• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سارا گاؤں اُن کے حُسنِ اخلاق، دریا دلی سے متاثر تھا

مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر

نوسر بازی اور دھوکا دہی کے مختلف واقعات ملک کے مختلف علاقوں میں شب و روز پیش آتے رہتے ہیں۔ بیش تر واقعات میں فراڈیے اپنی چرب زبانی سے یا بھیس بدل کر لوگوں کو بے وقوف بناتے اور لاکھوں روپے لُوٹ کر فرار ہوجاتے ہیں۔ 25سال قبل خوشاب شہر کے قریب ایک گائوں میں پیش آنے والا یہ واقعہ بھی اپنی نوعیت کا ایک ایسا ہی واقعہ ہے، جس میں ایک شخص نے مذہب کا لبادہ اوڑھ کے غریب، سادہ لوح دیہاتیوں کو اُن کی جمع پونجی سے محروم کردیا۔

بنیادی سہولتوں سے محروم اُس غربت زدہ گائوں میں ایک روز ایک باریش، نورانی چہرے والے بزرگ اپنی بڑی سی گاڑی میں آئے اور مسجد کے قریب اُتر کر طائرانہ نظروں سے گائوں کا جائزہ لینے لگے۔ اُسی وقت عصر کی اذان کی صدا بلند ہوئی، تو وہ گاڑی ایک طرف کھڑی کرکے نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں داخل ہوگئے۔ پھرنماز کے بعد وہاں موجود نمازیوں سے افسوس ناک لہجے میں کہنے لگے۔ ’’آپ لوگ مسجد پر توجّہ کیوں نہیں دیتے، یہ اتنی خستہ حال ہورہی ہے۔‘‘ جواباً لوگوں نے بتایا کہ گائوں میں سب ہی غریب ہیں، چندہ وغیرہ دینے کی سکت نہیں رکھتے۔ بزرگ نے تاسّف سے مسجد کے درو دیوار کو دیکھتے ہوئے سوال کیا کہ ’’اس کے رنگ و روغن پر کتنا خرچ آجائے گا۔‘‘ وہاں موجود ایک شخص نے اندازاً پانچ چھے ہزار روپے کا خرچ بتایا، تو انہوں نے فوراً ہی اپنی جیب سے 6؍ہزار روپے نکال کر اُنھیں دیے اور اگلے ماہ پھر آنے کا کہہ کر چلے گئے۔

اگلے ماہ حسبِ وعدہ وہ آگئے اور نماز ادا کرنے کے بعد بیت الخلا سے متعلق دریافت کیا، تو لوگوں نے جواب دیا، مسجد میں کوئی بیت الخلا نہیں ہے۔ یہ سُن کر انھوں نے ایک بار پھر افسوس کا اظہار کیا اور اپنی جیب سے بارہ ہزار روپے نکال کر دیتے ہوئے ہدایت کی کہ اس رقم سے مسجد کے احاطے میں دو لیٹرین بنوادیں۔ گائوں کے سیدھے سادے لوگ اس باریش شخص کی دریا دلی اور نیکی کے جذبے سے کافی متاثر ہوچکے تھے۔ 

اُس سے اگلے ماہ وہ پھر آئے، تو گائوں کے لوگوں نے ان کا خصوصی شکریہ ادا کیا اوربڑی عقیدت سے اُن کے کام اور کاروبار سے متعلق پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ’’ میرا کراچی میں دفتر ہے، مَیں لوگوں کو بیرونِ ملک بھجواتا ہوں اور کام پر بھی لگواتا ہوں۔‘‘ مسجد کے پیش امام بھی اپنے بیٹے کے ساتھ وہیں موجود تھے، انھوں نے جب یہ سُنا تو فوراً اپنے بیٹے کی بیرونِ مُلک نوکری کی بات کی اور منّت کرنے لگے کہ میرے بیٹے کو بھی باہر بھجوادیں۔ بہرحال، بزرگ اُن کے بیٹے کو باہر بھیجنے کا وعدہ کرکے چلے گئے۔ دو ہفتے بعد امام صاحب کے بیٹے کو انہوں نے کراچی بلوالیا اور پھر ایک ماہ بعدہی امام صاحب کے بیٹے نے والد صاحب کے نام پچاس ہزار روپے کا چیک بھیج دیا۔

چند ماہ بعد وہ بزرگ آئے، تو گائوں کا ہر فرد اُن سے ملنے کو بے تاب تھا۔ اُن کے مسجد میں داخل ہوتے ہی گائوں کے بہت سے لوگ وہاں پہنچ گئے، ہر شخص اپنے بچّوں کو باہر بھجوانے کے لیے اُن کی منّت سماجت کرنے لگا۔ اس پر انھوں نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’دیکھیں! ایک نوجوان کو تو میں نے اپنے خرچ پر بھجوادیا، جو پچاس ہزار روپے ماہانہ گھر بھیجتا ہے، لیکن اب اگر آپ لوگ اپنے بچّوں کو باہر بھیجنا چاہتے ہیں، تو فی کس دو لاکھ روپے میرے پاس جمع کروادیں، جس میں پاسپورٹ، ویزا، جہاز کا کرایہ اور کمپنی کے دیگراخراجات شامل ہیں۔‘‘ 

سادہ، مفلوک الحال، غریب دیہاتیوں نے سوچا کہ جس طرح امام صاحب کا بیٹاہر ماہ 50؍ہزار روپےگھر بھجوا رہا ہے، اسی طرح اُن کا بچّہ بھی اتنی ہی رقم بھیجے گا تو چند مہینوں ہی میں 2؍لاکھ کی پوری رقم واپس آجائے گی۔ بس پھر کیا تھا، اس لالچ میں کسی نے زیورات، کسی نے زمین، کسی نے مال مویشی بیچے۔ کسی نے دوست، احباب اور رشتے داروں سے قرض لیا اور اس طرح کُل 50؍افرادنے فی کس 2؍لاکھ روپے اس شخص کے حوالے کردیے۔ وہ چوں کہ گائوں والوں پر اپنا اعتماد قائم کرچکا تھا، لہٰذا کسی نے بھی اس پر رتّی بھر شک نہیں کیا۔

یوں اس نے ایک کروڑ روپےکی خطیر رقم اکٹھی کی اور بڑے آرام سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر کراچی روانہ ہوگیا۔ چند دن بعد مولوی صاحب کا بیٹا بھی گائوں واپس آگیا۔ اس نے واپسی پر یہ حیران کن انکشاف کیا کہ ’’اُس شخص نے مجھے بیرون ملک نہیں بھجوایا تھا، بلکہ کراچی ہی کے کسی مقام پر رکھا ہوا تھا۔ اب اس کے گھر اور دفتر کو تالا لگا ہوا ہے۔‘‘ سادہ لوح، غریب دیہاتی یہ سن کر صدمے سے بے حال ہوگئے کہ ان کی جمع پونجی، زندگی بھر کی کمائی اس طرح لٹ جانے پر ان کے قدموں سے تو زمین ہی سرک گئی۔ جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ وہ نو سرباز شخص اتنی بڑی رقم اکٹھی کرکے بیرون ملک فرار ہوگیا ہے، تو تمام گائوں والوں نے اس دھوکے باز کو بہت برابھلا کہا اور آئندہ کے لیے عہد کیا کہ اس طرح کسی فراڈیے اور نوسرباز کے دامِ فریب میں نہیں آئیں گے۔ (اطہر انجم تبسّم،جی پی او، خوشاب)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔