قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا اجلاس ہوا جس میں ممبران نے عدم اعتماد کے حق میں ووٹ ڈال دیا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما، سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اسپیکر کی نشست سنبھال کر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف رولنگ دے دی۔
علامتی اسپیکر ایاز صادق نے رولنگ دے کر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کو مسترد کر دیا۔
علامتی اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ آئین کے خلاف ہے، اسے مسترد کرتا ہوں۔
اس کے بعد قومی اسمبلی ہال کی لائٹس آف کر دی گئیں اور وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر تقسیم کے ذریعے ووٹنگ کا عمل ہوا، مرتضیٰ جاوید عباسی نے ٹیلر کی ذمے داری ادا کی۔
طارق بشیر چیمہ، وجیہ قمر، جویریہ آہیر، نور عالم خان نے بھی عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیا۔
منحرف پی ٹی آئی ارکان بھی عدم اعتماد کی قرار داد کے حق میں رائے شماری کا حصہ بنے۔
وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کی تحریک پیش کرنے کے حق میں 195 ارکان نے ووٹ دیا۔
وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد پر اپوزیشن نے ووٹنگ مکمل کر لی، قومی اسمبلی کے ممبران نے عدم اعتماد کے حق میں ووٹ ڈال دیا جس کے بعد ممبران واپس ایوان میں آ گئے۔
قومی اسمبلی کے اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کی قرار داد مسترد کر دی۔
ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے متحدہ اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کو آئین کے خلاف قرار دے دیا۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم کے خلاف کسی غیر ملکی کو حق نہیں کہ وہ تحریکِ عدم اعتماد لائے، کسی غیر ملکی طاقت کو اختیار نہیں کہ پاکستان کے معاملے میں مداخلت کرے۔
ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک رولز کے مطابق ہونا ضروری ہے، میں بطور ڈپٹی اسپیکر رولنگ دیتا ہوں کہ وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد مسترد کی جاتی ہے۔
ڈپٹی اسپیکر نے تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے سے انکار کر دیا اور قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا۔
اس سے قبل آج قومی اسمبلی کا اجلاس تاخیر سے شروع ہوا، اس سے پہلے یہ اجلاس ساڑھے 11 بجے شروع ہونا تھا۔
دوسری جانب تحریکِ عدم اعتماد مسترد کیے جانے پر اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں دھرنا دے دیا۔
اپوزیشن اراکین نے اس موقع پر خوب شور شرابا کیا اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔
حکومتی ارکان نے بھی اپوزیشن بینچوں پر جا کر نعرے لگائے۔
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف، صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف نے میڈیا سے کہا کہ اسپیکر اور عمران خان پر آرٹیکل 6 لگے گا۔
آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے ایوان میں پہنچنے پر اپوزیشن ارکان نے ڈیسک بجائیں۔
آصف زرداری صدر ن لیگ شہباز شریف، وفاقی وزراء حماد اظہر اور شوکت ترین سے ملے، جبکہ غوث بخش مہر آصف زرداری سے آ کر ملے۔
مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری سالک حسین اور طارق بشیر چیمہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ گئے۔
اس سے قبل انہوں نے اپوزیشن چیمبر میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف سے ملاقات و گفتگو بھی کی۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ ووٹ ڈالنے نہیں آیا کسی اور کام سے آیا ہوں۔
اپوزیشن لیڈر، صدر ن لیگ میاں شہباز شریف قومی اسمبلی ہال پہنچ گئے، اس موقع پر ن لیگی ارکان نے ڈیسک بجا کر انہیں ویلکم کہا۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمر سرفراز چیمہ گورنر پنجاب ہوں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سرپرائز پہلے بتا دوں تو کیا فائدہ، جنہوں نے شیروانیاں سلوائی ہیں انہیں پاجامے نہیں ملنے۔
منحرف ارکان پارلیمنٹ ہاؤس میں اپوزیشن لابی میں پہنچ گئے جس کے بعد اپوزیشن لابی کا دروازہ بند کر دیا گیا۔
اپوزیشن لیڈر، مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، ان کے صاحبزادے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے۔
رہنما پیپلز پارٹی یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج پورا اسلام آباد پُرسکون ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاء اینڈ آرڈر کنٹرول کرنا وزیرِ اعظم کا کام ہے، ہم نے بغیر پی ٹی آئی ارکان کے اپنی اکثریت دکھا دی ہے۔
رکنِ قومی اسمبلی علی وزیر بھی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے، چند روز قبل ان کے اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کیے گئے تھے۔
اس موقع پر انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا کہ کس کو ووٹ دوں گا۔
پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے پر پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر فیصل جاوید نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج شام ہم جشن منائیں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کچھ دیر میں پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ جائیں گے۔
اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی میں اسپیکر اسد قیصر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرا دی۔
اسپیکر اسد قیصر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر 100 سے زائد ارکانِ قومی اسمبلی کے دستخط ہیں۔
اپوزیشن رہنما ایاز صادق، خورشید شاہ، نوید قمر، شاہدہ اختر علی نے اسپیکر کے خلاف یہ تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائی ہے۔
قواعد کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی نہیں کر سکتے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرار داد پر ووٹنگ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔
قائدِ حزب اختلاف، صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد پر ووٹنگ ہو گی۔
ارکانِ قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے پہلے پارلیمنٹ لاجز میں جمع ہوئے بعد میں وہاں سے پیدل پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے۔
آئینِ پاکستان اور قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے مطابق وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے طریقہ کار کے مطابق قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کی شق 37 کی ذیلی شق 7 کے مطابق قرارداد پر ووٹنگ مکمل ہونے اور اس کے منطقی انجام کو پہنچنے تک اجلاس ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔
آئین کے آرٹیکل 95 کی ذیلی شق 4 کے مطابق قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت تحریک عدم کی منظوری دے دے تو وزیرِ اعظم عہدے سے ہٹ جائیں گے۔
قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ایوانِ وزیرِ اعظم عمران خان پر عدم اعتماد کرتا ہے، عمران خان ایوان کا اعتماد کھو چکے، وہ وزیرِ اعظم کے عہدے پر نہیں رہ سکتے۔
شہباز شریف کی جانب سے پیش کی گئی تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ ایجنڈے میں چوتھے نمبر پر ہے۔
ایجنڈے کے دوسرے نمبر پر وقفۂ سوالات رکھا گیا ہے۔
تحریکِ انصاف کے ایم این اے فہیم خان کا توجہ دلاؤ نوٹس تیسرے نمبر پر ہے۔
فہیم خان کا توجہ دلاؤ نوٹس کنٹونمنٹ بورڈز کونسلرز کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے متعلق ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے آج تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے موقع پر ملک گیر احتجاج کی کال دے دی ہے۔
ٹی وی پروگرام پر ’آپ کا وزیرِ اعظم آپ کے ساتھ‘ میں بات کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا کہ نوجوان باہر نکلیں، احتجاج کریں، ضمیر فروش غدار احتجاج ہی سے ڈرتے ہیں۔
اس موقع پر وزیرِ اعظم عمران خان نے اپوزیشن ارکان کے خلاف غداری کے مقدمے بنانے کا بھی اعلان بھی کیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اسمبلی میں اپوزیشن کو شکست دیں گے۔
قوم سے خطاب میں بظاہر غلطی سے امریکا کا نام لینے اور وضاحت کرنے والے عمران خان نے ارکانِ پارلیمنٹ سے خطاب میں کھل کر امریکا کا نام لیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا نے اپوزیشن سے مل کر پاکستان میں حکومت بدلنے کی سازش کی ہے، اچکنیں سلوانے والوں کو نہیں پتہ کہ کل ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پیش کیے جانے کے موقع پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ممکنہ فساد سے بچنے کے لیے ریڈ زون سِیل کر دیا گیا۔
انتظامیہ کے مطابق ریڈ زون میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے، یہاں آنے جانے کے لیے صرف مارگلہ روڈ استعمال کیا جاسکتا ہے۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ریڈ زون میں ہر قسم کے اجتماع پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اسلام آباد میں ریڈ زون کے ارد گرد پولیس، ایف سی اور رینجرز کے 8 ہزار اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب وزارتِ داخلہ نے موبائل فون سروس بند کرنے پر بھی غور شروع کر دیا ہے۔