• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

متوسط طبقے کے خاندانوں نے پلاٹوں کی خریداری، اپارٹمنٹس کی بکنگ اور مکانات کرائے پر لینے کے لیے خاطر خواہ رقم کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کمزور اور شکستہ ریگولیٹری فریم ورک اور زمین کی تقسیم، استعمال، تبادلوں اور رجسٹریشن میں بدعنوانی کے مروجہ طریقوں کی وجہ سے ملک بھر میں بڑی تعداد میں بے قاعدہ اور غیر قانونی ہاؤسنگ کوآپریٹو سوسائٹیز نے زرخیز زرعی اراضی پر قبضہ جما رکھاہے ۔ متوسط طبقہ معقول رہائش حاصل کرنے کے لیے بچت کرتا ہے۔ ان کے جمع کیے گئے اربوں روپے بھی اس بے قاعدہ شعبہ کی جیبوں میںجا چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سی سوسائٹیوں نے تعمیراتی ڈھانچے نامکمل چھوڑ دیے ہیں جو کہ قبضے کے لیے موزوں نہیں ہیں جبکہ قانونی کارروائیاں برسوں تک التوا میں چلی جاتی ہیں۔

عدالتوں کی جانب سے تعمیر شدہ ڈھانچوں کو منہدم کرنے کا حکم دینے کے موجودہ رجحان کی بجائے بہتر طریقہ یہ ہے کہ انہیں ریگولرائز کیا جائے۔ ان پر متوسط طبقے نے اپنی جمع پونجی سے سرمایہ کاری کی ہے۔ ان کو جائیداد کے حقوق فراہم کیے جائیں جبکہ ڈویلپرز، بلڈرز اور ذمہ داروں کو سخت سزا دی جائے۔جج بطور ایگزیکٹو مجسٹریٹ اپنے اضلاع میں حکام کو بھی ہدایت دے سکتے ہیں کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں تاکہ ایسی بے قاعدگی اور غیر قانونی تعمیرات نہ ہوں ۔ وہ وقفے وقفے سے رپورٹیں طلب کریں۔ اس طرح کی خلاف ورزیوں کی نشان دہی کرنے والے پورٹلز پر شہریوں کی شکایات کی بھی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

غریب مالکان سے زمینوں پر قبضے اور بیورو کریٹس، ججوں اور جرنیلوں کو کئی گنا کم قیمت پر الاٹ کرنے کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے درحقیقت تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔ راتوں رات اشرافیہ کے نمائندے کروڑ پتی بن جاتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے بیک جنبش قلم زمین کے غریب مالکان کو نقصان پہنچا کر بھاری منافع کماتے ہیں۔ اس ناانصافی اور صوابدیدی اختیارات کے استعمال سے جڑے ہوئے ایک چھوٹے طبقے کو فائدہ پہنچانے کے اِس رجحان پر قابو پانے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو ایک مثال کے طور پر استعمال کیا جائے اور اس روش کوپورے ملک سے ختم کیا جائے ۔

ایف بی آر نے حال ہی میں رپورٹ کیا ہے کہ 3.5 ٹریلین روپے سے زیادہ ٹیکس واجب الادا ان لوگوں سے وصول نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے آمدنی کم بتائی یا چھپائی یا ٹیکس کی ادائیگیوں سے بچ گئے۔ جن لوگوں پر یہ رقوم واجب الادا ہیں وہ درحقیقت آرام سے زندگی گزار رہے ہیں یا کاروباری مقاصد کے لیے رقم لوٹ رہے ہیں جبکہ ملک کو ریونیو موبلائزیشن میں کمی کا سامنا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اگر عدالتیں ان مقدمات کا جلد فیصلہ کرتی ہیں اور اس رقم کا آدھا حصہ جمع کر لیا جاتا ہے (اور یہ فیصلہ مستقبل میں ایک ڈیٹرنس کا کام دیتا ہے) تو حکومت ہر سال کتنا قرض لینے سے بچ سکے گی۔کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان ، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی ، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی جیسی ریگولیٹری ایجنسیوں کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد سی سی پی کے دائرہ اختیار کا سوال لاہور ہائی کورٹ نے حل کیا، لیکن اس سے پہلے یہ گیارہ سال تک التوا میں رہا۔ عدالتوں کے حکم امتناع کی وجہ سے کروڑوں روپوں جرمانے جمع نہیں ہو سکتے۔ طویل التوا کی وجہ نہ ختم ہونے والی قانونی چارہ جوئی ہے ۔ اس کی وجہ سے ریگولیٹری فعالیت اور روک تھام کا اثر کمزور ہو جاتا ہے۔

سوموٹو ایکشن اور جوڈیشل ایکٹوازم کی کئی واضح مثالیں جنہوں نے پاکستان کو بہت زیادہ معاشی اور مالی نقصان پہنچایا ، انہیں دستاویزی شکل دی گئی ہے۔ایسا ہی ایک کیس پاکستان اسٹیل ملز کا ہے۔ مرحوم کرنل ریٹائرڈ افضل ، جو ایک محنتی اور دیانتداری کا پیکر تھے، کے دور میں اسٹیل مل ایک منافع بخش ادارہ تھا جس نے مقررہ تاریخ سے پہلے اپنے قرضے ادا کر دیے تھے۔ لیکن یہ منافع عام نتیجہ نہیں بلکہ ایک استثنیٰ تھا۔ مل اپنے وجود میں آنے کے بعد سے زیادہ تر برسوں میں زائد ملازمین، نااہل اور بدعنوان انتظامیہ، پیداوار اور فروخت میں نااہلی کی وجہ سے خسارے میں چل رہی تھی۔ حکومت نے فیصلہ کیا کہ یہ چونکہ ایک تجارتی ادارہ ہے اس کے لیے کھلے مسابقتی عمل کے ذریعے اس کی نجکاری کرنا بہتر ہے۔ لین دین کامیابی کے ساتھ ترتیب دیا گیا اور مکمل کیا گیا اور ایک اسٹرٹیجک سرمایہ کار گروپ نے جیت لیا۔ مل کو اصل میں 3 ملین ٹن کی پیداواری صلاحیت کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا تھا اور اس صلاحیت کو پورا کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچہ بچھایا گیا تھا۔ حکومتی ملکیت کے تحت 3 ملین ٹن کی مقررہ لاگت برداشت کرتے ہوئے اصل پیداوار کبھی 1 ملین ٹن سے زیادہ نہیں ہوئی۔ امید کی جا رہی تھی کہ کامیاب بولی دہندہ اس صلاحیت کو اپنے مکمل استعمال میں لانے کے لیے ایک بڑی رقم کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس طرح حکومت کو نقصانات پر سبسڈی دینے اور کارپوریٹ ٹیکس جمع کرنے سے نجات ملے گی۔ فاضل ملازمین کو دیگر شعبوں میں ملازمت مل جائے گی ۔صلاحیت میں اضافہ سے زرمبادلہ کی بچت ہو گی ۔ اسٹیل اورا سٹیل کی مصنوعات کی درآمد کی جگہ ملکی مصنوعات استعمال ہوں گی۔تاہم سپریم کورٹ نے نجکاری کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے ٹرانزیکشن منسوخ کر دی۔ اس کے بعد سے مل نے نقصانات اور واجبات وصول کرنا شروع کیے جو 2009-2019 کے درمیان 189 بلین روپے تک تھے۔ 2015 میں مل بند ہونے کے باوجود ورکرز اور منیجرز کو تنخواہوں کی مد میں 58 ارب روپے ادا کیے گئے ۔ 23 ارب روپے کے ریٹائرمنٹ فوائد بھی سرکاری خزانے سے ادا کیے گئے۔ ملک نے 2009 سے اسٹیل کی مصنوعات کی درآمد جاری رکھی تاکہ ذیلی صنعتوں کی مانگ کو پورا کیا جا سکے ۔ گزشتہ چند سال میں بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے درآمدی اسٹیل کی لاگت نے گھریلو صارف کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ صرف اس ایک عدالتی مداخلت کی وجہ سے ہونے والا مالیاتی خسارہ تمام کہانی سنارہا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ کیا یہ رقم یا اس کا کچھ حصہ اسکول سے باہر بچوں کو رسمی اور غیر رسمی تعلیمی نظام میں لانے یا بیرونی قرضوں کو کم کرنے پر خرچ نہیں کیا جاسکتا تھا؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین