وہ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ خوب ناز و نعم میں پالا گیا۔ ماں باپ نے قلیل وسائل کے باوجود اس کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کی۔ جب اس نے جوانی میں قدم رکھا تو ایک خوبصورت اور کڑیل جوان تھا۔ محلے کے چند دوستوں میں بیٹھ کر چھپ کر سگریٹ پینے کی عادت پڑی اور وہیں کسی بدبخت گھڑی میں ہیروئن کا ایک کش لے لیا۔ والدین نے سر توڑ کوشش کی کہ کسی طرح یہ لَت چھوٹ جائے، مگر ناکام رہے۔ اب اس کا دماغی توازن بھی درست نہیں۔ جسم لاغر ہے اور پورے گھر کا سکون برباد۔یہ تقریباً ہر اس گھر کی کہانی ہے جہاں بچوں نے نشہ کرنا شروع کیا۔ پہلے پہل صرف افیون کو نشہ سمجھا جاتا تھا۔ پھر کوکین اور ہیروئن آئی اور اب آئس اور نہ جانے کس کس نشے نے نوجوان نسل کو اپنا اسیر بنا رکھا ہے۔
افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان کی تقریبا تمام یونیورسٹیوں میں آئس نامی نشے کے استعمال کی شروعات ہو چکی ہیں۔ یہ ایک مہنگا نشہ ہے اور بچے اس شوق کو پورا کرنے کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے تمام تر کوششوں کے باوجود اس بلا پر قابو پانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ہمارے ملک میں یہ لعنت افغانستان سے آئی جب وہاں روس نے حملہ کیا۔ شروع میں شاید ارباب اختیار کو اس کی سنگینی کا اندازہ نہ تھا اور جب ادراک ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔شہروں میں پلوں کے نیچے۔ ریل کی پٹری کے پاس اور پسماندہ علاقوں میں غلیظ لباس میں نہایت گندے اور بدبودار لوگ لائن میں بیٹھے ایک دوسرے کو ایک ہی سرنج سے انجکشن لگاتے یا گروپ کی صورت میں ہیروئن کا سفوف سونگتے ہوئے نظر آئیں گے۔
منشیات کے عادی افراد کو چند روپوں کی بھیک کے لیے گڑگڑاتے دیکھ کر، گٹرکے ڈھکن چراتے یا تانبے کی تلاش میں بجلی کی تاریں کاٹتے ہوئے کرنٹ لگنے سے ہلاک ہونے کی خبر سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے اور ساتھ ساتھ شدید بے بسی کا بھی احساس ہوتا ہے۔ اگر کوئی نشئی چوری کرتے ہوئے پکڑا جائے تو پولیس جان چھڑانے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ نشہ نہ ملنے پر یہ لوگ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔
حال ہی میں اسلام آباد میں ایک امیر زادے نے ایک نہتی لڑکی کو برباد کرنے کے بعد بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ معلوم ہوا یہ صاحب بھی مختلف نشوں کا غلام ہے۔ دورانِ پولیس سروس میرے پاس ایسے کئی مقدمات آئے جن میں بےگناہ لڑکیوں کو نشہ آور چیزیں کھلائی یا پلائی گئیں اور پھر ان کی ویڈیو بنا کر انہیں سالہا سال تک بلیک میل کیا گیا۔کل ہی اخبار میں خبر پڑھی کہ امریکہ جہاں قانون کی گرفت بہت سخت ہے وہاں 20 ڈاکٹرز اور ان کا عملہ Pain Management کی آڑ میں اپنے مریضوں کو نشہ آور ادویہ غیر قانونی طور پر استعمال کروا رہے تھے۔ اس مذموم کاروبار میں 6 پاکستانی ڈاکٹر بھی شامل تھے۔ ان تمام ڈاکٹر صاحبان کا لائسنس منسوخ ہو چکا ہے اور وہ قید کی سزا بھی بھگتیں گے۔
نشے کی عادت میں مبتلا افراد کو عموماًناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر درحقیقت حقارت کے مستحق وہ لوگ ہیں جو انہیں نشہ کی عادت میں مبتلا کرتے ہیں۔ اس فہرست میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو ہیروئن، چرس، کوکین اور آئس وغیرہ کی فراہمی میں سہولت کار ہیں۔ اس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کےوہ افسر و ملازمین بھی شامل ہیں جو دورانِ اسمگلنگ جان بوجھ کر اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں یا اسمگلروں کی پشت پناہی کرتے ہیں اور وہ اربابِ اختیار بھی جو اس قسم کے جرم میں ملوث افراد کو سزا دینے یا دلوانے میں ناکام رہتے ہیں۔کون نہیں جانتا کہ ہمارے ملک میں اور بین الاقوامی سطح پر منشیات کی اسمگلنگ اور خریدوفروخت ہو رہی ہے۔ آپ نے کبھی کبھار ہی کسی اسمگلر کے پکڑے جانے کی خبر سنی ہو گی۔ لیکن شاید ہی کسی بڑے اسمگلر یا مافیا کو سزا ہوتے سنی ہو۔
یہ لوگ بھول رہے ہیں کہ جس کشتی میں سوراخ کر رہے ہیں اس میں خود بھی سوار ہیں اور یہ کشتی اگرڈوبی تو نہ صرف یہ خود بلکہ ان کی اپنی اولاد بھی اس میں ڈوبے گی۔ ہاں دوسری طرف ایسے نیک اور فرض شناس لوگ بھی ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ کشتی کو ڈبونے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن وہ اللہ پر بھروسہ کر کے ڈول کی مدد سے مسلسل پانی باہر نکال نکال کر پھینک رہے ہیں اور پرامید ہیں کہ وہ اس کشتی کو ڈوبنے نہیں دیں گے کیونکہ اس میں ہم سب کا مستقبل وابستہ ہے۔
ملت کے ساتھ یہ واسطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
ایک تحقیق کے مطابق 2015 میں دنیا بھر میں منشیات کے استعمال سے تقریباً تین لاکھ افراد موت کی نیند سو گئے۔ کوکین کی پیداوار میں کولمبیا سرفہرست ہے اور یہاں منشیات کا مافیا اتنا مضبوط ہے کہ حکومتوں کو تبدیل کروا دیتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ امریکہ اور یورپین ممالک کی بہت سی ایجنسیاں اس سلسلہ میں گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہیں جن میں انٹرنیشنل نارکوٹکس لاانفورسمنٹ ایجنسی، UNODC اور بیورو آف انٹرنیشنل نارکوٹکس اینڈ لاانفورسمنٹ افیئرز کا کردار قابلِ ستائش ہے. ہمارے ہاں منشیات کے اڈوں کی سرکوبی کے ساتھ نشہ کے علاج کے مراکز کو بھی ریگولیٹ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ہم آئندہ آنے والی نسلوں کو ہم صاف ستھرا ماحول دینے میں کامیاب ہو سکیں۔
(مصنف وفاقی سیکرٹری وزارتِ سدِّ بابِ منشیات، پاکستان ہیں)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)