• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

اپنی فرشتہ صفت بیٹی کے حوالے سے یہ دُکھ بھری داستان رقم کرتے ہوئے میری آنکھیں پُرنم ہیں، جو آج سے بارہ سال قبل 14نومبر کو اچانک دل کا جان لیوا دورہ پڑنے سے ہمیں داغِ مفارقت دے گئی۔ اتنے برس گزر جانے کے باوجود آج بھی اس سانحے پر میرا دل غم سے پَھٹا جاتا ہے۔ بلاشبہ، انسان گردش ِدوراں کے آگے بے بس ہے، جو اگر اُسے بہت کچھ دیتی ہے، تو بہت کچھ چھین بھی لیتی ہے، یہاں تک کہ اُس کی زندگی کا مرکز و محور بھی۔

اللہ ربّ العزت نے مجھے چار بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا، بیٹیاں بڑی اور بیٹا سب سے چھوٹا۔ بڑی بیٹی کے بعد پیدا ہونے والی بیٹی، فرحین بچپن ہی سے نہایت ذہین اور قابل تھی۔ اس نے بی ایس سی اور ایم اے اکنامکس امتیازی نمبرز سے پاس کرنے کے بعد پنجاب پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی، جس کے بعد اسے دولتالہ کے ایک سرکاری کالج میں باآسانی ملازمت مل گئی۔ ملازمت ملنے پر وہ بے حد خوش اور مطمئن نظر آتی تھی، جیسے اُسے اُس کی محنت کا ثمر مل گیا ہو۔ 

مَیں کبھی کبھی گھر کے مسئلے مسائل سے گھبرا کر رونے لگتی، تو فوراً میرے آنسو پونچھتی، دلاسا دیتی۔ وہ نہ صرف میری اور گھر بھر کی راج دُلاری تھی، بلکہ اپنے باپ کا بھی مان، شان تھی۔ باپ کو پریشان دیکھ کر اُن کا حوصلہ بڑھاتی اور کہتی ’’ابّو! مجھےملازمت مل گئی ہے، اب مَیں آپ کا سہارا بنوں گی۔‘‘ اُس وقت میرا اکلوتا بیٹا، بہت چھوٹا تھا۔ اُس کی باتوں سے ہمیں بڑی تقویت ملتی۔ وہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم پر بھی بھرپور توجّہ دیتی۔ اسکول میں گرمیوں کی چھٹیوں میں خصوصی طور پر قرآن کی تفسیر سمجھنے کے لیے مدرسے جاتی۔ پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے ادا کرتی، دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی۔

مَیں نے کبھی اُسے وقت ضایع کرتے نہیں دیکھا۔ کالج میں بھی اس نے سب کا دل جیت لیا، محنت، لگن سے پڑھانے کی وجہ سے استادوں میں تکریم کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی، طالبات بھی اس کی گرویدہ تھیں۔ پرنسپل صاحبہ بھی اسے بے حد پسند کرتیں اور اس کی قابلیت کی تعریف کرتے نہ تھکتیں، وہ تھی ہی بہت اعلیٰ اخلاق کی مالک۔ کیا اپنا، کیا پرایا، ہر ایک سے انتہائی محبّت سے ملتی۔ غریبوں کے لیے دردِ دل رکھتی اور اُن کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتی۔ غرض یہ کہ میری بیٹی فرحین، نہ صرف خوش شکل، خوش مزاج، پُرخلوص، صبر و انکساری کا پیکر بلکہ خداداد صلاحیتوں کی مالک بھی تھی۔ 

اُسے ملازمت کرتے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ13 نومبر کا دن اُس کا کالج میں آخری دن ثابت ہوا۔ 17 نومبر کو عیدالاضحی تھی اور13 نومبر سے عید کی چھٹیاں شروع ہوگئی تھی۔ میری بڑی بیٹی بیاہ کے بعد پنڈی میں مقیم تھی۔ عیدالاضحی پر پانچ روز کی چھٹیاں ملیں، تو اس نے فرحین اور اس سے چھوٹی بہن کو ایک روز کے لیے اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور کہا کہ ایک دن ہمارے ساتھ گزار کراتوار کو واہ کینٹ چلی جانا۔ فرحین بھی خوش ہوگئی، اس نے مجھ سے اجازت طلب کی اور ایک روز بعد واپس آنے کا کہہ کر چھوٹی بہن کے ساتھ راول پنڈی روانہ ہوگئی۔ مگر کسے معلوم تھا کہ وہ گھر میں اُس کا آخری دن ہے۔ 

بہن کے یہاں پہنچنے کے بعد رات کو سب گھروالوں کے ساتھ کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد رات بارہ بجے تک ہنسی خوشی گپ شپ کرتے رہے۔ پھر سب اپنے اپنے بستروں پر سونے کے لیے چلے گئے۔ صبح دس بجے میرا داماد اپنی دکان پر جانے کی تیاری کررہا تھا، بیٹی ناشتا تیار کر رہی تھی کہ میری جگر گوشہ، فرحین اچانک اٹھ کر گھبراہٹ کے عالم میں دروازے کی طرف بڑھی اور دروازے تک پہنچتے ہی دھڑام سے گر کر بے ہوش ہوگئی۔ آواز سُن کر میرا داماد اور بیٹی بھاگتے ہوئے اُس کے کمرے کی طرف گئے اور اُسے بے ہوشی کی حالت میں اس طرح فرش پر گرے دیکھ کر گھبرا گئے۔ 

فوراً اسپتال لے گئے، جہاں ڈاکٹر نے ابتدائی طور پر دیکھتے ہی کہا کہ دل کا شدید دورہ پڑا ہے، پھر تفصیلی معائنے کے بعد اس کے انتقال کی رُوح فرسا خبر سُنادی۔ یہ قیامت خیز خبرہم پر بجلی بن کر گری، کسی کا بھی دل اُس کی موت کو تسلیم نہیں کررہا تھا۔ بہرحال، یہ تو طے ہے کہ تقدیر کے سامنے انسان کا کوئی بس نہیں چلتا۔ یہ ایک تلخ حقیقت تھی، جسے بالآخر تسلیم کرنا ہی پڑا اور مَیں اپنی ہیرے جیسی بیٹی سے محروم ہوگئی، جس کی جدائی پر بس اتنا ہی کہہ سکتی ہوں کہ ؎ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے…اللہ تبارک تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ وہ اس کی قبر کو نور سے بھر دے اور اپنے کرم سے جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔ ( غم زدہ ماں، لالہ زار، واہ کینٹ)