اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف پی ایف یو جے سمیت دیگر کی درخواستیں منظور کرلیں، پیکا ترمیمی آرڈیننس 2022 ء کالعدم قرار دے دیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا، چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ عدالت کے سامنے ایس او پیز رکھے اور ان کو ہی پامال بھی کیا گیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے 4 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ پیکا آرڈیننس کے تحت ہونے والی تمام کارروائیاں کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
عدالت نے فیصلے میں ریمارکس دیئے کہ کوئی شک نہیں کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس غیر قانونی ہے اور اسے ختم کیا جاتا ہے،آرٹیکل 19 شہریوں کو حق آزادی اظہار رائے دیتا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس آرٹیکل 9،14 ،19 اور 19 اے کی خلاف ورزی ہے،پیکاترمیمی آرڈیننس کا جاری کرنا غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی ایک بنیادی حق ہے، اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کا حق ترقی و خوشحالی کیلئے ضروری ہے۔
ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ اظہار رائےکی آزادی اور معلومات تک رسائی کےحق کو دبانا غیر آئینی اور جمہوری اقدار کے منافی ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس کا نفاذ غیر آئینی ہے اس لیے کالعدم قرار دیا جاتا ہے، حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہتک عزت کے قوانین کا جائزہ لے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ توقع ہےحکومت ہتک عزت آرڈیننس مؤثر بنانے کیلئے مناسب قانون سازی کی تجویز دے گی۔
ہائیکورٹ نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے اہلکاروں کے طرز عمل کی تحقیقات کرے، اختیارات کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہوا جس سے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔
فیصلے کے تحت ہتک عزت کو قابل دست اندازی جرم بنانے والی پیکا شق 20 بھی کالعدم ہوگئی ہے، ایف آئی اے کی جانب سے پیکا سیکشن 20 کے تحت درج مقدمات بھی خارج ہوگئے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس سے متاثرہ افراد متعلقہ فورم سے رجوع کرسکتے ہیں۔
اس سے قبل آج پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر چیف جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کی ۔
چیف جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ محسن بیگ کیس میں آپ نے ایس او پیز کی پامالی کی اور وہ سیکشن لگائے جو لگتے ہی نہیں، وہ سیکشن بھی صرف اس لیےلگائے گئے تاکہ عدالت سے بچا جاسکے، یہ بتا دیں کہ کیسے اس سب سے بچا جاسکتا ہے؟آپ نے کسی عام آدمی کیلئے ایکشن لیا؟
ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے عدالت کو بتایا کہ قانون بنا ہوا ہے، اس پر عملدر آمد کرنے کیلئے پریشر آتا ہے، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ نے کسی عام آدمی کیلئے ایکشن لیا؟
چیف جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے کہاکہ لاہور میں ایف آئی آر درج ہوئی اور اسلام آباد میں چھاپہ مارا گیا،ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ ہم ایف آئی آر سے قبل بھی گرفتاری ڈال دیتے ہیں، پھر اس سے برآمدگی پر ایف آئی آر درج کرتے ہیں۔
عدالت نے سوال کیا کہ آپ کیسے گرفتار کرسکتے ہیں؟ کس قانون کے مطابق گرفتاری ڈال سکتے ہیں؟ آپ اپنے عمل پر شرمندہ تک نہیں اور دلائل دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صحافیوں کی نگرانی کی جارہی ہے، یہ ایف آئی اے کا کام ہے کیا؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ بلال غوری کے علاوہ باقی سب کی انکوائری مکمل ہوچکی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ بلال غوری نے وی لاگ کیا تھا اور کتاب کا حوالہ دیا تھا، کارروائی کیسے بنتی ہے؟
چیف جسٹس نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جسے بعد میں سنایا گیا، فیصلہ محفوظ کرتے وقت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ کسی کا تو احتساب ہونا ہے، کون ذمہ دار ہے؟ آج آرڈر کرنا ہے۔