السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
خوشی ناپنے کا پیمانہ
سب سے پہلے تو ہر سانس، ہر دھڑکن اللہ رب العالمین کی عطا کردہ ہر نعمت و رحمت کا شُکر ادا کرتی ہے۔ دوپہر کا آغاز ہو رہا ہے، مگر فضا میں ٹھنڈی ہوا کاراج ہے، سنڈے میگزین اپنے سامنے رکھا، تو دل زور زور سے دھڑکنے لگا کہ دسمبر کا بھیجا گیا خط آج بھی شایع ہوا یا نہیں، ’’بسم اللہ ‘‘ پڑھ کے ورق پلٹا تو ہی پہلے نمبرپر اپنا خط نظر آگیا۔ کتنی خوشی ہوئی، اگر خوشی ناپنے کا کوئی پیمانہ ہوتا،تو شاید میں بتا پاتا۔آپ مجھ حقیر، پُرتقصیر کو اپنے میگزین میں جگہ دیتی ہیں، اِس پر تہہ دل سے شُکر گزار ہوں۔ تبصرہ کیا جائے اور کسی ایک قلم کار کی تعریف ہو، یہ مناسب نہیں لگتا کہ ہر مضمون نگار ہی اپنے تئیں خاصی محنت کرتا ہے۔ محمّد احمد غزالی کے طرزِ تحریر کے کیا کہنے، کچھ اور لکھاری بھی ’’لفوظ‘‘ کی کیا پتیاں بکھیرتے ہیں۔ محمّد ارسلان فیاض، منورمرزا اور منور راجپوت کی تو سطر سطر دل و دماغ کو جھنجھوڑتی ہے۔ سرِورق کی بات کروں، تو خُوب صُورت حسینہ کا انداز بڑا پُرلطف معلوم ہوا، ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں دل کش تبصرے پڑھنے کو مل رہے ہیں، سب کی نوک جھونک کافی ’’محفوظ‘‘ کرتی ہے۔ یوں بھی میرا ایسا مزاج نہیں کہ اپنے خط پر تنقید کرنے والوں کی بات کا دل سے برا مانوں اور لکھنا چھوڑ دوں۔ پروفیسر مجیب ظفر مرحوم کی کمی بہت شدّت سے محسوس کرتا ہوں، جو ہر قابل لکھاری کی قلم کاری کی دل سےداد دیا کرتے تھے کہ اردو ادب پر قلم چلانا بہ نسبت مغربی ادب کے زیادہ مشکل ہے۔ بہرحال، ادارہ محبّت سے سبھی کی تحریروں کو اپنے ماتھے پہ روشن ستاروں کی مانند سجا رہا ہے، جس کے ہم تہہ دل سے ممنون ہیں۔ (راجہ افنان احمد، چکوال)
ج:آپ دونوں بہن بھائی ساتھ ساتھ ہی چلے آتے ہیں۔ خدارا! الگ الگ آیا کریں، کیوں کہ بیک وقت اتنی ’’اردو‘‘ کم ازکم ہمارا معدہ تو نہیں سہار پاتا۔ خصوصاً آپ کے ’’لفوظ‘‘ اور ’’محفوظ ‘‘ نے تو ہمیں ’’مخبوط‘‘ ہی کر کے رکھ دیا۔ پھرخُوب صُورت حسینہ، اردو ادب پر قلم چلانا، نیز مجیب ظفر انوار حمیدی کومجیب الرحمٰن شامی لکھنا(جسے درست کرناناگزیر تھا) جیسی انتہا درجے کی دانش مندیاں بھی بآسانی ہضم نہیں کی جا سکتیں۔ مانا کہ آپ لوگوں کی باتیں دل پہ نہیں لیتے، پر ہماری بات پر اتنا غور ضرور فرمایئےگا کہ آئندہ خط میں جو بھی ذرا سا مشکل لفظ استعمال کریں، پہلے لغت سے اس کے معنی ضرور دیکھیں۔
میٹرک تک تعلیم
یہ توقع کم از کم سندھ میں تو عبث ہے کہ میرٹ پر تقرریاں ہوتی ہوں گی، کیوں کہ یہاں تو رسوائے زمانہ، علاقائی و لسانی کوٹا سسٹم 1973ء سے رائج ہے، تو ادارئہ جنگ میں بھی میرٹ پر تقرری کی توقع فضول ہے۔ اسی لیے؎ اردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے،کےمثل سنڈے میگزین بھی حماقتوں کا شکار اور کبھی کبھی تو شہکار نظر آتا ہے۔ اب یہی دیکھیے، اگر آپ کی تعلیم میٹرک بھی ہے، تو اردو لازمی مضمون کے طور پر آپ کو پڑھائی گئی ہو گی۔ اس حد تک بھی پڑھایاجاتاہےکہ اردو غزل میں قوافی تو بدلتے ہیں، مگر پوری غزل کی ردیف یک ساں ہوتی ہے، تو اب ذرا آپ اپنی ادارت میں23 جنوری کے شمارے میں شایع ہونے والی وارث علی بٹ کی’’غزل‘‘ملاحظہ فرمائیےکہ جس کےپہلے شعر (مطلع) کی ردیف ’’ے‘‘دوسرےکی ردیف ’’ھ‘‘ (رکھ) اور باقی تین اشعار کی ’’ں‘‘ ہے۔ یعنی صدیوں سے مروجّہ غزل کی تیکنیکی ہیئت کی ریڑھ لگا دی۔ پھر ہم نے30جنوری کا شمارہ بغور پڑھا کہ شاید آپ اس غلطی پر معذرت فرما کر بطور مدیرہ، اخلاقی بلکہ پروفیشنل ڈیوٹی سرانجام فرما دیں، مگر اندازہ ہوا کہ آپ غزل کی تیکنیکی ساخت میں ردیف کی یک سانیت سے واقف ہی نہیں کہ جو میٹرک تک اردو پڑھنے والا بھی جانتا ہے۔ (پروفیسر وقار الضیاء راس، نارتھ ناظم آباد، کراچی)
ج:محترم پروفیسر صاحب! آپ کی اطلاع کے لیے ہم نے میٹرک تک اردو لازمی ہی نہیں، بعدازاں اردو ایڈوانس کا پیپر بھی 80فی صد نمبرز سے پاس کر رکھا ہے(یہ الگ بات کہ پڑھانے والے پروفیسرز ہی تھے) رہی بات کوٹا سسٹم کی، تو سندھ میں اُس سے بھی کہیں بڑا المیہ تو نظامِ تعلیم کی زبوں حالی ہے، جس میں بڑا کردار اُن اساتذہ کا ہے، جو کالجز، یونیورسٹیز کے اسٹاف روم یا گھروں سے بیٹھ کر تن خواہیں تو باقاعدگی سے وصول رہے ہیں، لیکن طلبہ کی تعلیم و تربیت سے یک سر غافل ہیں۔ آپ نےمحض پروف کی ایک غلطی پر نہ صرف ہمارا20 سالہ کیریئر بلکہ پورے ادارے کا سسٹم ہی ناکارہ قرار دے دیا، حالاں کہ بات صرف اتنی سی ہے کہ بذریعہ ڈاک موصول ہونے والی بےشمار غزلیں، نظمیں باقاعدہ ایک مستند شاعر سےچیک کروانے کےبعد، ایک پلندے کی صورت کمپوزنگ میں بھیجی جاتی ہیں،جن میں سے کسی پر عنوان نہ ہونے کی صُورت میں بعض اوقات کمپوزر یا کبھی لے آئوٹ ڈیزائنر خود ہی ’’غزل‘‘ یا ’’نظم‘‘ کا عنوان دے ڈالتے ہیں۔ ہاں، ہماری اتنی غلطی ضرور ہے کہ فائنل کاپی چیک کرتے ہوئے دوبارہ اچھی طرح نہ دیکھ سکے۔ بہرحال، ہم اس کوتاہی پر معذرت خواہ ہیں، آپ بھی بحیثیت استاد ذرا اپنا محاسبہ فرمایئےگا کہ ؎ زباں بگڑی تو بگڑی تھی،خبر لیجے دہن بگڑا۔ نیز، اگر اِسی طرح لوگوں کی سَندیں اور تقرریاں چیلنج کی جانےلگیں تو پھر ہمارے یہاں، خصوصاً شعبۂ تعلیم میں کتنے باقاعدہ سندیافتہ یا میرٹ پر تعینات باقی رہ جائیں گے۔
کروڑوں ،اربوں کی خرد بُرد
’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال دنیا بھر میں سالِ نَو منانے کےانوکھے طریقوں کا احوال سُنا رہے تھے،مگر نادرونایاب ’’پاکستانی ون ویلنگ‘‘ کا تذکرہ تو رہ ہی گیا۔’’درس و تدریس‘‘میں شفق رفیع نے وفاق اور صوبوں میں تعلیم کے نام پر ہونے والی کروڑوں، اربوں کی خردبُرد کی داستان رقم کی۔ ڈاکٹر اقبال چوہدری کو مسلم دنیا کے سب سے بڑے سائنسی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے، پڑھ کر بےحد خوشی ہوئی۔ ’’رپورٹ‘‘ میں وفاقی اردو یونی ورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کا سندھ کے تاریخی مقامات کامطالعاتی دورہ اچھالگا۔’’علاج معالجہ‘‘ میں بابر علی اعوان نے بھی کچھ تلخ حقائق سے پردہ اٹھایا۔ ’’جمع تفریق‘‘ میں منور مرزا اپنی دُور بین نگاہ کے طفیل عالمی معیشت سےمتعلق کچھ انکشافات کر رہےتھے۔ ’’وجودِ زن‘‘ میں رئوف ظفر کے توسّط سے پتا چلا کہ 2021ء میں خواتین پر گھریلو تشدّد کے خلاف ایک بِل بھی منظور ہوا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں روبینہ فرید، ڈاکٹر عزیزہ انجم کے مضامین عمدگی سےتحریرکیےگئے۔ ’’ادب/ نگارشات‘‘ ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر کی لاجواب کاوش تھی۔ ’’سائنس/آئی ٹی‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال نے حیرت انگیز انکشافات کیے۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں اقصیٰ منور ملک کا پیغام بہت پسند آیا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے2022ء کی پہلی اعزازی چٹھی پر اپنا نام دیکھ کر بے حد حیرت و خوشی ہوئی۔ (ایم۔ اے۔ ثاقب، راول پنڈی)
ج:اِسی لیے اِس چٹھی کا عنوان ’’اس ہفتےکی چٹھی‘‘ نہیں ہے۔
بے ارادہ اُٹھ گئی ہوگی …
23 جنوری کا شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق پر ماڈل کاچشمۂ دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمّد احمد غزالی سلسلۂ نقش بندیہ کے عظیم المرتبت بزرگ، حضرت خواجہ عبدالخالق محمّد وانی ؒ کا رُوح پرور تذکرہ و تعلیمات لائے، پڑھ کےروح و قلب کو اطمینان حاصل ہوا۔ ’’انٹرویو‘‘ میں منور راجپوت ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کے روحِ رواں، مولانا ہدایت اللہ بلوچ سے بات چیت کر رہے تھے ۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منورمرزا کا معیشت سے متعلق تجزیہ بہترین تھا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں اختر الاسلام صدیقی نے 2021ء میں جاری ہونے والے ڈاک ٹکٹ کا جائزہ لیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر اسماء کاشف تھائی رائی گلینڈ سے متعلق آگاہی دے رہی تھیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی ماڈل پر زیادہ غور نہیں کیا، مگر وہ کیا ہے کہ ؎ نظر آخر نظر ہے، بے ارادہ اٹھ گئی ہوگی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم، حکیم حارث نسیم کی تحریریں اچھی لگیں۔ متفرق میں ’’ہمیں شعر سُنانےکا شوق نہیں‘‘ کےعنوان سے ڈاکٹر قمر رضوی کا دل چسپ فکاہیہ مضمون مزے کا تھا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے واقعات ہمیشہ کی طرح متاثر کُن اور اختر سعیدی کا نئی کتابوں پر تبصرہ کمال تھا۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپور خاص)
ج:ماڈل کا چشمہ بھی دیکھ لیا۔ بےارادہ نظر بھی اُٹھ گئی۔ یعنی بقول جلیل مانک پوری ؎گناہ کر کے بھی ہم رند پاک صاف رہے۔
سفید ہاتھوں کے ساتھ…
سلامِ الفت، نرجس جی! درجنوں میگزین آچکے، ہم نے پڑھے اور اچھے بھی لگے، لیکن تبصرہ نہیں کیا۔ آپ کا فرمانِ عالی شان ہے، جب تک پہلا خط شایع نہ ہوجائے، دوسرا نہ بھیجیں۔ ویسے یا تو خط شایع کرنے میں اتنی دیر نہ لگایا کریں یا پھر قانون ہی میں تھوڑی سی ترمیم کردیں۔ خیر، اب آتے ہیں میگزین کی طرف۔ منور مرزا بتا رہے تھے کہ مشرقِ وسطیٰ میں نئی دوستیوں سے باغی تنہائی کا شکار ہورہے ہیں، اچھی بات ہے اور ڈاکٹر غلام صدیق فرما رہے تھے کہ اینٹی بایوٹکس جراثیم کے خلاف موثرہتھیارہیں، مگرازخود استعمال خطرناک ہو سکتا ہے۔ بات تو سچ ہے ڈاکٹر صاحب، مگر کوئی مانےتب ناں! اور’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں پروفیسر سیما ناز صدیقی ہمارے ساحلوں پر سونامی کے خطرات سے آگاہ کررہی تھیں۔ ہماری بلا سے، طوفان آئے یا ٹلے، ہم نے تو آج تک ساحل کی شکل ہی نہیں دیکھی۔ ہاں، یہ ہوسکتا ہے کہ ہمارے وہ… (ہاہاہا… آپ سمجھ ہی گئی ہوں گی یقیناً، ویسے نرجس جی! مجھے لگتا ہےکہ میں سُدھرنے والی شے نہیں)۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی دونوں کہانیاں اچھی تھیں، مگر’’اسٹائل‘‘کےصفحات کچھ خاص پسند نہیں آئے۔ ’’؎ہَری بَھری رُتوں کو میری شال کردیا گیا…‘‘ اسکن فٹڈ جینز کے ساتھ پانچ گز لمبی شال اوڑھ کرپتانہیں ماڈل، شال کی توہین کررہی تھی یا پھر جینز کی یا اپنی ہی… ہمیں کچھ سمجھ ہی نہیں آیا۔ اور اب رہا ہمارا صفحہ، تو باقی تحریروں کی تو خیر تھی، لیکن ’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ پڑھ کر ہمیں اپنی کچھ ’’بیستی‘‘ سی محسوس ہوئی۔ ہائے ہائے نور الہدیٰ بہنا! یہ اتنے فینسی ملبوسات بھلا میں خود کیوں اپنےلیے پسند کرنے لگی، یہ تو بہنوں، سہیلیوں کا کام ہوتا ہے۔ آپ ہے ناں، ساری تیاریاں شیاریاں تو آپ نے کرنی ہیں۔ مجھے تو بس کچھ شرمانے وَرمانے کی ایکٹنگ کرنی ہوگی، تب ہی تو دلہناپے کا رُوپ چڑھے گا۔ ویسے سیانے سو فی صد درست ہی کہتے ہیں کہ ’’اپنی خواہشات خود ہی تک محدود رکھو۔‘‘ نہ ہم ویاہ ویاہ کی رٹ لگاتے، نہ لوگ ہمیں اس طرح چھیڑتے۔ وہ تو شُکر ہے کہ امّاں جی کو کچھ نہیں معلوم، ہماری ان خرافات کا، ورنہ قسم سے ہاتھ پیلے کرنے کا تکلّف بھی نہ کریں، سفید، خالی ہتھیلیوں ہی سے چلتا کردیں۔ (اسماء خان دمڑ، سجاوی، بلوچستان)
ج:تم نے غالباً پچھلے خط میں کوئی عہد کیا تھا۔ واقعی، تم سُدھرنے والی شے نہیں۔ اب تو کسی طرح امّاں جی کو پتا لگ ہی جانا چاہیے کہ دھی رانی صرف ویاہ نہیں، ویاہ کے بعد میاں جی کے ساتھ ساحلِ سمندر کی سیر کے بھی خواب دیکھ رہی ہے۔
ٹیم میں نیا اضافہ؟
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمّد احمد غزالی کی مولانا رومیؒ پر تحریر کی دوسری اور آخری قسط پڑھنے کو ملی۔ واقعی، بہت ہی عُمدہ لکھا گیا۔ مولانا رومیؒ پر اس سے جامع تحریر پہلے نظر سے نہیں گزری۔ آپ کی ٹیم، میں محمّد احمد غزالی ایک شان دار اضافہ ہیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں شفق رفیع نے کمال کردیا کہ سینٹرل جیل ہی جا پہنچیں اور بہت ہی شان دار انداز میں ساری رُوداد رقم کی گئی۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے مضامین بھی عُمدہ تھے۔ سرِورق پر احسن خان کو دیکھ کر بہت ہی اچھا لگا۔ کیا ہرفن مولا اداکار ہیں یہ بھی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں محمّد ارسلان فیاض تھے اور عرفان جاوید کا ’’آدمی‘‘ کے ساتھ آنا بہت ہی پسند آیا۔ عرفان جاوید جب آتے ہیں، بہت منفرد و مختلف انداز ہی سے آتے ہیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج:محمّد احمد غزالی، ٹیم میں کوئی نیا اضافہ نہیں بلکہ منور راجپوت صاحب ہی کا قلمی نام ہے۔
فی امان اللہ
کیسی ہیں آپ، اُمید ہے، خیریت سے ہوں گی، سمجھ نہیں آرہا ہے کہ اپنے اس پہلے خط کا (آپ کو لکھا گیا)آغاز کیسے کریں، بہت زیادہ ایکسائٹڈ ہوں، کیوں کہ خیالوں میں تو آپ سے ہر ہفتے ہی باتیں کرتی ہوں۔ خاص طور پر جب آپ کسی قاری کو کوئی بہت کَھرا، مزے دار سا جواب دیتی ہیں، جب کوئی مضمون یا تحریر مجھے بہت پسند آتی ہے یا کوئی ایسا خط پڑھوں کہ جو لگے، میرے ہی دل کی آواز ہے، تو اُس دن مصمّم ارادہ کرتی ہوں کہ آج آپ کو ضرور خط لکھوں گی، مگر پھر وہی زندگی کےنہ ختم ہونےوالے جھمیلے… پچھلے شمارے میں شائستہ اظہر کا نامہ دل کو چُھو سا گیا، اور اُس پر آپ کا جواب کہ’’ناقدرے لوگ ہیں، جو ہیروں کی قدر نہیں کرتے‘‘۔ بہرحال، آج کے شمارے کی جس تحریر نےخط لکھنے پر مجبور کردیا، وہ شفق رفیع کا کراچی سینٹرل جیل کا احوال ہے۔ یقین کریں، ایسا لگ رہا تھا، جیسے یہ ہماری پولیس یا جیل کا ذکر نہیں ہورہا، کسی اور ہی دنیا کی باتیں ہیں۔ بہرکیف، ناامیدی و مایوسی کے اندھیروں میں یہ مضمون ایک روشن چراغ ہی لگا۔ یقیناً مجھ سمیت بہت سےلوگ، جو خاص طور پرصوبہ سندھ کی پولیس سے بہت بدگمان ہیں، اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوگئے ہوں گے۔ میری تو دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اِسی طرح ہمارے تمام اداروں کو دیانت داری اور محنت سےکام کرنےکی توفیق عطافرمائے، اور عوام کی زندگیوں میں سُکون، آسانیاں مہیّا کرنے والا بنائے۔ مَیں اپنےکالج کے زمانے میں بڑے بڑے خط لکھا کرتی تھی، جب صرف ایک لینڈ لائن فون ہوتا تھا اور آپریٹر کےہزارنخرے، کئی کئی مہینے ہوجاتے تھے، گھر بات کیے،تو رابطے کا ذریعہ یہ خط ہی ہوا کرتے تھے۔ آپ نے یہ سلسلہ شروع کرکے جس طرح ایک دَم توڑتی روایت کو زندہ کیا ہے، بہت قابلِ تحسین ہے۔ کاش! صرف مندرجات پر بات کرنے کی قید نہ ہوتی تو مَیں آپ سے ڈھیروں باتیں کرتی۔ مثلاً میں آپ کا سنڈے میگزین جب سے شادی ہوکر آئی ہوں، یعنی 2000ء سے پڑھ رہی ہوں، اور اس کے زیادہ تر سلسلے مجھےبہت پسند ہیں،جن میں سرِفہرست ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘(جو کچھ دن سےنظر نہیں آرہا) ناقابلِ فراموش اورآپ کاصفحہ(ہم سب کا صفحہ) ہیں۔ اج کل اولیائے کرام کے بارے میں محمّد احمد غزالی بہت اچھا لکھ رہے ہیں، بہت ہی معلوماتی مضامین ہوتے ہیں، خاص طور پر مولانا جلال الدین رومی کے بارے میں پڑھ کر تو بہت ہی اچھا لگا۔ اس کے علاوہ سیر و سیّاحت پر مبنی مضامین کا بھی جواب نہیں ہوتا، خصوصاً ڈاکٹر سمیحہ راحیل اور سلمیٰ اعوان بہت اچھی سیر کرواتی ہیں۔ لگتا ہے، ہم ان کےہمراہی ہیں۔’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ سے خواتین سیاست دانوں سے متعلق کافی معلومات ملیں، حالاں کہ مجھے سیاست سےکچھ زیادہ دل چسپی بھی نہیں۔ منور راجپوت بہت اچھا لکھتے ہیں، اس دفعہ اُن کا مضمون ’’گاڑی چلائیں، مگر احتیاط سے‘‘ ایک چشم کُشا تحریر تھی۔ اسماء دمڑ بہت مزے کے خط لکھتی ہے۔ ماشاء اللہ زندگی سے بھرپور لڑکی ہے، اللہ اُس کو خُوش رکھے۔ اب بہت ساری اَن کہی باتیں اگلے خط میں ہوں گی کہ یہ خط خاصا طویل ہوگیا ہے۔ (ڈاکٹر تبسّم سلیم، خیرپور میرس)
ج: ڈاکٹر تبسّم! آپ کا خط پڑھ کے بخوبی اندازہ ہورہا ہے کہ آپ اچھی خط و کتابت کرتی رہی ہیں اور آپ جیسے اچھے لکھنے والوں کو اپنا ٹیلنٹ ضایع نہیں کرنا چاہیے، ہم سے خط و کتابت بھی آپ کو بہت پہلے شروع کردینی چاہیے تھی۔ خیر، اب آہی گئی ہیں، تو وقتاً فوقتاً بزم میں ضرور شرکت کیجیےگا۔ ہاں،بس، ایک چھوٹی سی بات کا دھیان رہےکہ اب خط لکھیں تو حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھیں۔
گوشہ برقی خطوط
* مَیں یہ ای میل گرما گرم چائے سے لُطف اندوز ہوتے ہوئے، فائر پلیس کے سامنے بیٹھ کے لکھ رہی ہوں، کیوں کہ باہر شدید برف باری ہورہی ہے۔ درجۂ حرارت منفی 7 ہے اور پورا شہر برف کی چادر اوڑھے ہوئے ہے۔ بہرحال، 30 جنوری کا شمارہ لاجواب ہے۔ مولانا رومی ؒ کے تذکرے کی پہلی قسط ہی نے اپنے حصار میں لے لیا۔ محمّد احمد غزالی کا کیا ہی خُوب صُورت طرزِ تحریر ہے۔ منور مرزا نے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے کمالات کا اچھا تجزیہ کیا۔ ایک پیغام کے صفحے پر اب تک سالِ نَو کے پیغامات ہی شایع ہو رہے ہیں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں محمّد سلیم راجا نے پورے سال کی چِٹھیوں کا ایک خُوب صُورت جائزہ پیش کیا، زبردست، پڑھ کے لُطف آگیا۔ اس بار جریدے میں پروف کی کچھ غلطیاں نوٹ کیں، عموماً ایسا ہوتا نہیں، تو کچھ عجیب لگا۔ (قرأت نقوی، ٹیکساس، یو ایس اے)
ج: آپ نے غلطیاں نوٹ کیں، تو یقیناً ہوئی ہوں گی۔ بندہ بشر ہیں، پوری کوشش بھی کرلیں تو کامل نہیں ہوسکتے۔
* مَیں سنڈے میگزین کے لیے ایک کہانی بھیجنا چاہتا ہوں۔ (جواد اللہ)
ج: بھیج دیجیے، جریدے کے لیے کچھ بھی بھیجنا ہو تو، اُس کے لیے ہماری اجازت قطعاً ضروری نہیں۔
* سنڈے میگزین کی بڑی پرانی قاریہ ہوں۔ صبح صبح اُٹھ کے، بہن بھائیوں سے پہلے جریدہ حاصل کرنے کی اپنی جستجو آج بھی یاد ہے۔ اور کسی اور کے ہاتھ لگنے کی صُورت میں اُس سے لڑنا جگھڑنا، میگزین جھپٹنا بھی نہیں بُھولا۔ آپ بھی ایک بار کہہ دیں کہ مَیں آپ کو یاد ہوں، تو دل بہت خوش ہوجائے گا۔ خیر، سالوں سے میگزین کا اپنا ہی ایک معیار ہے۔ مَیں نے ای میل کرنا چھوڑ دیا، لیکن مطالعہ باقاعدگی سے کرتی ہوں۔ روزِ اوّل سے آج تک آپ کے جوابات کی مدّاح ہوں۔ اتنے برسوں میں آپ کا بےساختہ پن، خُوب صُورت انداز تبدیل نہیں ہوا۔ یہ بڑی حیرانی اور خوشی کی بات ہے۔ ناول ’’دھندلے عکس‘‘ بہت پسند آیا۔ نیا ناول کب شروع کررہی ہیں۔ (رمشہ الیاس، مرغزار کالونی، لاہور)
ج:جی، آپ بالکل یاد ہیں۔ کیوں کہ آپ ہماری چند ایک لاڈلی لکھاریوں میں شامل رہی ہیں۔ ای میل کرنا کیوں چھوڑ دی۔ اگر کوئی خاص وجہ نہیں، تو بہتر ہے کہ تعلق دوبارہ استوار کرلیا جائے۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk