رقبے کے اعتبار سے پاکستان کے نصف حصّے کے برابر صوبہ بلوچستان، شدید قلّتِ آب کا شکار ہے۔ اس وسیع و عریض صوبے کا بیش تر رقبہ بے آب و گیاہ چٹیل میدانوں، سنگلاخ پہاڑی چٹانوں اور ریتیلے صحرا پر مشتمل ہے۔ یہاں کے لاکھوں ایکڑ میدانی علاقوں میں بارانی کاشت کاری کی جاتی ہے۔
بارشوں کے دوران یہاں کے کاشت کار اور زمین دار اپنی اراضی کے گرد تین سے چار فٹ اونچا مٹّی کا بند باندھ دیتے ہیں، تاکہ بارش کا پانی زمین میں جذب ہوجائے۔ بعدازاں، زمین کی سطح قدرے خشک ہونے پر ہل چلا کر بیج بوئے جاتے ہیں، پھر اسی پانی پر جوار، باجرے اور دالوں کی فصل تیار ہوجاتی ہے۔
تاہم، یہ عمل بڑا خطرناک ہے۔ بعض اوقات غیر معمولی بارشوں کے باعث بند ٹوٹ جانے سے کاشت کاروں اور زمین داروں کی پوری محنت رائیگاں چلی جاتی ہے۔ دوسری جانب یہاں کے دو اضلاع میں نہروں کا مربوط نظام تو موجود ہے، لیکن پانی کی مبیّنہ غیر منصفانہ تقسیم کے سبب پس ماندہ صوبے کی حق تلفی کی بازگشت دو دہائیوں سے سنائی دے رہی ہے۔
واضح رہے کہ سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ضلع اوستہ محمد اور ضلع نصیر آباد کی کم و بیش نو لاکھ ایکڑ اراضی کی سیرابی کے لیے دریائے سندھ کے گدو اور سکھر بیراج سے دو نہریں نکالی گئیں۔ 2400کیوسک پانی کی گنجائش کی کیرتھر کینال 1929ء میں برطانوی دَورِ حکومت میں تعمیر کی گئی، جب کہ 6700کیوسک کی گنجائش کے ساتھ پٹ فیڈر کینال کی تعمیر ایوب خان کے دَور میں مکمل کی گئی۔
تاہم، بعد میں چین کے تعاون سے پٹ فیڈر کینال کی ری ماڈلنگ اور توسیع کرکے پانی کی گنجائش 7600تک بڑھادی گئی، جس کے بعد سے ان نہروں کی بدولت بلوچستان کے ایک قلیل رقبے پر رواتی اور غیر رواتی فصلیں کاشت کی جارہی ہیں۔ تاہم، پانی کی تقسیم کے نظام پر سندھ حکومت کی بالادستی ہنوز برقرار ہے۔ بیراجز کا کنٹرول سندھ اِری گیشن کے پاس ہونے کی وجہ سے بلوچستان کو قومی آبی وسائل سے کبھی پورا حصّہ نہیں ملا۔
نتیجتاً اکثر و بیش تر خریف سیزن میں شارٹ فال کے سبب زمین داروں، کسانوں اور کاشت کاروں کو اعصاب شکن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نہری پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کے سبب ان دونوں صوبوں میں تناؤ کی سی کیفیت رہتی ہے۔
برطانوی دَور میں تعمیر کی جانے والی کیرتھر کینال فنِ تعمیر کا ایک شاہ کار مانی جاتی ہے۔ یہ کینال نیچرل گریوٹی (قدرتی ڈھلان )کے برعکس کنٹور لیول پر تعمیر کی گئی۔ برطانوی ماہرینِ آب پاشی نے اس کینال کو خصوصی طور پر ڈیزائن کیا تھا اور اپنی مرتّب کردہ دستاویزات میں واضح طور پر تحریر کیا کہ کیرتھر کینال اور اس کی ذیلی شاخوں کے ڈیزائن میں کسی قسم کی تبدیلی پانی کے بہاؤ کو شدید طور پر متاثر کرسکتی ہے، لیکن بعد میں اس کینال کی ری ماڈلنگ پر مختلف قسم کے تجربات کیے جاتے رہے، جس کے نتیجے میں کینال کا نہری نظام متعدد فنی نقائص کے سبب اپنی افادیت کھوچکا ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں سے کینال سسٹم کے ٹیل میں واقع ڈسٹریز اور چھوٹی نہروں میں پانی کے شارٹ فال کے سبب گنداخہ تحصیل کاوسیع رقبہ بنجر اور غیر آباد ہوچکا ہے۔ شارٹ فال کی دوسری بڑی وجہ پانی کی بین الصوبائی تقسیم کا نظام ہے۔ گڑنگ ریگولیڑ وہ مقام ہے، جہاں سے بلوچستان کو پانی فراہم کیا جاتا ہے، لیکن یہ ریگولیٹر بھی سندھ کی انتظامی حدود میں واقع ہونے کے سبب بلوچستان اِری گیشن کی دسترس سے باہر ہے۔
بلوچستان صوبے کی انتظامی حدود گڑنگ سے چند کلو میڑ دور خانگی کے مقام سے شروع ہوتی ہے، جہاں سندھ کے بااثر زمین داروں کے درجنوں واٹرکورسز ہیں، جن سے بلوچستان کا سیکڑوں کیوسک پانی دیدہ دلیری سے چوری کیا جاتا ہے۔ اس مسئلے پر بلوچستان حکومت نے سندھ سے متعدد بار احتجاج بھی کیا، لیکن کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہ آسکا۔
بلوچستان کے نظامِ آب پاشی میں ایک بڑا اَپ سیٹ اُس وقت ہوا، جب پیپلز پارٹی کی حکومت کے ابتدائی دَور میں اُس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیرتھر کینال سے ضلع لاڑکانہ کے علاقے شہدادکوٹ میں واقع بھٹو فیملی کی زرعی اراضی سیراب کرنے کے لیے ’’سیف اللہ مگسی‘‘ کے نام سے ایک اور نہر نکالی۔
نیچرل گریوٹی میں ہونے کے سبب سیف اللہ مگسی کینال میں پانی کا تیز بہاؤ کیرتھر کینال پر شدید طور پر اثر انداز ہوا، جس کے نتیجے میں کیرتھر کینال کی ولاسٹی (متعین سمت میں کسی شئے کی چال یا رفتار) میں کمی آنے سے یہ نہر بُری طرح سلٹ اپ (گاد) ہونے لگی۔
کینال کی تہہ میں مٹّی اور ریت بیٹھنے سے پانی کے بہاؤ میں کمی کے ساتھ ساتھ پانی کا گیج بھی کم ہوتا گیا، چناں چہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے کیرتھر کینال میں شارٹ فال کا مسئلہ سنگین صُورت اختیار کرتا گیا۔ اگرچہ ہر سال کروڑوں روپے کی لاگت سے کینال کی ڈی سلٹنگ ہو رہی ہے، لیکن مسئلہ جُوں کا تُوں ہے۔
دریائے سندھ کے سکھر بیراج سے نکلنے والی نارتھ ویسٹرن کینال (این ڈبلیو سی)9600کیوسک پانی کی یہ مین کینال، سکھر اور شکار پور کے درمیان رُک کے مقام پر تعمیر کیے گئے کمپلیکس میں سندھ کی ’’وارہ‘‘ اور ’’رائس کینال‘‘ سے علیحدہ ہوکر کیرتھر برانچ ہیڈ (کے بی ای ایچ) سے 85کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہوئی بلوچستان پہنچتی ہے، لیکن بعد میں اس کینال پر سندھ کی شراکت داری کا عمل شروع ہوا، تو بلوچستان پہنچنے سے پہلے کیرتھر کینال سے سندھ کی نم، سالار، ’’ایس کے ٹی‘‘ کے نام سے منسوب چھوٹی بڑی نہریں اور ڈسٹریز نکال لی گئیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ مختلف ادَوار میں کیرتھر کینال کے ڈیزائن ڈسچارج میں تجرباتی طور پر کئی تبدیلیاں کی گئیں۔ مختلف ریگولیٹرز پر برطانوی دَور میں تعمیر کیے گئے ڈپ توڑے گئے، جس کے نتیجے میں جہاں کینال کا ڈسٹری بیوشن سسٹم متاثر ہوا، وہاں ذیلی شاخوں اور ڈسٹریز میں سپلائی بھی بُری طرح متاثر ہونے لگی۔
قومی آبی وسائل سے بلوچستان کو نہری پانی کی قلیل مقدار کی فراہمی میں مبیّنہ رکاوٹوں کے سبب صوبے کے واحد گرین بیلٹ میں زراعت کا شعبہ شدید متاثر ہوا۔ پانی کی کمی بیشی اور فصلوں کو بروقت پانی نہ ملنے سے فی ایکڑ پیداوار میں نمایاں کمی کے اشارے مل رہے ہیں۔ کیرتھر کینال کے نہری نظام سے منسلک ٹیل کی نہروں اور ڈسٹریز میں پانی کی شدید کمی کے سبب گنجان آباد تحصیل گنداخہ کا وسیع علاقہ بنجر اور ویران ہوچکا ہے۔
ہزاروں زمین دار اپنی آبائی زمینیں اونے پونے فروخت کرکے محنت، مزدوری کے لیے کراچی اور سندھ کے مختلف شہروں کی جانب نقل مکانی کرچکے ہیں۔ اس حوالے سے ٹیل کے چھوٹے زمین داروں کے ترجمان، عادل جمالی کا کہنا ہے کہ ’’کیرتھر کینال کا نظام پوری طرح مفلوج ہوچکا ہے، کینال ریگولیشن پر عمل درآمد کی بجائے یہاں ’’جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس‘‘ کے مصداق بااثر قبائلی شخصیات نے کینال کے ریگولیٹرز کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے اور اِری گیشن انتظامیہ اُن کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ مین کینال سمیت ذیلی شاخوں کے واٹر کورسز مقررہ ڈیزائن ڈسچارج سے کئی گُنا چوڑے کر دیئے گئے ہیں اور بڑے پیمانے پر پانی کی چوری کے سبب ٹیل کا علاقہ ویرانے کا منظر پیش کررہا ہے۔
بلوچستان کی دونوں بڑی نہروں میں دریائے سندھ سے پانی کی سپلائی میں اکثر اوقات رکاوٹوں سے سندھ اور بلوچستان کے مابین کشیدگی کا ماحول بنا رہتا ہے، صوبائی حکومت نے حق تلفی کے خلاف پانی کی تقسیم کے قومی ادارے ’’انڈس ریور سسٹم اتھارٹی‘‘ (ارسا) کو متعدد بار شکایتی مراسلے بھی ارسال کیے، لیکن اب تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ کیرتھر اور پٹ فیڈر کمانڈ کے زمین دار اور کسان پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
خریف سیزن، بالخصوص شارٹ فال کا سبب بنا رہتا ہے۔ متعدد بار زمین داروں نے بلوچستان کے حصّے کے پانی کی بلاجواز کٹوتی پر سکھر اور گڈو بیراج پر دھرنے دیئے، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔‘‘ اسی ضمن میں زمین دار ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر، شبیر خان عمرانی اور ترقی پسند زمین دار سابق صوبائی وزیر، میر عبدالخالق خان جمالی کا کہنا ہے کہ ’’سندھ کی بالادستی کے سبب ہماری زرعی معیشت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔
خریف اور ربیع سیزن میں ہمیں متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نہروں میں پانی کی شدید کمی کے سبب کھڑی فصلیں سوکھ جاتی ہیں، چاول کی پنیری کو بچانے کے لیے نہروں کی تہہ میں بہنے والے پانی کو ٹیوب ویلز کے ذریعے لفٹ کرکے کھیتوں تک پہنچانا پڑتا ہے، اس صُورتِ حال میں اب بھاری زرعی اخراجات ہمارے بس میں نہیں رہے۔
زرعی اجناس کی قیمتوں میں غیر متوقع کمی سے زمین دار اور کسان بھی دل برداشتہ ہوچکے ہیں، زرعی اجناس کی بے قدری اور قیمتوں میں کمی کے سبب زمین داری کا شعبہ گویا خسارے کا سودا بن چکا ہے، جب کہ ہمارے منتخب نمائندے اس حسّاس مسئلے پر سنجیدگی سے توجّہ دینے کی بجائے پانی پر سیاست کررہے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’سندھ اِری گیشن کا معاندانہ رویّہ پڑوسی صوبوں کے مابین تناؤ کا سبب بن رہا ہے۔ ارسا کی جانب سے چند سال قبل گڑنگ ریگولیٹر پر پانی کی آمد و اخراج کی کمپیوٹرائزڈ پیمائش کے لیے ٹیلی میٹری سسٹم نصب کیا گیا تھا۔ تاہم، سندھ اِری گیشن کے کارندوں نے اپنی چوری پر پردہ ڈالنے کے لیے اس جدید کمپیوٹرائزڈ سسٹم کو بھی ناکارہ بنا دیا۔‘‘
نہری نظام پر ماہرانہ دسترس رکھنے والے بلوچستان اِری گیشن کے سابق چیف انجینئر، محمد ابراہیم رند کا کہنا ہے کہ ’’بلوچستان کا نہری نظام سندھ اِری گیشن کے رحم و کرم پر ہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں تیکنیکی مہارت کی کمی کے سبب سندھ اِری گیشن، ڈسٹری بیوشن کے دوران پانی کے ڈسچارج کی مستند رپورٹ جاری نہیں کرتا اور نہ ہی بلوچستان کو کبھی انڈنٹ کے مطابق پانی ملا ہے۔
پانی کی تقسیم کے پیچیدہ نظام کو سمجھنے کی تیکنیکی مہارت کی کمی کے سبب ہم مار کھا رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم ماضی میں بھی کینال سسٹم کو درپیش بڑے چیلنجز سے نمٹتے رہے اور بلوچستان کا مقدمہ اعلیٰ سطح پر نہایت مہارت سے لڑتے رہے۔
نیز، ہم نے اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے ہمیشہ بلوچستان کے آبی وسائل کو محفوظ بنانے کی کوشش کی، لیکن اب دو دہائیوں سے بلوچستان کا نہری نظام لاوارثوں کی طرح سندھ اِری گیشن کے رحم و کرم پر ہے، جب سندھ کو پانی کی ضرورت پڑتی ہے، تو ہمارا پانی روک لیا جاتا ہے اور جب ہمیں ضرورت نہیں ہوتی، تو سارا پانی بلوچستان کی نہروں میں چھوڑ کر سیلابی صُورتِ حال پیدا کردی جاتی ہے۔
ہم نے سابق وزیر اعظم، میر ظفر اللہ خان جمالی کو تجویز دی تھی کہ سندھ اِری گیشن کی بالادستی ختم کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم اپنا بیراج سسٹم علیحدہ کرلیں، اس سلسلے میں ہم نے ورک پلان بھی تیار کیا اور کیرتھر کینال کو سکھر بیراج سے ہٹاکر گدو بیراج پرمنتقل کرنے کی تجویز بھی پیش کی، لیکن نہ جانے کن ناگزیر وجوہ کی بنا پر اب تک ہماری تجویز پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکا۔‘‘
نیز، انہوں نے کچھی کینال منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگرچہ جنرل پرویز مشرف کے دَور میں یہ کینال بلوچستان کے لاکھوں ایکڑ میدانی علاقے سیراب کرنے کے لیے تعمیر کی گئی، لیکن اس سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والا صوبہ، صوبہ پنجاب ہے، جس کی انتظامی حدود میں تین سو کلومیٹر تک یہ نہر جنوبی پنجاب کی لاکھوں ایکڑ اراضی سیراب کررہی ہے، لیکن بلوچستان کی حدود میں لاکر اس منصوبے پر کام یا تو بند کردیا گیا ہے، یا پھر کام کی رفتار دھیمی پڑچکی ہے۔
بلوچستان کے نام پر تعمیر ہونے والی اس نہر سے اہلِ بلوچستان آج تک مستفید نہیں ہوسکے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کا یہ قلیل حصّہ نہروں کی بدولت صوبے کا گرین بیلٹ تو کہلاتا ہے، لیکن پانی کی مصنوعی قلّت نے اس سرسبز و شاداب خطّے کی ہریالی چھین لی ہے۔
استا محمد اور نصیر آباد کے باسی مقتدر شخصیات اور اقتدار کے ایوانوں سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اس حق تلفی پر ان کی صدائے احتجاج کو کبھی نہ کبھی تو پزیرائی ملے گی، گرچہ فی الوقت تو اِس نقّار خانے میں کسی توتی کی آواز سنائی نہیں دے رہی۔‘‘