• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ چاروں دوست زیرک تھے اور کھلاڑی بھی، ہر دفعہ والدین اور اساتذہ کو چکمہ دے جاتے، اسی لیے شاید وہحلقۂ احباب میں مقبول بھی تھے لیکن سو دِن چور کے ایک دِن سادھ کا معاملہ بڑا ہی بد لحاظ ہوتا ہے۔ پھر آپ بیتیاں اور جگ بیتیاں گواہ ہیں کہ جواز اور دلائل ہر جگہ نہیں بچا پاتے، کچھ جگہوں پر بس کارکردگی درکار ہوتی ہے۔ ایک دن چاروں سے استاد نے پوچھ لیا، کل کیوں نہیں آئے تھے؟ استاد چاہتا تو نہیں تھا کہ ان کے جھوٹ کی تفتیش میں جائے مگر استاد بھی بڑے نازک مزاج ہوتے ہیں، جہاں سوئی اٹکی سو اٹک گئی۔ استادوں سے استادی مہنگی پڑتی ہے، مستند سیانے جتنے بھی بڑے کھلاڑی ہوں، استادوں سے کھیلنے اور اور استادوں سے استادی میں اجتناب کرتے ہیں۔ بہرحال اٹکی سوئی استاد کی، ہو گئی شروع تفتیش، چاروں کو اچانک الگ الگ بلایا، ہر ایک کی تفتیش کے بعد انہیں چند لمحے اکٹھے نہ ہونے دیا۔ بچے معصوم سا جھوٹ یہ بول بیٹھے کہ کل ایک ہی گاڑی میں تھے اور مکتب اس لیے نہ پہنچ سکے کہ گاڑی جہاں پنکچر ہوئی وہاں آس پاس پنکچر لگانے والا کوئی نہ تھا، قصہ مختصر انفرادی انکوائری میں ہم جماعت ’’ہم پنکچر‘‘ ہونے کا ثبوت ہی نہ فراہم کر پائے۔ اپنی اپنی بساط اور عقل سے ہر ایک کا ٹائر ہی مختلف نہیں نکلا بلکہ پنکچروں کی تعداد بھی مختلف پائی گئی اور بات پہنچی ’’35پنکچروں‘‘ تک۔ یہ ماننا ہوگا کہ ’’دائیاں کولوں ٹڈ نئیں لکائے جاندے‘‘ نتیجتاً، اور استاد سے لائن کٹ گئی!

کھیل سیاست کا ہو یا بیوپار کا، ہر صورت میں انفرادی کارکردگی ضروری ہے، ہر انفرادی کارکردگی ہی ٹیم کی مجموعی کارکردگی قرار پاتی ہے۔ سیاست میں بھٹو صاحب کو صرف پڑھا یا ان کی پھانسی ہمارے بچپن میں ہوئی تو کچھ کا درد اور کچھ کی خوشیاں یاد ہیں اور یہ معلوم ہے کہ کون کون خوشیوں والے آج ہمدرد ہیں اور کون کون سے پرانے ہمدرد خوشیاں منانےوالوں کے ساتھ ہیں۔ یہ ہماری سیاست کا حصہ اور جمہوریت کا المیہ ہے تاہم شعوری و لاشعوری طور سے ہم نے دو سیاستدانوں کو چاہا، ایک بےنظیر بھٹو اور دوسرے عمران خان کو، بےنظیر بھٹو آئیں تو ہمارا خیال تھا کہ وہ اقوامِ متحدہ کی سیکرٹری جنرل تک پہنچیں گی، وہ خواب ٹوٹا تو پھر نئی تعبیر اور تعمیر کو سمیٹا کہ عمران خان کی آخری منزل سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ ہوگی۔ ان دونوں خوابوں میں فرق یہ ہوا کہ بےنظیر بھٹو والا خواب بےنظیر کے سنگ ہی ختم ہوا مگر عمران خان والا خواب خان نے ختم کیا!

خان نے خواب بہت دکھائے تھے اور وعدہ کیا تھا میں تعبیر دوں گا مگر خان خود اپنے خواب پورے کرنے میں لگ گئے اور عوام کے خواب بھول گئے۔ سیانے صحیح کہتے ہیں، خواب وہ نہیں ہوتے جو دیکھے جائیں، خواب وہ ہوتے ہیں جو سونے نہ دیں۔ وہ تو چھوڑیں جو قبل از انتخابات خواب دکھائے مگر جو حصولِ اقتدار کے پہلے سو دن کے دوران خواب دکھائے وہ تو سب جاگتے میں دیکھنے والے خواب نکلے، امریکہ سے نفرت اور ذاتی و اجتماعی کمزوریوں کو امریکہ پر ڈالنے کا فیشن جب تک ختم نہیں ہوگا ہمارا آغاز ممکن نہیں۔ سارے امریکہ اور سب امریکیوں کو رگڑا لگانا پرانا فیشن ہے، باوجود اس کے کہ ہلیری کلنٹن خاتونِ اول ہونے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی بےنظیر بھٹو کو عزت دے، ٹرمپ عمران خان کو اعزاز بخشے، بھٹو کو جب کوئی امریکی صدر کہے کہ آپ یہاں ہوتے تو میرے وزیر خارجہ ہوتے اور بھٹو جوابا کہے کہ ’’صدر کیوں نہیں؟‘‘، اس سے پیچھے جائیں تو جنرل ایوب کو اندھا دھند پروٹوکول ملے۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ سارا قصور امریکہ کا نہیں ہے، ڈیموکریٹ پارٹی کا جہاں اور ہے ری پبلکن کا جہاں اور! نیوٹن کا تیسرا قانون ایکشن کے مطابق ری ایکشن کا پتہ دیتا ہے۔ گلوبل ویلیج میں امریکہ اور پاکستان میں ایکشن اور ری ایکشن زندہ اقوام اور ریاستوں کی طرح ادل بدل میں رہتے ہیں۔

سفارتی آداب اور سفارتی سائنس ایک الگ ہی سائنس ہے جس کا کرکٹ سینس اورا سپورٹس سائنس سے کوئی رشتہ نہیں، ایک المیہ وطن عزیز میں یہ بھی چل رہا ہے کہ انتہائی سنجیدہ مبصرین اور سیاستدان بھی اب کرکٹ کی اصطلاحوں کو پولیٹکل سائنس اور جمہوریت میں گھسیٹتے پائے جاتے ہیں۔ پارلیمان کو آئین اور قانون جبکہ آئین سازوں کو عوامی امنگوں کے تناظر سے باہر ہی نہیں نکلنے دینا چاہتے۔ بات چونکہ امریکہ کی چل رہی ہے چنانچہ صدر روزویلٹ یاد آگئے جو 1933تا 1946امریکی صدر رہے، انہیں جب لٹی پھٹی معیشت، بینکوں کے دیوالیے، بیروزگاری، عالمی جنگوں کے اثرات ملے تو انہوں نے پہلے سو دن کیلئے ’’نیو ڈیل‘‘ منصوبہ بندی کا اعلان کیا، بینک دیوالیہ ہونے سے بچائے، روزگار فراہم کیے، عوامی اعتماد بحال کیا، خارجہ امور کا ازسرِنو جائزہ لیا، روزانہ کی بنیاد پر ریڈیو پر بیٹھنا اور اداروں سے ہم کلام ہونا اور اُن کی رہنمائی کرنا معمول تھا، پس پہلے سو دن میں راہیں اور فارمولے متعین کر لیے، اہلِ نظر جانتے ہیں کہ روز ویلٹ دونوں ٹانگوں سے پولیو کے سبب معذور ہو چکے تھے مگر بیدار مغز ایسے کہایک نئی تاریخ رقم کر ڈالی۔ امریکہ کو لیڈر امریکہ بناتے ہیں مشینیں نہیں اور پاکستان کو ...؟

عمران خان کے مطابق ان کے پاس عزت، شہرت اور دولت سب کچھ تھا مگر وہ عوام کیلئے اقتدار میں آئے۔ اول تو اقتدار ہی کی کمی تھی سو وہ میک اپ کیے آئے۔ گر مان بھی لیا جائے تو انہوں نے عوام کیلئے کیا کیا؟ اصلاحات نہ عملی نمونے، انقلاب تو دور کی بات ارتقاء کی خشتِ اول بھی نہیں۔ لگوں کا برا کہنے کی حد کردی اپنی بھلائی کی بنیاد بھی نہ رکھ سکے، مستعار لیے دوست بھی چھوڑے جو آخر خود بھی چھوڑ گئے اور اپنے پرانے یارانے بھی نہ نبھا سکے، اپنی ناکامی کو آخر لیٹر گیٹ میں لپیٹا جو اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ بنتا ہی نہیں۔ ٹیم چھوڑ گئی کہ ٹیم تھی ہی نہیں، لوگوں کو مکسڈ اچار کہا خود کی چٹنی نہ چل سکی، خود وکٹیں گرائیں جب دوسری ٹیم نے گرائیں تو آؤٹ ہونے والوں کو بےضمیری کےطعنے! بڑی سادہ سی بات ہے، ہاتھی کے دانت جب کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوں تو اصلاحات ہوتی ہیں نہ انقلاب آتا ہے، کیا ہوا حکومتی دسترس جارہی تھی سیاست تو نہیں پھر لیٹر گیٹ کی پناہ کیوں؟ امریکہ کا قصور بھی ہوگا، خان کی حب الوطنی پر بھی شک نہیں، سیکورٹی کونسل نے قابلِ ستائش اور مستند احتجاج بھی کردیا۔ پھر؟ خان صاحب ہی نہیں ماضی کی قیادتیں بھی دو بیانیوں کی کشتی پر سوار رہیں۔ خان نے بھٹو کا بیانیہ بھی مستعار لیا، غداری اور اسلام پسندی کا بھی مانگا تانگا بھی مگر تشبیہ اور استعارے کی طرح، ملکیت نہیں، کسی ایک کو یا آمیزے کو عملاً نہ اپنایا، یوں سب خواب چکنا چور ہوئے، ’’بےتعبیری‘‘ ڈال دی امریکہ پر! اور اساتذہ سے الگ لائن کٹ گئی!

تازہ ترین