ڈاکٹر سید جعفر احمد
ڈائریکٹر، انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ، کراچی
تاریخ میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ایک دن یا چندروز عہد ساز ہونے کا اعزاز حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ وہ دن یا ایام ہوتے ہیں جو عشروں کے انتظار کے بعد آتے ہیں ، اور عشروں تک کے لیے اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں 7دسمبر1970ء کا دن ایسا ہی تاریخی اہمیت کا دن تھاجب آزادی کے 23سال بعد ملک میں پہلی مرتبہ بالغ رائے دہی اور ’ایک فرد ایک ووٹ‘کے اصول پر عام انتخابات منعقد ہوئے تھے۔آئین ساز اور قانون ساز اسمبلی کے اس انتخاب کے دس روز بعد17دسمبر کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوئے ۔اس طرح 7سے 17دسمبر 1970ء کے دس دن ہماری قومی تاریخ کے عہد ساز دن کہے جاسکتے ہیں۔
میں ملک کے عوام نے اپنے مستقبل کے بارے میں ایک بڑا فیصلہ کیا، اپنی قیادت منتخب کی،البتہ مذکورہ دن جہاں ایک طرف ملک کے روشن مستقبل کی حیثیت رکھتے تھے وہیں ان روشن امکانات کو شکست سے دوچار کرنے پر کمر بستہ عوامل بھی ملک میں موجود تھے۔ یہ وہ ادارے اور سیاسی کردار تھے جو عوام کے فیصلے کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔ وہ مشرقی پاکستان کی قیادت کو ملک کا سیاسی اقتدار نہیں سونپنا چاہتے تھے، خواہ ان کی اس خواہش کی تکمیل میں ملک کی وحدت ہی کیوںنہ پارہ پارہ ہوجاتی ۔سو، امید اور رجائیت کے ساتھ ساتھ ان دنوں میں اندیشہ ہائے دور درازبھی پائے جاتے تھے۔
بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد ملک میں جمہوری سیاسی عمل جاری و ساری نہیں رہ سکا۔ آزادی کے بعد ابتدائی نو برسوں میں ملک پر ایک عبوری دستور کی حکمرانی رہی جو انگریز کے زمانے کے بنائے ہوئے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء پر مشتمل تھا ۔خیال یہ تھا کہ ملک کا مستقل دستور جلد بنا لیا جائے گا اور عبوری دستور سے گلو خلاصی حاصل کرلی جائے گی لیکن آئین سازی ہماری قیادت کے لیے بہت مشکل ثابت ہوئی ،یہی نہیں بلکہ افسر شاہی بھی کسی جمہوری آئین کے لیے کوئی خوش دلی نہیں رکھتی تھی اور اس نے راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔آئین سازی میں سب سے بڑا مسئلہ مشرقی بنگال کی عددی برتری کی صورت میں موجود تھا۔
ملک کی مجموعی آبادی کے 54فیصد پر مشتمل مشرقی بنگال فطرتاً ملک کے جملہ اداروں ، مرکزی قانون ساز اسمبلی ، فوج اور سولین اداروں میں آبادی کی بنیاد پر نمائندگی کا خواہشمند تھا جبکہ ملک کے مرکزی اقتدار پر تصرف کے حامل ادارے اور سیاسی اشرافیہ کا بڑا حصہ بنگال کو یہ حق دینے میں پس و پیش سے کام لے رہے تھے ۔ملک کا پہلا دستور بمشکل 1956ء میں جا کر بنا ، وہ بھی اُس وقت جب مشرقی بنگال نے اس خیال سے کہ دستور کے نہ ہونے سے دستور کاہونا بہتر ہے ، اپنے 54فیصد نمائندگی کے حق کے بجائے 50فیصد نمائندگی لینا قبول کرلی ۔خیال یہ تھا کہ دستور کا بن جانا سیاسی راستوں کو کھولے گا اور انگریز کے زمانے کے نظمِ حکمرانی میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں متعارف کی جائیں گی اور خود دستو ر میں ترامیم کے ذریعے نظامِ ریاست و حکومت کو زیادہ سے زیادہ جمہوری بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
پاکستان بننے کے بعد مرکزی مقننہ کے لیے انتخابات منعقد نہیں ہوئے تھے بلکہ1945کے اواخر میں ہونے والے انتخابات جو متحدہ ہندوستان کے زمانے میں منعقد ہوئے تھے انہی کے ان اراکین پر مشتمل آئین ساز اور قومی اسمبلی تشکیل دے دی گئی تھی جو پاکستان میں شامل علاقوں سے منتخب ہوئے تھے ۔مسلم اقلیتی صوبوں سے آنے والے بعض سیاستدانوں کوبھی اسی اسمبلی میں جگہ دینے کے لیے گنجائش نکال لی گئی تھی ۔قیام پاکستان کے بعد یہ فیصلہ کیا گیاکہ ہر چندکہ آئین بنانے میں ابھی وقت لگ رہا ہے لیکن انتخابات کا آغاز کردیا جائے اور پہلے مرحلے میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد کیے جائیں۔
چنانچہ پنجاب میں مارچ1951ء میں ، صوبہ سرحد میں دسمبر 1951ء اور سندھ میں مئی 1953ء میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوئے۔مشرقی بنگال میں مارچ1954ء میں انتخابات کا انعقاد ہوا۔مرکز میں عام انتخابات کی نوبت نہیں آئی۔ اکتوبر1954ء میں جب مرکزی اسمبلی کو توڑا گیا اور 1955ء میں ا س کی جگہ نئی اسمبلی وجود میں آئی تو اس کا انتخاب صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے ذریعے کروایا گیا ۔1956ء کا دستور بننے کے بعد ملک میں انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہوچکا تھا۔ان انتخابات کے لیے فروری 1959ء کی تاریخ طے بھی کرلی گئی تھی لیکن انتخابات سے چار ماہ قبل اکتوبر 1958ء میں ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔دستور کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔
جنرل ایوب خان ملک کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنائے گئے جنہوں نے بیس دن بعد صدر اسکندر مرزا کا تختہ بھی الٹ دیا اور خود صدارت کے منصب پر بھی فائزہوگئے۔1962ء میں ایوب خان نے اپنا دستور دیا جو 1956ء کے پارلیمانی طرز کے دستور کے برخلاف صدارتی طرز کا حامل تھا جس میں صدر کے اختیارات غیر معمولی نوعیت کے تھے ۔دستور نے صدر کو آمر مطلق بنا دیا تھا۔اس دستور کو ملک میں پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی اور آغاز کار ہی سے اس کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔
ایوب خان جس وقت اپنے اقتدار میں آمد کا دس سالہ جشن ملک بھر میں منارہے تھے، پاکستان کا طول و عرض ایوب مخالف تحریک کا میدانِ کارزار بناہوا تھا۔ ایک بھرپور عوامی تحریک کے جواب میں ایوب خان نے اقتدار سے دست برداری کا فیصلہ تو کیا مگر عنانِ اقتدار فوج ہی کے سپرد کی ۔اپنے ہی بنائے ہوئے دستور کو توڑنے کا اعلان کیا اور فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل محمد یحییٰ خان کو اقتدار سونپ کر رخصت ہوگئے۔
25 مارچ 1969ء کو اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل یحییٰ خان نے سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی لیکن پھر چند ماہ بعد کچھ اہم سیاسی فیصلے کیے گئے ۔ملک کے مغربی حصے میں 1955ء میں سندھ، پنجاب اور سرحد کے صوبوں نیز مختلف ریاستوں کے انضمام کے ذریعے جو وحدتِ مغربی پاکستان اور ون یونٹ پر مشتمل صوبہ قائم کیا گیا تھااور جس کی مخالفت میں تحریکیں مذکورہ تینوں سابقہ صوبوں بشمول بلوچستان کے علاقوں کے شروع ہوچکی تھیں، ان صوبوں کو 1970ء میں بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور بلوچستان کو پہلی مرتبہ ایک صوبے کا درجہ فراہم کیا گیا۔
جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے ایک لیگل فریم ورک آرڈر(LFO)بھی جاری کیا جس کے تحت ملک میں آئین سازی اور بحالی ٔ جموریت کا ایک نقشہ فراہم کیا گیا۔طے کیا گیا کہ مستقبل میں ملک کے پانچ صوبوں ، مشرقی پاکستان، پنجاب ، سرحد، سندھ اور بلوچستان میں انتخابات منعقد کیے جائیں گے ۔یہ انتخابات آئین ساز اسمبلی کے لیے ہوں گے۔ اسی موقع پر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی منعقد کیے جائیں گے۔ انتخابات کے بعد آئین ساز اسمبلی 120دن کے اندر آئین بنائے گی جس کو صدر کی منظوری لینا ضروری ہوگی ۔آئین کے نفاذ کے بعد آئین ساز اسمبلی ، قانون ساز اسمبلی بن جائے گی۔
یہ اسمبلی اپنا قائد ایوان منتخب کرے گی جومستقبل کا وزیر اعظم ہوگا۔ایل ایف او نے ایک اور اہم فیصلہ یہ کیا کہ مستقبل کی اسمبلی کے لیے آبادی کی بنیاد پر نمائندگی کے اصول کو تسلیم کرلیا چنانچہ قرار پایا کہ مرکزی اسمبلی جسے ابتداً آئین ساز اسمبلی کا کردار ادا کرنا تھا اور جو بعد ازاں قانون ساز اسمبلی بن جاتی ، اس اسمبلی کے اندر 300عام نشستوں میں سے مشرقی پاکستان کے حصے میں 162اور ملک کے مغربی حصے کے چاروں صوبوں کے حصے میں مجموعی طور پر 138نشستیں آئیں گی۔
ابتداً ان انتخابات کو اکتوبر 1970ء میں منعقد ہونا تھا لیکن مشرقی پاکستان میں ہولناک سیلا ب کے نتیجے میں انتخابات چند ہفتوں کے لیے موخر کرنے پڑے اور یہ انتخاب اب دستور ساز اسمبلی کے لیے 7دسمبر 1970ء کو اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے 17دسمبر 1970ء کو ہونا قرار پائے۔7دسمبر1970ء کا دن متحدہ پاکستان کی زندگی کا سب سے اہم دن قرار دیا جاسکتا ہے۔بدقسمتی سے اس دن سے ابھرنے والے روشن امکانات کو ایک تاریک انجام میں ڈھال دیا گیا۔
ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد سیاسی سرگرمیوں پر جو پابندی عائد کردی گئی تھی وہ یکم جنوری 1970ء کو ہٹا لی گئی ۔جس روز یہ پابندی ہٹی اُسی روز سے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم بھی شروع ہوگئی جو انتخابات کے انعقاد تک جاری رہی۔ یعنی کہ انتخابی مہم کوتقریباً ایک سال کی غیر معمولی طوالت حاصل ہوئی جبکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بالعموم انتخابی مہم یں اتنی طویل نہیں ہوتیں۔ ان انتخابات میں جہاں ایک طرف 1947سے اب تک کی کوئی تئیس سال کی سیاسی محرومیوں اور اقتصادی تضادات کی بازگشت چھائی رہی وہیں دوسری طرف مستقبل کے حوالے سے بے شمار انقلابی وعدے سیاسی جماعتوں کے پروگراموں اور ان کی قیادتوں کے بیانیوں میں روز کا معمول بن گئے انتخابی مہم میں دو بنیادی موضوعات نمایاں ہوکر سامنے آئے۔ پہلا،اقتصادی انصاف، جس کے لیے کئی سیاسی جماعتوں خاص طور سے پاکستان پیپلز پارٹی نے سوشلزم کے پروگرام کو اپنے منشور کا حصہ بنایا۔
ملک کی مذہبی سیاسی جماعتیں جن میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان پیش پیش تھیں، ملک کو اسلامی ریاست بنانا چاہتی تھیں۔اسلام اور سوشلزم کی یہ کشمکش پوری انتخابی مہم کے دوران شدت کے ساتھ جاری رہی۔دوسرا اہم موضوع صوبائی خود مختاری کا تھا۔نہ صرف مشرقی پاکستان کی بڑی سیاسی قیادت خاص طور سے عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی کے دونوں گروپ جو ماسکو نواز اور چین نواز گروپ کہلاتے تھے ،اپنے صوبے کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تلافی چاہتی تھی اور آئندہ کے نظام میں اپنے سیاسی اور اقتصادی حقوق کے تحفظ کو یقینی دیکھنا چاہتی تھی بلکہ مغربی حصے کے چھوٹے صوبوں میں بھی صوبائی خود مختاری کا موضوع نمایاں تر موضوع تھا۔
1970 ء کا انتخاب اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منعقد ہونے والا انتخاب تھا۔اس کی دوسری اہمیت یہ تھی کہ یہ براہ راست انتخاب تھا اور اس میں ایوب خان کے زمانے کے نظام انتخاب سے انحراف کیا گیا تھا جس نظام میں عوام مغربی اور مشرقی پاکستان میں چالیس،چالیس ہزار اراکینِ بنیادی جمہوریت کا انتخاب کرتے تھے اور یہ اسّی ہزار اراکین ملک کے صدر جبکہ صو بے کے چالیس ہزار اراکین صوبائی اسمبلی کے اراکین کا انتخاب کرنے کے ذمہ دار تھے ۔یہ بالواسطہ انتخاب کا طریقہ تھا جس کو روزِ اول سے ہی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔اب 1970ء میں بالواسطہ انتخاب کی جگہ بلاواسطہ انتخاب کا دروازہ کھلا تو یہ عوام کے ایک دیرینہ مطالبے کی تکمیل کی حیثیت رکھتا تھا ۔
7 دسمبر1970ء کو بالآخر وہ تاریخی دن آن پہنچا جب ملک کی تاریخ کے پہلے براہ راست اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہونے تھے۔یہ دن کتنی امیدوں اور آزمائشوں کے بعد طلوع ہوا تھا اور اس کی آغوش میں کتنے روشن امکانات موجود تھے اس کا تصور کیا جاسکتا ہے ۔ان دنوں کی طرف پلٹ کر جائیں اور روزنامہ ’جنگ‘ کے توسط سے یہ کام کریں، تو پچاس سال قبل کا سیاسی تلاطم، امکانات اورخدشات نظروں کے سامنے آنے لگتے ہیں۔
صحافت کو تاریخ کا پہلا مسودہ کہا جاتا ہے۔آئیں ایک اہم دور کے بارے میں تاریخ کا پہلا مسودہ پڑھتے ہیں۔ 7دسمبر کا روزنامہ ’جنگ ‘(اُن دنوں اخبارات پر اگلے دن کی تاریخ درج کی جاتی تھی چنانچہ اُس روز کے اخبار پر 8 دسمبر کی تاریخ درج تھی) امید افزا اشاروں کے جلو میں طلوع ہوا۔ ’جنگ‘ کا پہلا صفحہ امید اور رجائیت کی خبروں سے بھرپور تھا۔
آج اس صفحے پر نظر ڈالیں تو نظریں ہٹانے کی خواہش نہیں ہوتی۔ باون سال پہلے کا یہ صفحہ ہمیں تاریخ کے ایک ایسے ورق پر روک لیتا ہے جس کی ہر خبر اور ہر کالم دیر تک ذہن اور نظر کو اپنے حصار میں بند کیے رکھتا ہے ۔اُس روز ’جنگ‘ کی شہ سرخی چھ کالم پر مشتمل تھی جس کے الفاظ یہ تھے :’’آج 5 کروڑ25 لاکھ ووٹر پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے ‘‘ (فیصلہ تو ووٹروں نے بہت بڑا اور بہت صحیح کیا لیکن اس فیصلے پر خط تنسیخ پھیرنے والے بھی کچھ کمزور نہیں تھے)مرکزی سرخی کے اوپرچھوٹے خط میں یہ سرخی بھی درج تھی:’’ملک میں دستور ساز اسمبلی کی تشکیل کے لیے بالغ رائے دہی کی بنیاد پرپہلی بار عام انتخابات‘‘۔
مرکزی سرخی کے نیچے درج تھا:’’مشرقی پاکستان سے153؍اور مغربی پاکستان سے 137 نمائندے منتخب کیے جارہے ہیں، 9 حلقوں میں انتخاب بعد میں ہوگا، ایک رکن بلا مقابلہ منتخب‘‘۔ان مرکزی سرخیوں کے بعد خبر کی تفصیل تھی۔ اس صفحے پر ایک تصویر لیاقت آباد کی مرکزی شاہراہ پر فوج کے دستے کے گشت کی تھی ۔اسی صفحے پر مارشل لاء حکام کا اعلان شایع ہوا کہ :’’ بدامنی پھیلانے کی ہر کوشش سختی سے کچل دی جائے گی ‘‘۔ ’جنگ‘ کے پہلے صفحے پر دو سیاسی رہنمائوں کی تصویریں ان کے بیانات کے ساتھ شایع ہوئیں۔جماعت اسلامی کے امیر مولانا مودودی کا دو کالمی بیان شایع ہوا جس کی سرخی یہ تھی : ’’ اللہ نے چاہا تو جماعت کے نمائندے بڑی تعداد میں کامیاب ہوں گے ‘‘۔ ذیلی سرخی تھی : ’’ہار سوشلسٹ جماعتوں کا مقدر ہوگئی ۔مجھے قوم پر اعتما د ہے ‘‘۔شیخ مجیب الرحمن کی دو کالمی سرخی اُن کے بیان : ’’عوامی لیگ قومی اسمبلی میں قطعی اکثریت حاصل کرے گی‘‘ پر مشتمل تھی۔ اسی صفحے پر مولانا احتشام الحق تھانوی کا بیان ایک کالمی سرخی کے ساتھ شایع ہوا جس میں انہوں نے کہا: ’’مقابلہ اسلامی و غیر اسلامی نظریات کا ہے ‘‘ ۔ایک اور ایک کالمی سرخی اس اطلاع پر مشتمل تھی کہ 8اور9دسمبر کی درمیانی نصف شب تک دفعہ 144کے تحت جلسے جلوس پر پابندی ہوگی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے عام انتخابات میں بھی چند وہ رجحانات سامنے آگئے تھے جو بعد میں تناور درخت کی شکل اختیارکر گئے ۔’جنگ‘ کے پہلے صفحے پر خبر چھپی کہ:’’ کراچی کے دولت مند امیدواروں کی طرف سے تیس روپے فی ووٹ کی پیشکش‘‘۔گذشتہ پچاس برسوں میں ووٹوں کا ریٹ ہی بدلا ہے ، ووٹوں کی خریداری نہیں ختم ہوئی ۔اسی صفحے پر کچھ انتخابی اشتہارات بھی شایع ہوئے۔ نوابشاہ سے قومی اسمبلی کے امیدوار حاکم علی زرداری کا دو کالمی اشتہار اس مضمون کا تھا : ’’ جیتے گا بھئی جیتے گا، عام آدمی جیتے گا، بھٹو ہی بھٹو جیتے گا‘‘۔
ایک اور یک کالمی اشتہار تھا،: ’’ شیعہ علمائے کرام کی جانب سے بیگم مجیب النساء اکرم امیدوار قومی اسمبلی ،حلقہ نمبر 4کی حمایت کا اعلان ‘‘۔’جنگ‘ کے پورے صفحے کے نیچے جماعت اسلامی کی طرف سے آٹھ کالمی اشتہار شامل اشاعت ہوا جس میں جماعت کے انتخابی نشان ترازو کی تصویر کے ساتھ کراچی سے کھڑے ہونے والے قومی اسمبلی کے امیدواروں صابر حسین شرفی ، سید زاکر علی ، عبدالستار ، محمود اعظم فاروقی ، غفور احمد اور پیر محمد کے نام شایع کیے گئے۔
انتخابات کے اگلے روز یعنی 8دسمبر کو’ جنگ‘ نے (جس پر 9دسمبر کی تاریخ درج تھی )انتخابی نتائج پر آٹھ کالمی سرخی شائع کی ، ’’ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی فتح‘‘۔ذیلی سرخی تھی : ’’ مجیب، بھٹو ، دولتانہ ، قیوم ، ولی خان، نورالامین ، نصراللہ، مفتی محمود اور شوکت حیات کی کامیابی ، اصغر خان ، جاوید اقبال ، میاں طفیل ، فضل القادر،خواجہ خیر الدین ، غلام اعظم ،پروفیسر مظفر اور جی ایم سید ہار گئے ‘‘۔جنگ کے اس صفحے پر مرکزی سرخی کے نیچے بھٹو اور مجیب الرحمن کی تصویریں شایع ہوئیں ۔اسی صفحے پر جنرل یحییٰ خان کی اسلام آباد کے ایک پولنگ بوتھ پر ووٹ ڈالتی ہوئی دو کالمی سرخی کو جگہ دی گئی۔پہلے صفحے ہی پر جن دیگر رہنمائوں کی تصویریں شایع ہوئیں ان میں مفتی محمود ، عبدالستار گبول ، شوکت حیات ،ظفر احمد انصاری ،عبدالحفیظ پیرزادہ ،عبدالغفور احمد اور علی حسن منگی شامل تھے ۔
انتخابات کے اگلے روز یعنی 8دسمبر کے ’جنگ‘ کا ادارتی صفحہ بڑی تاریخی اہمیت کا حامل نظر آتا ہے۔ اس میں اقبال احمد صدیقی کا مضمون ’’7دسمبر تاریخ پاکستان کا یادگار دن ‘‘، نثار احمد زبیری کا مضمون ’’ پہلا یوم ِ انتخابات جب ہر ووٹر نے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کیا ‘‘۔سید محمود علی اسد کا کالم ’’انتخابات ، صدر یحییٰ اور مسدسِ حالی ! ‘‘شایع ہوئے۔ ادارتی صفحے پر رئیس امروہوی کا قطعہ ’الیکشن ‘کے عنوان سے چھپا :
حوادث کے رخ کو پلٹ کر ہوئے
پرانے طریقوں سے ہٹ کر ہوئے
نہ گھُٹ کر ہوئے اور نہ گھَٹ کر ہوئے
الیکشن ہوئے اور ڈٹ کر ہوئے
اس روز کے ادارتی صفحے کی سب سے اہم چیز اس کا اداریہ تھا جو انتخابات کے پس منظر اور پیش منظر کو سامنے رکھ کر لکھا گیا تھا۔اداریے کے لیے بجا طور پر ’’جمہوریت کی صبح‘‘کی سرخی منتخب کی گئی تھی ۔اس میں لکھا گیا:
’’7دسمبر کا دن پاکستان کی تاریخ پر اپنے ان مٹ اور ناقابل فراموش نقوش چھوڑ کر گزر گیا، ملک کے تقریباً پانچ کروڑ ستر لاکھ ووٹروں میں سے ایک بہت بڑی تعداد نے پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا، اس موقع پر عوام نے جس جوش و جذبے اور احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ملک کا ہر فرد متاثر ہوا، خواتین ووٹروں نے بھی توقع سے زیادہ سرگرمی اور دلچسپی ظاہر کی اور حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ اپنا ووٹ استعمال کیا‘‘۔ پہلی بار عوام نے پورے ملک میں جمہوریت کی بہار اور ہر طرف آزادی رائے کے غنچے چٹکتے دیکھے ، اور ان کے چہرے خوشی و انبساط سے کھل گئے ، اب انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ جمہوریت کے اس گلشن میں کبھی آمریت کی خزاں نہ آنے دیں گے اگر اس اسمبلی نے 120دن کے اندر دستور تیار کرلیا تو اس پر قانون سازی اور ملک کا نظم و نسق چلانے کی بھاری ذمہ داری آپڑے گی اور دوسرے انتخابات تک برسر اقتدار آنے والی جماعتوں کو اپنی امانت و دیانت ، اپنی اہلیت و قابلیت اور اپنے فہم و تدبر کا امتحان دینا ہوگا۔۔۔ جمہوری عمل کا ہمارے ملک میں آغاز ہوگیا ہے اب اس کے تسلسل کو نہ رکنے دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے‘‘۔
7 اور 8دسمبر کے ’جنگ ‘کے شماروں کے بعد اگلے سات آٹھ روزکےشمارے انتخابات میں کامیاب ہونے والوں کے پر عزم بیانات اور ناکام ہونے والوں کی اپنی شکست کو تسلیم کرنے کے باوقار بیانات سے پُر تھے ۔ انہی شماروں میں17دسمبر کو ہونے والے صوبائی انتخابات سے متعلق خبریں بھی شایع ہوتی رہیں۔ 9دسمبر کے ’جنگ ‘میں ذوالفقار علی بھٹو کا چھ کالمی بیان ’جنگ‘ کی ہیڈلائن تھا۔ان کاکہنا تھا کہ : ’’ ہم عوام کی توقعات پوری کریں گے ‘‘۔ پیپلز پارٹی کسی ایسی حکومت میں شامل نہ ہوگی جو پارٹی کے منشور اور پروگرام سے اتفاق نہ رکھتی ہو۔
اس صفحے پر بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کی 1969ء کی ایک تصویر بھی شایع کی گئی جس میں بھٹو شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ ڈھاکہ میں بات چیت کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں ۔اسی صفحے کی ایک یک کالمی سرخی ہے جس کی رو سے بھٹو اور مجیب کے درمیان ٹیلی فونک بات چیت ہوئی اور دونوں نے ایک دوسرے کو کامیابی پر مبارکباد پیش کی ۔ایک اور خبر کے مطابق شیخ مجیب الرحمن نے سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے مزار پر فاتحہ پڑھی۔ اسی صفحے کی ایک اور خبر ہے جس کی سرخی کچھ یوں ہے:’’عہدِ ایوبی کے چمکتے ہوئے بت پاش پاش ہوگئے ‘‘ ۔ یہ پاکستان کے انتخابات پر بی بی سی کے تبصرے پر مشتمل خبر تھی ۔
9دسمبر کے روزنامہ ’جنگ‘ نے’ عوام کا فیصلہ‘ کے عنوان سے اپنے اداریے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انتخابات کو پاکستان کے مستقبل کے محفوظ ہوجانے کی بشارت قرار دیتے ہوئے لکھا کہ : ’’ ان انتخابات نے اُس عام مایوسی کو بالکل ختم کردیا ہے جو گذشتہ کئی سالہ آمریت نے پاکستان کے مستقبل سے متعلق پیدا کردی تھی اور انتخابات سے عین پہلے تک ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو پورے وثوق کے ساتھ یہ کہتا تھا کہ پاکستان کو کبھی جمہوریت کے دن نصیب نہیں ہوں گے ، لیکن 7دسمبر کی تاریخ نے ان تمام خدشات اور مایوسیوں کو ختم کردیا۔
انتخابات کے امتحان سے گزرنے کے بعد دونوں بازوئوں میں دو جماعتوں کو قیادت و رہنمائی کا موقع حاصل ہوگیا ۔عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان میں زبردست کامیابی نصیب ہوئی ہے ، اُس کی بنا پر اسے مشرقی صوبے کے عوام کی ترجمان جماعت کہنا بے جا نہ ہوگالیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ مشرقی پاکستان کے عوام میں ایسا کوئی طبقہ موجود نہیں ہے جو عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمن کے طرز فکر سے ہٹ کر سوچتا ہو ‘‘۔ یقیناً ایک ایسا طبقہ اچھی خاصی تعداد میں موجود ہے لیکن بعض اسباب کی بنا پر یہ انتخابات اس کے صحیح تناسب کو ظاہر کرنے سے قاصر رہے ہیں ۔ اداریے میں ’جنگ‘ نے ایک اور اہم نقطہ یہ اٹھایا کہ : ’’ بدقسمتی سے مشرقی پاکستان میں بعض جماعتیں عین اس وقت میدان چھوڑ کر بھاگ گئیں جبکہ انتخابات کے معرکے کا آغاز ہونے والا تھا۔
ان جماعتوں میں نیشنل عوامی پارٹی بھاشانی گروپ ، عطاء الرحمن کی نیشنل پاکستان لیگ اور کرشک سرامک پارٹی خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔میدان سے ہٹ جانے والے ان جماعتوں کے امیدواروں کی تعداد تقریباً 64ہے ۔ان میں بعض جماعتوں کے سربراہ اور اہم شخصتیں بھی شامل ہیں اگر یہ سب میدان میں آخر وقت تک ڈٹے رہتے تو ان تمام ووٹروں کی تعداد ریکارڈ میں آجاتی جو شیخ صاحب اور ان کی جماعت سے اختلاف رکھتے ہیں ۔’جنگ‘ نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ شیخ مجیب الرحمن کے ارد گرد موجود انتہا پسند عناصر اُن کو اپنے صوبائی خود مختاری کے وعدوں پر کسی قسم کی مصالحت سے روکیں اور ان کو پورے ملک کے حوالے سے سوچنے اور پورے ملک کو قیادت فراہم کرنے سے باز رکھنے کی کاوش کریں۔’جنگ‘ نے لکھا کہ :’’ شیخ صاحب کو پوری ہمت اور استقلال کے ساتھ ایسے عناصر کا مقابلہ کرنا ہوگا اور آج انہیں اور ان کی جماعت کو جو پوزیشن حاصل ہوگئی ہے اسے پورے ملک کے استحکام ، ترقی اور سا لمیت کے لیے استعمال کرنا ہوگا‘‘۔
پیپلز پارٹی کے حوالے سے ’جنگ ‘کے اداریے میں کہا گیا: ’’ عام طور پر لوگوں کو پیپلز پارٹی کے نمائندوں کی اس کثرت سے کامیابی کی توقع نہیں تھی ۔مشرقی پاکستان کے برعکس ملک کے اس بازو میں تمام سیاسی جماعتیں شروع سے آخر تک میدان میں موجود رہی ہیں اور انہوں نے آزادانہ طور پر پوری سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا ہے۔ اس کے باوجود انہیں سخت ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔
پیپلز پارٹی کو ا س غیر معمولی کامیابی کے حاصل کرنے میں اسلام پسند جماعتوں کے انتشار و تفرقے سے بھی بڑی مدد ملی۔۔۔ عام ووٹر سخت ذہنی کشمکش اور تذبذب میں مبتلا ہوگئے، ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ کس عالم ،مذہبی رہنما یا اسلام پسند جماعت کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کریں‘‘۔بھٹو کی کامیابی پر’ جنگ‘ نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ : ’’ مسٹر بھٹو کی کامیابی کی ایک اور خصوصیت یہ رہی کہ وہ چھ میں سے پانچ حلقوں میں ووٹوں کی بھاری تعداد سے کامیاب ہوئے۔اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو پورے مغربی پاکستان میں یکساں مقبولیت حاصل ہے۔۔۔ایک سندھی لیڈر کا مغربی پاکستان کے کئی صوبوں سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہونا ایک اچھی علامت ہے ‘‘۔ ’جنگ‘ اپنے اداریے کے اختتام میں لکھتا ہے ـ: ’’ بحر حال شیخ مجیب الرحمن اور بھٹو کی جماعتیں مجلس دستور ساز میں اکثریت میں ہوں گی اس لیے ان پر ایک ایسا دستور بنانے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو ملک کی سا لمیت و وحدت کا ضامن ہو‘‘۔
10دسمبر 1970ء کے روزنامہ’ جنگ‘ کے پہلے صفحے پر شیخ مجیب الرحمن کا بیان مرکزی سرخی کے طور پر شائع ہوا ۔’’ ملک میں استحصال سے پاک اقتصادی اور سماجی نظام قائم کیا جائے گا‘‘۔ذیلی سرخی میں انہوں نے مشرقی پاکستان کے لیے بنگلہ دیش کا لفظ استعمال کیا لیکن ان کے بیان سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کسی الگ ملک کا مطالبہ بہر حال نہیں کررہے کیونکہ وہ ملک کے آئین کے بارے میں رائے زن تھے اور ان کا کہنا تھا کہ : ’’ بنگلہ دیش کی مکمل علاقائی خود مختاری کے لیے چھ نکاتی پروگرام کی بنیاد پر آئین کی تدوین اور اس پر عملدرآمد تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی ‘‘۔ اسی صفحے پر عوامی لیگ کے جنرل سیکریٹری مسٹر قمر الزماں کا بیان اس سرخی کے ساتھ شایع ہوا کہ :’’ ہم دونوں بازوئوں میں حقیقی اتحاد چاہتے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ:’’کوئی قوم ایسی حالت میں زندہ نہیں رہ سکتی جب اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کا استحصال کرے ‘‘۔
10دسمبر کے ’جنگ‘ کا اداریہ ’مسٹر بھٹو کے وعدے‘ کے موضوع پر تھا ۔اس صفحے پر اقبال احمد صدیقی کا مضمون ’’نئی قیادت نیا انداز فکر : شیخ مجیب الرحمن اور ذوالقار علی بھٹو‘‘ بھی شایع ہوا۔اسی صفحے پر رئیس امروہوی کا قطعہ تھا ’’ خدا کا شکر‘‘۔اس میں کہا گیا :
خدا کا شکر کہ ثابت ہوئے ہیں حسب مراد
یہ انتخاب کہ تھے منصفانہ و آزاد
نہ کشمکش نہ تصادم، نہ شورو شر نہ فساد
عوام جیت گئے انقلاب زندہ باد
11دسمبر سے 16دسمبر تک کے شمارے قومی اسمبلی کے نتائج اور صوبائی انتخابات کی خبروں ہی پر مشتمل تھے۔17دسمبر کو صوبائی انتخابات منعقد ہوئے ۔اگلے روز18دسمبر کے’ جنگ‘ کی مرکزی سرخی تھی :’’ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ ، سندھ و پنجاب میں پیپلز پارٹی اور بلوچستان و سرحد میں نیپ کی برتری ‘‘۔ ایک دو کالمی سرخی تھی :’’ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں پولنگ کی رفتار سست رہی ‘‘۔ 18دسمبر کے ’جنگ‘ کے اداریے کا عنوان تھا ’’ جمہوریت کی طرف دوسرا قدم‘‘۔ اس میں کہا گیا کہ ’’ ہماری قومی زندگی کا دوسرا اہم دن بھی گزر گیا۔
پورے ملک میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بحیثیت مجموعی امن و سکون کی فضا میں منعقد ہوئے ‘‘۔’جنگ‘ نے اس موقع پر مستقبل کے حوالے سے بہت اہم گفتگو کی ۔اس نے لکھا کہ ’’بحالی جمہوریت کے اس پہلے مرحلے کے مکمل ہونے کے بعد دوسرے اور پہلے سے زیادہ نازک مرحلے یعنی دستور سازی کے کام کا آغاز ہوگا۔پہلے مرحلے کے طرح دوسرے مرحلے کے بھی بحسن وخوبی طے پانے کے امکانات موجود ہیں عوام کی خواہش اور آرزو یہی ہے کہ کامیاب جماعتیں اور منتخب امیدوار ان تمام مشکلات وموانعات پر قابو پالیں جو دستور سازی کی راہ میں حائل ہوسکتے ہیں اور 120دن میں دستور سازی کا کام مکمل کرکے جمہوریت کی بحالی کو یقینی بنالیں‘‘۔19دسمبر کی ’جنگ‘ کی مرکزی سرخی چھ کالموں پر مشتمل تھی اور یہ ذوالفقار علی بھٹو کا بیان تھا کہ ’’ ہم غریبوں کا استحصال کرنے والے ظالمانہ نظام کو ختم کردیں گے‘‘۔
انتخابات میں ناکام ہونے والے مسلم لیگ کے میاں ممتاز دولتانہ کی دو کالمی سرخی تھی: ’’کونسل مسلم لیگ آئین سازی میں تعاون کرے گی‘‘ ۔الیکشن کمیشن کے سربراہ عبدالستار کا تین کالمی سرخی پر مشتمل بیان تھا کہ ’’انتخابات کے نتیجے میں پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا جمہوری ملک بن گیا‘‘۔اسی روز’ جنگ‘ نے اپنے اداریے میں افواج پاکستان کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے انتخابات منعقد کروا کر اپنا وعدہ پورا کیا۔’جنگ‘ نے یہ بھی لکھا کہ: ’’ صدر یحییٰ خان کا یہ کارنامہ دنیا کی تاریخ کے انوکھے اور منفرد کارناموں میں شمار کیاجائے گااور اس برصغیر کی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔
ان کے اس کارنامے نے پاکستان کو عظمت و وقار کی بلندی پر پہنچا دیا اور انتخابات کے فوراً بعد دنیا بھر میں دنیا کی تیسری بڑی جمہوریت کے وجود میں آجانے کا چرچا عام ہوگیا ہے ‘‘۔ افسوس کہ جنرل یحییٰ خان کے حوالے سے ’جنگ‘ کی یہ رائے درست ثابت نہیں ہوئی اور اس رائے کی تکذیب کسی اور نے نہیں بلکہ خود جنرل یحییٰ خان نے چند ماہ بعد کردی جب انہوں نے انتخابات کے بعد پیدا ہوجانے والے آئینی بحران کو سیاسی طور پر حل کرنے کے بجائے بندوق کی نالی سے حل کرنے کی کوشش کی اور یوں پاکستان کو دولخت کرنے کی راہ ہموار کردی ۔7اور17دسمبر 1970ء کے درمیان جو امید اور رجائیت پیدا ہوئی تھی وہ ایک ایسی سرنگ میں دھکیل دی گئی جس کے دوسرے سرے پر تاریکی کے سوا کچھ نہ تھا۔پاکستان کے پہلے عام انتخابات پاکستان کی تقسیم پر منتج کروادیے گئے ۔