تحریر: نرجس ملک
ماڈل: ڈاکٹر عائشہ راؤ
ملبوسات: محل گارمنٹس بائے شیخ محمّد خالد (نیلا گنبد، لاہور)
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
پروین شاکر کی ایک مقبولِ عام غزل بلکہ (نصرت فتح علی کے اُسے موسیقی کے قالب میں ڈھال کر امر کردینے کے بعد) زبانِ زدِ عام غزل، موسمِ سرما میں خُودبخود ہی لبوں پر آجاتی ہے۔ یوں بھی عُمدہ شاعری، کلاسیکی موسیقی اور حُزن و ملال، فسردگی و اُداسی کا سرما رُت سے کچھ خاص ہی گٹھ جوڑ ہے۔ پروین شاکر کا کلام کچھ اس طرح ہے؎ کچھ تو ہَوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تِرا خیال بھی.....دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی..... بات وہ آدھی رات کی، رات وہ پورے چاند کی..... چاند بھی عین چِیت کا، اُس پہ تِرا جمال بھی..... سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا..... ایک دفعہ تو رُک گئی، گردشِ ماہ و سال بھی..... اُس کو نہ پاسکے تھے جب، دل کاعجیب حال تھا.....اب جو پلٹ کے دیکھیے، بات تھی کچھ محال بھی..... میری طلب تھا ایک شخص، وہ جو نہیں ملا تو پھر..... ہاتھ دُعا سے یوں گِرا، بھول گیا سوال بھی..... اُس کی سخن طرازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں..... اُس کی ہنسی میں چُھپ گیا، اپنے غموں کا حال بھی ..... شام کی ناسمجھ ہوا، پوچھ رہی ہے اِک پتا..... موجِ ہوائے کوئے یار! کچھ تو مِرا خیال بھی۔
یوں تو سال کے چاروں موسم، بارہ ماہ اپنے اندر کوئی نہ کوئی خصوصیت و خاصیت، ندرت و انفرادیت سموئے ہوئے ہیں، لیکن بھیگے بھیگے جاڑے، سرمائی موسم، دسمبریں رُت کا یہ خاصّہ کہ ’’اپنے ساتھ رہنے کے لیے اِس سے بہتر موسم اور کوئی نہیں‘‘ اِسے تمام رُتوں سے کچھ ممیّز و ممتاز کرتا ہے۔ صبح سویرے چہار سُو پھیلی کہرے کی چادر ہو، چمنیوں سے اُٹھتا دھواں، منہ سے نکلتی بھاپ، ہولے ہولے جسم و جاں سینکتی، میٹھی میٹھی ٹکور کرتی نرم و گرم دوپہریں ہوں یا خُود میں سِمٹنے، اپنے ہی وجود کے گرد بانہیں لپیٹنے، کاندھوں پہ شالیں ڈالنے پہ اکساتی بھیگی بھیگی، ٹھنڈی ٹھنڈی سُرمگیں شامیں، یا پھر اِک ہُو کے عالم میں انگیٹھیوں کے آگے ہاتھ تاپنے، لحافوں میں دبک کے خشک میوے، مونگ پھلیاں، چلغوزے کھانے یا سر تا پا رضائیاں اوڑھے دنیا و مافیہا سے بےخبر ہوجانے پہ مجبور کرتی، تن من ٹھٹھراتی، رُوح جماتی برفیلی راتیں ہوں۔ سردی کا کوئی رنگ، انگ دل و جاں پہ بہت گراں یوں نہیں گزرتا کہ دِل اس کی آمد کی دستک کے ساتھ ہی مان، ٹھان لیتا ہے کہ دسمبر اورکچھ خاص باتیں،یادیں گویا لازم و ملزوم ٹھہریں۔
وہ کیا ہے کہ ؎ سردیوں کے موسم میں..... یاد کی زمینوں پہ..... اِتنی دھول اُڑتی ہے..... آنکھ کے کناروں پہ..... سارے خوش نُما منظر..... دھندلا سے جاتے ہیں..... کچھ نظر نہیں آتا..... آس کے دریچوں سے..... نامرادیوں کی بیل..... اِس طرح لپٹتی ہے..... جیسے صُبح کا بُھولا..... رات ڈوبنے تک بھی..... اپنےگھر نہیں آتا..... سردیوں کے موسم میں..... دُور کی مسافت پر..... جانے والا کوئی بھی..... لوٹ کرنہیں آتا..... خوب گُنگنا بھی لو..... کُھل کے مُسکرا بھی لو..... چین مگر نہیں آتا..... سردیوں کے موسم میں..... بےسبب ہی آنکھوں میں..... کچھ نمی سی رہتی ہے..... زندگی مکمل ہو، پھر بھی ذات میں جیسے..... کچھ کمی سی رہتی ہے..... سردیوں کے موسم میں۔
ساری رُتوں، سب ہی مہینوں سے موسوم کچھ نہ کچھ غزلیں، نظمیں، متفرق اشعار ضرور کہے، سُنے، پسند کیے گئے، مگر خاص طور پر ’’دسمبر‘‘ کےساتھ تو شعروشاعری کا جیسے ’’دنگل‘‘ ہی ٹھہر گیا۔ گویا اِک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ کچھ مقبولِ عام اشعار یاد آرہے ہیں۔ جیسے؎ وہ مجھ کو سونپ گیا فرقتیں دسمبر میں..... درختِ جاں پہ وہی سردیوں کا موسم ہے۔ ؎ آؤ کچھ دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں..... یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں۔ ؎ اُداس راتوں، تیز کافی کی تلخیوں میں..... وہ کچھ زیادہ ہی یاد آتا ہے سردیوں میں۔ ؎ اِک پل میں چشمِ تر سے دسمبر گزر گیا..... چپ چاپ مِرے گھر سے دسمبر گزر گیا..... بیتے دنوں کے ایک بھی پل کے عذاب کا..... اُترا نہ بوجھ سر سے دسمبر گزر گیا۔
؎ جن درختوں پہ تیرا نام لکھا..... اُن درختوں کی چھال رکھی ہے..... سرد موسم میں یاد آیا تُو..... تیر ے ہاتھوں کی شال رکھی ہے۔ ؎ الائو بن کے دسمبر کی سرد راتوں میں..... تیرا خیال میرے طاقچوں میں رہتا ہے۔ ؎ دسمبر! اب کے جائو تو مجھے ساتھ لے جانا..... مجھے بھی شام ہونا ہے، مجھے گم نام ہونا ہے۔ اور؎ کبھی جو ٹوٹ کے برسا دسمبر..... لگا اپنا، بہت اپنا دسمبر..... گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو..... نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر..... وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن..... بس اتنا یاد ہے کہ تھا دسمبر..... ملن کے چند سکّے ڈال اس میں..... مِرے ہاتھوں میں ہے کاسہ دسمبر..... جمع پونجی یہی ہے عُمر بھر کی..... مِری تنہائی اور میرا دسمبر۔
بات یہ ہے کہ ہم اہلیانِ کراچی کے لیے سردی آئے، نہ آئے، ’’دسمبر‘‘ تو آتا ہی ہے، تو ہم بے شک سرما رُت منائیں، نہ منائیں، دسمبر منانا تو ہمارا بھی استحقاق ہے۔ سو، ہم اِس کے سب ’’لوازمات‘‘ سے تکلفاً، اخلاقاً، مروتاً ہی لطف اندوز ہو لیتے ہیں۔ ہاں، آپ کے لیے (باقی پورے مُلک کے باسیوں کے لیے) ہم نے موسم سے عین ہم آہنگ نرم و دبیز سے پہناووں سے ایک شان دار سی بزم ضرور مرصّع کردی ہے۔
ذرا دیکھیے، مختلف رنگ جینز کے ساتھ حسین و دل کش وولن ٹاپ سے لے کر، فرسوئیٹر، جینز جیکٹ اور اوورکوٹ تک کی کیسی شان دار سی ہم آویزی و ہم آہنگی ہے۔ جس بھی رنگ رُوپ پہ ہاتھ رکھ دیں گی، وہ آپ کا ہوا۔ اور پھر اِن کے ساتھ سج دھج کے دسمبر منانے کا جو لُطف آئےگا، اُس کا تو انداز ہی الگ ہوگا۔