔
ویسے تو اس میں ہمارے ملک سے کئی سو افراد کے نام شامل تھے مگر جس نام نے سیاست میں ایک بار پھر ہلچل مچا دی، وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں کے نام تھے۔ اب میاں صاحب کے سامنے دو چوائس تھیں یا تو وہ اخلاقی ذمہ داری لیتے ہوئے استعفیٰ دے دیتے جو کہ ہمارے نکتہ نظر سے ایک اچھی مثال بنتی یا پھر عدالتوں کا سامنے کرتے۔ انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا جبکہ کچھ سربراہان مملکت اور وزرائے اعظم نے پہلا راستہ اختیار کرتے ہوئے استعفیٰ دیا۔
سپریم کورٹ میں معاملہ گیا تو عدلیہ نے ایک JIT تشکیل دی اور پھر فیصلہ پارٹی رہنمائوں کا دفاع ،یہ ہے کہ میاں نواز صاحب کو اقامہ پر سزا ہوئی ہے اور اس وقت اپیل زیرسماعت ہے جس کا تعلق بعد میں ٹرائل کورٹ سے 10؍سال کی سزا سے ہے۔ مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف بھی فیصلہ آیا اور ان کی اپیلیں بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہیں۔ اب نواز شریف کب واپس آکر عدالت کے سامنے سرینڈر کرتے ہیں، یہ دیکھنا باقی ہے مگر یہ مقدمہ ان کے اور ان کی بیٹی کی سیاست کیلئے ’’میک اور بریک‘‘ ہے۔
دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری بھی کرپشن یا منی لارنڈنگ کے مقدمات اور الزامات کی دلدل سے ابھی باہر نہیں آئے۔ صرف وہی نہیں ان کے کئی قریبی دوست اور سندھ حکومت کے کچھ وزیر اور مشیروں کو بھی اربوں روپے کی کرپشن اور آمدنی سے زائد اثاثوں جیسے الزامات کا سامنا ہے۔
سچ پوچھیں تو ’’احتساب‘‘ کا نظام ہم قائم ہی نہیں کرسکے کیونکہ نہ احتساب ہوتا ہوا نظر آیا، نہ انصاف! جنرل (ر) پرویز مشرف نے 12؍اکتوبر 1999ء کو اقتدار پر قبضہ کیا تو اپنے سات نکاتی ایجنڈے میں کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف احتساب کا اعلان کیا۔ قومی احتساب بیورو کی تشکیل اسی سلسلے کی کڑی تھی جس کے پہلے سربراہ جنرل (ر) امجد مقرر ہوئے جو ایک اچھی شہرت رکھنے والے جنرل کے طور پر مشہور تھے۔ انہیں جلد ہی احساس ہوگیا کہ مشرف صاحب کو ’’بلاامتیاز‘‘ احتساب نہیں چاہئے بلکہ ان کا ٹارگٹ شریف خاندان تھا۔ جنرل (ر) امجد نے جب کچھ افسران کی فیکٹریوں پر چھاپے مارے اور کاروباری حضرات کو پکڑا تو انہیں مشرف صاحب نے ہاتھ ہلکا رکھنے کو کہا۔ یہی ان کے استعفیٰ کی بنیاد بنا بعد میں آنے والوں نے اس وقت کے آرمی چیف کے پیغام کو بہتر سمجھا۔
موجودہ وزیراعظم عمران خان جو اس وقت سیاست کی نرسری میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے مشرف کے ابتدائی سالوں میں ان کے ساتھ رہے کیونکہ وہ خود بھی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف تھے مگر جب مشرف صاحب نے ماضی کے آمروں کی طرح کرپشن کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا اور احتساب کو بلاامتیاز بنانے کیلئے دو بڑی جماعتوں کو توڑنے کا ذریعہ بنا دیا۔ کرپشن کی فائلیں تیار کی گئیں اور پھر دکھا کر پی پی پی کے ایک گروپ کو ساتھ ملایا تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے ہی گجرات کے چوہدریوں کے ذریعے مسلم لیگ (ق) معرض وجود میں آئی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت تو عمران خان نے اسی بنیاد پر جنرل مشرف کا ساتھ چھوڑ دیا مگر پچھلے ساڑھے تین سالوں سے وہی چوہدریوں جناب چوہدری شجاعت اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ کے سہارے ان کی حکومت مرکز اور پنجاب میں موجود ہے۔ یہی نہیں جب انہوں نے ناراضی ظاہر کی تو ’’نیب‘‘ سے نوٹس آگیا، معاملات درست ہوئے تو ریفرنس بند…!
اس میں کوئی شک نہیں کہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے دور میں ’’نیب‘‘ کرپشن کی کسی بند فائل کی طرح خاموش دکھائی دیتا ہے اور اس دور میں خاصا متحرک مگر ماضی کے ہر دور کی طرح ٹارگٹ اس وقت کی اپوزیشن ہی نظر آتی ہے ورنہ حکومتی وزراء کے خلاف انکوائری اور ریفرنس اس تیزی سے بند نہیں ہوتے یا سست روی کا شکار نہ ہوتے۔ مالم جبہ ہو، بی آرٹی ہو، شکر یا دوائوں کے بڑے اسکینڈلز ہوں جن میں اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات تھے، اتنی خاموشی سے ’’الماریوں‘‘ میں واپس نہ رکھ دی جاتیں۔
بقول پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ایک سابق افسر جو آج کل کراچی میں تعینات ہیں، میڈیا کو صرف کراچی،لاہور یا اسلام آباد کی کرپشن نظر آتی ہے، یہاں (پشاور) میں تو دستور ہی نرالہ ہے۔ اب کیا کریں خیبر پختوانخواہ کی حکومت نے اور پی ٹی آئی جو ’’احتساب‘‘ کا نعرہ لگا کر الیکشن جیتی تھی، اس کے مطابق الٹا اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے اپنے صوبے میں ہی احتساب کمیشن بند کردیا۔
غالباً ان 75؍سالوں میں ’’احتساب‘‘ سیاست کی نذرہوگیا اور کرپشن حکمرانوں کی نذر۔۔! جن پر سخت ترین ہاتھ ڈالا جاسکتا تھا ’’معاملات‘‘ بھی انہی سے طے کئے جاتے ہیں اور جن پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہ حکمرانوں کو ہے اور نہ عدلیہ کو! وہی پارسا کہلائے اور مسیحا بھی…! رہ گئی بات میڈیا کی تو احتساب سے بالاتر تو وہ بھی نہیں اور نہ ہونا چاہئے مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر آج کرپشن پاکستان کا ایک بڑا ایشو بنا ہے تو اس کا کریڈٹ بلاشبہ میڈیا کو جاتا ہے جس میں سرفہرست سب سے بڑا میڈیا گروپ ’’جنگ‘‘ کی 75؍سالہ رپورٹنگ کا کام بہرحال نمایاں ہے۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ اب مسئلے کا حل کیا ہے۔ کیا بلاامتیاز احتساب ممکن بھی ہے۔ اگر احتساب کرنے والا خود ہی اس کی زد میں ہے، اگر تحقیق کرنے والے افسران خود ہی کرپٹ ہوں، اگر ریفرنس ایسے بنائے جائیں کہ فائدہ ملزمان کو پہنچے، اگر چمک ’’انصاف‘‘ دینے والوں کو بھی متاثر کرے اور سزا مل بھی جائے تو جیل میں قیدی کم اور VIP افسر زیادہ نظر آئیں تو آپ معاشرے سے کرپشن کیسے ختم کرسکیں گے؟
کرپشن کے خلاف باتیں کرنا ایک بات ہے، کسی کو مافیا کہنا دوسری بات ہے مگر محض بیانات سے بات نہیں بنے گی جب تک اس ملک میں حکمرانوں کا قانون رہے گا اور قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی اور پھر انصاف دینے والے کے اپنے ہاتھ بھی شفاف ہوں کہ کوئی انگلی نہ اٹھا سکے، فیصلوں پر پر یا ان کے کردار پر!
اس ناسور کا تعلق بہت گہرا ملک کی سلامتی سے بھی ہے اس لئے اس کو قومی سلامتی پالیسی کا بھی حصہ ہونا چاہئے۔ تصور کریں اگر ماضی کی طرح کسی میزائل کی خریداری میں بھی کمیشن کمایا گیا ہو اور وہ بھی اعلیٰ ترین عہدہ تک، اگر ملک کے راز لاکھوں ڈالرز کے عوض لیک کردیئے جائیں، (میں جس طرف اشارہ کررہا ہوں، اس میں اہم لوگ پکڑے بھی گئے اور سزا بھی ہوئی مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایسا آگے نہیں ہوسکتا)۔ ہمیں الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔
بانی پاکستان نے ایسے ہی نہیں آج سے 75؍سال پہلے ہمیں خبردار کیا تھا کہ اگر اسے روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے تو معاشرہ تباہ ہوجائے گا مگر کسی معاشرے کو بہتر بنانے کا تعلق محض سزائوں سے نہیں، سوچ سے ہے۔ یہ ایک ارتقائی عمل ہے، ابتدا بہرحال کرنے کا وقت آگیا ہے۔ کرپشن کو محض سیاست سے جوڑنا درست نہیں ہوگا البتہ ایک جمہوری معاشرے کیلئے صاف ستھرے سیاستدانوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ مغرب ہمیں اور کچھ سکھاتا ہو یا نہیں البتہ مغرب جمہوریت میں کرپشن کا الزام ہی کسی حکمران کیلئے استعفیٰ کا باعث بن سکتا ہے،۔ وہاں اخلاقی ذمہ داری ہی سب سے بڑا اور موثر سیاسی ہتھیار ہے۔ یہی اصل جمہوریت ہے جو معاشرے کو مضبوط کرتی ہے۔