• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایف بی آر کے مطابق 70لاکھ سے زائد تاجر سالانہ 18سے 20ہزار ارب روپے کا کاروبار کرتے ہیں لیکن ٹیکس سے بچنے کیلئے صرف 3سے 4 ہزار ارب روپے کا کاروبار ظاہر کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے حکومتی خزانے سے سالانہ تقریباً 1000 ارب روپے ٹیکس چوری ہوتا ہے جسے روکنے کیلئے ایف بی آر نے یکم دسمبر 2021ء سے Tier-1 ریٹیلرز کیلئے پوائنٹ آف سیلز (POS) سسٹم لازمی کردیا ہے جس کا مقصد معیشت کی دستاویزی اور ریٹیلرز کا خریداروں سے لیا گیا 17فیصد سیلز ٹیکس کی وصولی یقینی بنانا ہے جس کا ہدف 50ارب روپے سالانہ رکھا گیا ہے۔

قارئین! شاپنگ مالز، سپر مارکیٹس اور دیگر بڑے اسٹورز کی چین اپنے خریداروں سے پیمنٹ پر 17فیصد سیلز ٹیکس وصول کرلیتے ہیں لیکن یہ رقم ایف بی آر کو ادا نہیں کی جاتی۔ یہ کوئی نیا ٹیکس نہیں بلکہ ریٹیلرز اسے خریداروں سے تو وصول کرلیتے ہیں مگر ڈکلیئرڈ نہ کرکے قومی خزانے میں جمع نہیں کراتے۔ ایف بی آر نے خریداروں کو پکی رسیدیں وصول کرنے کی ترغیب اور حوصلہ افزائی کیلئے 5 کروڑ روپے ماہانہ کے انعامات رکھے ہیں جس میں پہلا انعام 10 لاکھ روپے، 5,5 لاکھ روپے کے 2 اور 50ہزار روپے کے 1000 انعامات شامل ہیں۔ اس انعامی اسکیم میں شمولیت کیلئے خریدار کو پکی رسیدیں موبائل ایپ یا ایس ایم ایس سے بھیجنا ہوتی ہیں۔ ایف بی آر کی انعامی اسکیم سے ٹیکس کلچر کے فروغ میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ ماضی میں ریٹیلرز کو پوائنٹ آف سیلز نظام پر عملدرآمد کرانےکی کوششیں کی گئیں لیکن مارکیٹوں ریٹیلرز کی طرف سے شدید ردعمل اور حکومتی عدم تعاون کی وجہ سے اس نظام پر موثر طریقے سے عملدرآمد نہیں کیا جاسکا تاہم اس بار ایف بی آر نے خریداروں کو کمپیوٹرائزڈ پکی رسیدیں نہ دینے پر کراچی میں کروڑوں کا بزنس کرنے والی مقامی معروف مٹھائی کی دکان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اس کی شاخوں ڈی ایچ اے، کھارادر اور گارڈن کو سیل کرکے 35 لاکھ روپے جرمانہ وصول کیا۔ ایف بی آر کے چیف کمشنر طارق مصطفی ٰنے مجھے بتایا کہ ایف بی آر کی RTO-1ٹیم نے مذکورہ دکان کو نوٹس جاری کئے تھے لیکن احکامات کو نظر انداز کیا گیا جس پر کارروائی عمل میں لائی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی میں LTU میں ایف بی آر کا جدید POS مانیٹرنگ سیل قائم کیا گیا ہے جو پکی رسیدوں کے اجراکی نگرانی کرتا ہے اور رسیدیں نہ دینے والے ریٹیلرز کے خلاف کارروائی کرتا ہے۔ آفتاب امام نے بتایا کہ ایف بی آر کے پوائنٹ آف سیلز نظام میں اب تک 6000سے زائد ریٹیل اسٹورز رجسٹرڈ ہوچکے ہیں اور POS نظام کے تحت خریداری پر اب رسیدیں اور دیگر تفصیلات خود بخود ایف بی آر کے ٹیکس نظام کا ریکارڈ بن رہی ہیں جبکہ ایف بی آر نے اس سال POS کا ہدف 50 سے 60 ہزار نئے الیکٹرونکس کیش رجسٹرڈ یونٹس رکھا ہے۔ اس وقت ملک کی بڑی مارکیٹوں طارق روڈ، صدر، انارکلی، گل پلازہ، زینب مارکیٹ، ڈولمین اور اوشن مال، لبرٹی، گلبرگ اور آبپارہ مارکیٹوں کے علاوہ ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں ریٹیلرز پیمنٹ وصول کرنے کیلئے 67000 ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز کی مشینیں استعمال کررہے ہیں جس کے حساب سے تقریباً 20,000پوائنٹ آف سیلز (POS) بنتے ہیں۔ POS کے متعلقہ چیف کمشنر طارق مصطفیٰ خان نے وضاحت کی کہ POS نظام میں آنے سے ریٹیلرز کے ٹیکس ریفنڈ آٹومیٹک ہوں گے اور ریٹیلرز کا آڈٹ بھی نہیں کیا جائے گا۔

میرے دوست ایف بی آر کے نئے چیئرمین ڈاکٹر محمد اشفاق احمد ایک باصلاحیت، ایماندار اور قابل افسر ہیں جنہوں نے نئی ٹیکنالوجی ڈیجیٹلائزیشن، POS اورTTS اپناکر گزشتہ کئی سال سے ٹیکس وصولی کے تمام اہداف حاصل کئے ہیں۔ اس سال بھی چیئرمین ایف بی آر اور ان کی ٹیم نے جولائی سے فروری میں 3800ارب روپے کا ریکارڈ ریونیو حاصل کیا جو گزشتہ سال سے 30فیصد یعنی 268 ارب روپے زیادہ ہیں اور ان شاء اللہ ایف بی آر رواں مالی سال 6100ارب روپے کا ریونیو ہدف پورا کرلے گا۔ ایف بی آر کی نئی ٹیکنالوجی ’’ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم (TTS)‘‘ سے پاکستان کی شوگر انڈسٹری سے 4مہینوں (دسمبر 2021ء سے مارچ2022ء) میں 26.5ارب روپے سیلز ٹیکس کی مد میں وصول کئے گئے ہیں جو 30فیصد زیادہ ہے۔ ایف بی آر کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق نے اپنے حالیہ دورہ کراچی میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز، کراچی چیمبرز، ٹیکس بار ایسوسی ایشن اور دیگر فورمز میں ایف بی آر کی جانب سے دستاویزی معیشت کیلئے ڈیجیٹل اقدامات میں پوائنٹ آف سیلز کے بارے میں تفصیلات بتائیں جس کا مقصد پاکستان میں ریٹیلرز کی سیلز کی نگرانی کرنا ہے۔ ان میٹنگز میں ایف بی آر کے کمپیوٹرائزڈ نظام PRAL میں تیکنیکی خرابیوں اور ان کی وجہ سے سیلز ٹیکس ریفنڈز میں تاخیر پر ایکسپورٹرز نے چیئرمین کو اپنے مسائل پیش کئے۔

گزشتہ دنوں ڈاکٹر اشفاق سے ناشتے پر ملاقات میں مجھے ان سے یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ ریٹیلرز کو پوائنٹ آف سیلز میں رجسٹرڈ کرنے میں لاہور اور دیگر شہروں کے مقابلے میں کراچی سے سب سے اچھا رسپانس ملا ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ ان کے لارج ٹیکس پیئر یونٹ (LTU) کراچی نے اس سال کراچی سے 1000ارب روپے سے زائد ٹیکس وصول کیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کراچی کے تاجروں اور بزنس مینوں میں ٹیکس کلچر پایا جاتا ہے۔ میری عوام سے درخواست ہے کہ بطور ذمہ دار شہری صرف رجسٹرڈ ریٹیلرز سے خریداری کریں اور ان سے پکی رسید کیلئے اصرار کریں تاکہ معیشت کو دستاویزی اور ٹیکس چوری کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکے جو ہمارا قومی فریضہ ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین