• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب ہم تاریخ ِ عالم پر نظر دوڑاتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ بعض ایسی شخصیتیں جنہیں وقت کی عدالتوں نے مجرم قرار دیا، وقت کے حکمرانوں، دانشوروں اور ان کے مصاحبین نے جنہیں تختہ دار پر ایک مجرم کی موت دی، انہیں تاریخ نے مجرم کی بجائے ہیرو قراردیا، کیوں ؟ اسلئے کہ ان انسانی عدالتوں کے فیصلوں کو تاریخ کی عدالت نے مسترد کر دیا تھا کیونکہ عوام نے، جو تاریخ کی عدالت کے منصف ہوتے ہیں ’وقت کی عدالتوں کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیا تھا۔غیر منصفانہ اور جانبدارانہ عدالتی فیصلوں کے بارے میں مقدمہ بغاوت ِ ہند میں مولانا ابو الکلام آزاد کا عدالت میں تاریخی بیان زبردست اہمیت کا حامل ہے۔ یہ تحریری بیان مولا نا آزاد نے 11جنوری 1922ء کو عدالت کے روبرو پیش کیا تھا جن پر انگریزوں کی حکومت سے بغاوت کرنے کے جرم میں مقدمہ چل رہا تھا۔ مولانا کہتے ہیں ’’عدالت کی نا انصافیوں کی فہرست بہت طویل ہے، تاریخ آج تک اس کے ماتم سے فارغ نہیں ہوسکی۔ ہم اس میں حضرت مسیح ؑ جیسے پاک انسانوں کو دیکھتے ہیں جو اپنے عہد کی عدالت کے سامنے چوروں کے ساتھ کھڑے کئے گئے، ہم کو اس میں سقراط نظر آتا ہے جس کو صرف اس لیے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ اپنے ملک کا سب سے سچا انسان تھا۔ ہمیں اس میں فلورنس کے فدا کار حقیقت گلیلیو کانام بھی ملتا ہے، جو اپنی معلومات اور مشاہدات کو اس لئے نہ جھٹلا سکا کہ وقت کی عدالت کے نزدیک ان کا اظہار جرم تھا، تاہم مجرموں کا کٹہرا کس قدر عجیب مگر عظیم الشان جگہ ہے جہاں سب سے اچھے اور سب سے برے دونوں طرح کے انسان کھڑے کئے جاتے ہیں حتیٰ کہ حضرت عیسی ؑ جیسی عظیم ہستی کیلئے بھی یہ جگہ ناموزوں نہیں۔ مسٹر مجسٹریٹ ! یہ تاریخ کا ایک دلچسپ اور عبرت انگیز باب ہے، جس کو مرتب کرنے میں ہم دونوں یکساں طور پر مصروف ہیں۔ ہمارے حصے میں مجرموں کا کٹہرا آیا، تمہارے حصے میں مجسٹریٹ کی وہ کرسی۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کا م کیلئے وہ کرسی بھی اتنی ہی ضروری ہے جس قدر یہ کٹہرا۔ آئو اس یادگار افسانہ بننے والے کام کو جلد ختم کردیں۔ مورخ ہمارے انتظار میں ہے اور مستقبل کب سے ہماری راہ تک رہا ہے۔ تم جلد جلد فیصلہ لکھو، ابھی کچھ دن یہ سلسلہ جاری رہے گا، یہاں تک کہ ایک دوسری عدالت کا دروازہ کُھل جائے۔ یہ خدا کے قانون کی عدالت ہے۔ وقت اس کا جج ہے، جو فیصلہ لکھے گااور اسی کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوگا‘‘پریذیڈنسی جیل علی پور کلکتہ 11جنوری 1922ء۔ کسی کو شہید یا مجرم قرار دینے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر مجرم تختہ دار تک نہیں پہنچتا اور تختہ دار تک پہنچنے والا ہر کوئی مجرم نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ غاصب حکمرانوں کے ہاتھوں موت کی سزا پانیوالے آزادی کے متوالے احمد خان کھرل، دُلا بھٹی،بھگت سنگھ اور ان جیسے ان گنت گمنام حریت پسندعدالتوں کے نزدیک تو مجرم اور دہشت گرد تھے لیکن عوام کے نزدیک وہ دھرتی کے بیٹے اور شہید تھے اور آج تاریخ انہیں اسی نام سے یاد کرتی ہے۔ جہاں تک مسٹر بھٹو کے مقدمے میں قانونی سقم یا عدالتی نا انصافیوں کا تعلق ہے اس پر قانونی ماہرین نے بہت کچھ لکھا ہے اور جہاں تک مسٹر بھٹو کیخلاف فیصلہ دینے اور دلانے والے کرداروں کے عبرتناک انجام کا ذکر ہے اس پر بھی ہر ایک کی اپنی اپنی رائے ہے۔ لیکن اس سب سے قطع نظر ایک بات یقینی ہے کہ تمام تر یکطرفہ پروپیگنڈے کے باوجود عوام نے مسڑ بھٹو کو مجرم تسلیم نہیں کیا، حالانکہ کردار کشی کے طوفان میں ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب مسڑ بھٹو کی تصویر تو ایک طرف ان کا نام تک لینے کو جرم بنا دیا گیا اور ایسے مجرموں کو کوڑے، قیدوبند، بھاری جرمانوں اور پھانسی تک کی وحشیانہ سزائیں دی گئیں۔ مارشل لائی دانشوروں نے اپنے قلم کی ساری سیاہی غلاظت میں تبدیل کردی لیکن عوام نے اس گیارہ سالہ یکطرفہ پروپیگنڈے کا جواب نومبر88ء کے الیکشن میں ’’جیوے جیوے بھٹو جیوے‘‘ اور زندہ باد بھٹو کے فلک شگاف نعروں کی گونج میں پوری ریاستی مشینری کی ٹیکنیکل دھاندلیوں کے باوجود، پیپلز پارٹی اور بھٹو کے نام لیوائوں کی تاریخی فتح کے ذریعے دیااور نو سال پہلے ایک مجرم کی حیثیت سے تختہ دار پر جھولنے والے بھٹو کو عوامی ہیرو اور شہید قرار دیتے ہوئے اس پر اپنے ووٹوں کی بارش کردی۔ یہ ہے عوام کا فیصلہ، یہ ہے تاریخ کی عدالت کا فیصلہ اور یہی ہے شہادت کا عوامی اور تاریخی تصور۔ لیکن تاریخ کے ہر متفقہ ہیرو کو یہ عظیم مرتبہ حاصل کرنے سے پہلے ایک طویل عرصہ تک متنازعہ حیثیت کے عبوری دور سے گزرنا پڑا ہے۔ آج کون ہے جو سقراط، جناب عیسیٰؑ، امام ِ حسینؓ، کنگ مارٹن لوتھر اور ان جیسے دیگر بے شمار تاریخ کے ہیروز کو ایک لمحہ کیلئے بھی شک کی نظروں سے دیکھے، لیکن جب ان لوگوں کو سزائیں دی گئیں تو کس نے عدالتوں کے ہاتھ اور فتویٰ فروشوں کی زبانیں روک لیں؟ سچے اور جھوٹے کی تاریخی لحاظ سے ایک پہچان یہ بھی ہے کہ سچا تنہا ہوتا ہے جس کے ساتھ عوام کی اکثریت کی ہمدردیاں شامل ہوتی ہیںجبکہ جھوٹے اور باطل کیساتھ عوام کی ہمدردیاں نہیں ہوتیں،لیکن سوسائٹی کے تمام مقتدر اور بالادست طبقے اس کیساتھ ہوتے ہیں۔ دراصل یہ تاریخ کی وہ منفی قوتیں ہیں جو تاریخ کو اپنے طور پر پیچھے کی طرف لے جانا چاہتی ہیں جبکہ تاریخ انہی کے ردِ عمل کے طور پر ارتقا کا سفر کرتی ہے۔ یہ وہی قوتیں ہیں جنہوں نے صوفیائے کرام پر بھی خلافِ کفر کے فتوئے لگائے۔ بابا بلھّے شاہؒفرماتے ہیں۔

عاشق ہویا ایں توں ربّ دا ہوئی ملامت لاکھ

تینوں کافر کافر آکھدے تو آہو آہو آکھ

تازہ ترین