تاریخِ انسانی میں جس ہستی نے اپنی رحمت، شفقت و مہربانی، عفو و کرم اور ہم دردی و غم گساری سے پورے عالم کو سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ نبی آخر الزماں، رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے۔آپ ؐ کے عظیم الشّان اوصاف و کمالات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ سورۃ الانبیاء آیت نمبر107میں ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمہ:’’ہم نے آپ ؐ کو سارے جہاں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا۔ ترجمہ:’’بے شک، تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسولﷺ تشریف لے آئے، جن پر تمہارا مشقّت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔‘‘(سورۃ التوبہ، 128)۔ آنحضرتﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا ہر شعبہ اور ہر قول و فعل انسانیت کے لیے باعث ِرحمت و برکت ہے۔
سرورِ کونینﷺ کی سیرتِ مطہرہ اپنے اندر اس قدر جامع رعنائیاں لیے ہوئے ہے کہ اگر انسان شمار کرنا چاہے، تو شمار نہیں کرسکتا۔ بابرکت سیرت کا ایک پہلو آپﷺ کے لعابِ دہن کی برکات پر مشتمل ہے۔
سیرت کی کتابوں میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں، جن سے معلوم ہوتاہے کہ آپﷺ کے لعابِ دہن کی برکت سے مریض شفایاب، زخمی تن درست اورکھانے پینے کی اشیاء میں برکت ہوئی۔ غزوئہ خیبر میں ایک قلعہ فتح نہیں ہو رہا تھا۔ ایک دن آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’کل میں پرچم اُسے عطا کروں گا، جس کے ہاتھوں اللہ فتح عنایت فرمائے گا۔‘‘
صحابہ کرامؓ میں سے ہر ایک اس سعادت کے حصول کا خواہش مند تھا۔ جب صبح ہوئی تو رسول اکرمﷺ نے حضرت علی ؓ کو بلایا۔ صحابہؓ نے عرض کیا۔ ’’یارسول اللہﷺ! حضرت علیؓ آشوبِ چشم میں مبتلا ہیں۔‘‘ سرکارِ مدینہﷺ نے فرمایا ’’اُنھیں بلاؤ۔‘‘ حضرت علیؓ حاضرِ خدمت ہوئے، تو آپﷺ نے اُن کی آنکھوں میں اپنا لعابِ دہن لگایا اور دعا فرمائی۔ اسی وقت حضرت علیؓ کی آنکھیں شفایاب ہوگئیں اور اس کے بعد پھر کبھی انؓ کی آنکھیں نہیں دُکھیں۔
حضرت محمد بن خطاب اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’مجھے میری ماں نے بتایا کہ تمہاری ولادت ارضِ حبشہ میں ہوئی، بعد میں، تمہیں لے کر مدینہ طیبہ روانہ ہوئی۔ ابھی مدینہ پہنچنے میں ایک دو دن کا سفر باقی تھا کہ ایک جگہ ڈیرہ ڈالا اور کھانا پکانے لگی۔ لکڑیاں جلد ہی ختم ہوگئیں، تو مَیں لکڑیاں تلاش کرنے لگی۔ میرے جانے کے بعد تم نے ہانڈی پکڑی اور اپنے ہاتھ پر اُلٹ لی۔ تمہارے ہاتھ جُھلس گئے۔
مَیں جب مدینہ منورہ پہنچی، تو دربارِ رسالت مآبﷺ میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ ’’یارسول اللہﷺ! یہ محمد بن خطاب ہے۔ مدینہ آتے ہوئے حادثے کا شکار ہوگیا ہے۔‘‘ رسول اللہﷺ نے تمہارےجھلسے ہوئے ہاتھوں پر اپنا لعابِ مبارک لگایا اور دُعا فرمائی۔ تھوڑی ہی دیر میں ہاتھ ٹھیک ہوگیا۔
حضرت خبیب ابنِ فدیکؓ کی آنکھیں ایک حادثے میں بالکل سفید ہوگئیں،جس کے بعد وہ دیکھنے سے قاصر ہوگئے۔ وہ اپنے بیٹے کو ساتھ لےکر دربارِ رسالتِ مآبﷺ میں حاضر ہوئے اوراپنا واقعہ تفصیل سے بیان کیا۔ آنحضرتﷺ نے اُن کی آنکھوں میں لعاب ِدہن ڈالا، جس کی برکت سے بینائی بحال ہوگئی۔ اُن کے فرزندِ ارجمند فرماتے ہیں کہ’’ مَیں نے خود مشاہدہ کیا کہ والد صاحب80سال کی عمر میں بھی سوئی میں دھاگا ڈال لیتے تھے۔‘‘
حضرت عمران بن حصینؓ ایک روایت میں ایک سفر کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ہمیں سخت پیاس لگی تھی، ایک ساتھی کو غسل بھی کرنا تھا۔ آنحضرتﷺ کے حکم کی تعمیل میں ہم پانی کی تلاش میں نکلے، تو دیکھا کہ ایک عورت اونٹ پر پانی کے چھاگلوں کے درمیان پاؤں لٹکائے جا رہی ہے۔ اس نے ہمیں بتایا کہ نزدیک پانی کا کوئی چشمہ نہیں۔ اس کے گھر اور پانی کے درمیان ایک دن اور رات کا فاصلہ ہے۔ ہم نے اُس عورت کو سرکارِ مدینہﷺ کی خدمتِ اقدس میں پیش کر دیا۔ حکمِ نبویﷺ سے اونٹنی بٹھائی گئی۔
آپﷺ نے کُلّی فرما کر وہ پانی چھاگلوں میں ڈال دیا۔ اس کے بعد وہاں موجود چالیس افراد نے نہ صرف خُوب سیر ہوکر پانی پیا، بلکہ اپنے برتن اور مشکیزے بھی بھر لیے۔ ساتھی نے غسل بھی کیا۔ اس کے باوجود پانی میں کمی نہ آئی۔ اس واقعے سے وہ عورت اور اس کا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔‘‘اسی طرح حضرت زید بن معاذؓ کے سر اور پاؤں تلوار سے زخمی ہوگئے۔
آپﷺ نے اُن کے زخموں پر اپنا لعابِ دہن لگایا تو وہ بالکل تن درست ہوگئے۔ ابورافع نامی ایک بدبخت، آنحضرتﷺ کو ایذا پہنچاتا تھا۔ جب اس کی ایذارسانی حد سے تجاوز کرگئی، تو رحمتِ مجسّمﷺ نے اسے واصلِ جہنم کرنے کے لیے ایک جماعت متعین فرمائی، جس میں عبداللہ بن عتیق ؓ بھی شامل تھے اور اس محب ِرسولﷺ نے ابورافع کو قتل کرکے جہنم رسید کردیا۔
حضرت عبداللہ ؓ اس کے قتل سے فارغ ہو کر واپس ہو رہے تھے کہ لغزش کھا کر سیڑھیوں سے گر گئے اور ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔ حضرت عبداللہؓ نے واپس آکر اپنے ساتھیوں کو کام یابی کی بشارت دی اور دربارِ رسالتﷺ میں حاضر ہو کر پورا واقعہ عرض کیا۔ آپﷺ نے اُن کے پاؤں پر اپنا مبارک لعاب لگا کر ہاتھ پھیرا، تو شفا ہوئی، اس کے بعد اُنہیں کبھی تکلیف نہیں ہوئی۔
ایک صحابی حضرت عتبہ ابن فرقد ؓ کے جسم سے نہایت عُمدہ خوشبو آتی تھی۔ صحابہ کرامؓ نے رشک کیا اور کوشش سے بڑی عُمدہ عُمدہ خوشبوئیں لاکر اپنے جسموں کو معطر کیا، تاکہ خوشبو میں عتبہ سے بڑھ جائیں، مگر ایسانہ ہوسکا۔حضرت عتبہؓ سے اصل ماجرا دریافت کیا گیا، تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے عہدِ نبویﷺ میں ایک تکلیف پہنچی تھی، مَیں نے رسول اللہﷺ سے اس کی شکایت کی۔
آپﷺ نے مجھے سَتر کے علاوہ کپڑے اُتارنے کا حکم دیا۔ پھر سرورِ کونینﷺ نے اپنے دستِ مبارک پرلعاب لے کر دوسرے ہاتھ پر ملا اور پھر دونوں ہاتھوں سے میری پشت اور پیٹ پر مسح فرمایا۔ پس، اُس روز سے میرا جسم خوشبوؤں سے مہک گیا۔ ’’حدیبیہ‘‘ ایک کنویں کا نام ہے، جس کے نام سے وہ مقام مشہور ہوا۔ حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ ’’اس موقعے پر ہماری تعداد 1400تھی اور کنواں خشک تھا۔
ہم پیاس کی شدّت سے بے تاب ہوگئے اور رسول ﷲﷺ کے دربار میں حاضر ہوکر درخواست کی۔ آپﷺ کنویں پر تشریف لائے۔ پانی منگوایا، اس سے کلّی فرمائی اور اس کا پانی کنویں میں داخل فرمادیا۔ کچھ دیر نہ گزری تھی کہ پانی اُبل پڑا۔ پانی اس قدر وافر مقدار میں تھا کہ ہم سب نے سیر ہوکر پیا اور ہمارے جانوروں نے بھی۔‘‘
غزوئہ احزاب میں خندق کی کھدائی کے دوران مسلمانوں نے بڑی مشکلات کا سامنا کیا، لیکن ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہے۔ صحابہ کرامؓ بھوک اور پیاس کے عالم میں بھی رسول اللہ ﷺ کے حکم کی پیروی کرکے پوری دل جمعی سے خندق کی کھدائی کا کام کرتے رہے۔ حضرت ابو طلحہؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے رسول اللہﷺ سے بھوک کا شکوہ کیا اور اپنے شکم کھول کر دکھائے، سب نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے۔ اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے اپنا شکمِ مبارک کھول کر دکھایا، جس پرسرکارِ دوعالم نے دو پتّھر باندھے ہوئے تھے۔‘‘
حضرت جابر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ فاقوں سے شکم اقدس پر پتھر بندھا ہوا دیکھ کر میرا دل بَھر آیا،چناں چہ مَیں حضور ﷺ سے اجازت لے کر گھر چلا آیا اور اپنی اہلیہ سے کہا کہ ’’مَیں نے نبی اکرم ﷺ کو اس قدر شدید بھوک کی حالت میں دیکھا ہے کہ مجھے صبر کی تاب نہیں رہی، کیا گھر میں کچھ کھانا ہے؟‘‘ بیوی نے کہا کہ ’’گھر میں ایک صاع جَو کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’تم جلدی سے اس جَو کو پیس کر گوندھ لو۔‘‘
پھر مَیں نے اپنے گھر کا پَلا ہوا ایک بکری کا بچّہ ذبح کرکے اس کی بوٹیاں بنادیں اور بیوی سے کہا کہ ’’تم جلدی سے گوشت، روٹی تیار کرلو، مَیں حضور ﷺ کو بلا کرلاتا ہوں۔‘‘ چلتے وقت اہلیہ نے کہا۔ ’’دیکھنا صرف حضور ﷺ اور چند ہی اصحاب کو ساتھ لانا، کھانا کم ہی ہے، کہیں مجھے رسوا مت کردینا۔‘‘ حضرت جابر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے خندق پر آکر آہستہ سے عرض کیا۔ ’’یارسول ﷲﷺ !مَیں نے ایک صاع آٹے کی روٹیاں اور ایک بکری کے بچّے کا گوشت گھر میں تیار کروایا ہے، لہٰذا آپ ﷺصرف چند اشخاص کے ساتھ تشریف لاکر تناول فرمالیں۔‘‘
یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا۔ ’’اے خندق والو!جابر نے دعوتِ عام دی ہے، لہٰذا سب لوگ اُن کے گھر چل کر کھانا کھالیں۔‘‘ پھر مجھ سے فرمایا۔ ’’جب تک مَیں نہ آجاؤں روٹی مت پکوانا۔‘‘جملہ اہلِ خندق جن کی تعداد ایک ہزار تھی، آپﷺ کے ساتھ آئے، جب حضوراکرم ﷺ تشریف لائے، تو گوندھے ہوئے آٹے میں اپنا لعابِ دہن ڈال کر برکت کی دُعا فرمائی اور گوشت کی ہانڈی میں بھی اپنا لعابِ دہن ڈال دیا۔
پھر روٹی پکانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہانڈی چولھے سے نہ اُتاری جائے، پھر روٹی پکنی شروع ہوئی اور لعاب کی برکت سے جملہ ساتھیوں نے سیر ہو کر کھایا۔ اللہ تعالیٰ کی شان کہ ایک ہزار افراد کے کھانا کھانے کے باوجود کھانا اسی طرح بچ گیا، جیسے کسی نے کھایا ہی نہ ہو۔ المختصر، جن پاک پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے لعابِ دہن میں اتنی برکت ہے، اگر اُن پیغمبرﷺ کے اسوئہ حسنہ پر عمل کیا جائے، تو کس قدر برکت ہوگی۔