• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد جو منظر نامہ سامنے آیا اور آئینی بحران پیدا ہوا، اس کا چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے بلا تاخیر نوٹس لیتے ہوئے مسلسل چار روز کی سماعت میں فریقین کے دلائل سنے اور متفقہ تاریخی فیصلہ جاری کرتے ہوئے نہ صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار دے کر کالعدم کر دیا بلکہ قومی اسمبلی کو اس کی پوزیشن پر بحال کرتے ہوئے اسپیکر کو وزیراعظم عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر 9اپریل کو (آج) ووٹنگ کرانے کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا حکم دیا ہے۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کی 3؍اپریل کی رولنگ اور وزیراعظم کی سفارش پر صدر عارف علوی کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا عمل آئین و قانون سے متصادم اور کسی بھی قانونی حیثیت کے بغیر تھا۔ فاضل عدالت نے وزیراعظم کی اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس کو بھی کالعدم قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کو تین اپریل کے اجلاس سے پہلے کی پوزیشن پر بحال کر دیا۔ عدالتِ عظمیٰ کے حکم کے مطابق آج بروز ہفتہ صبح دس بجے قومی اسمبلی کا اجلاس ہو گا جس میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی مشترکہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو گی اور اس کے کامیاب ہونے کی صورت میں فوری طور پر نئے وزیراعظم کا انتخاب ہو گا اور اگر ناکام ہوئی تو یہی حکومت اپنے اموربدستور انجام دیتی رہے گی۔ متحدہ اپوزیشن نے اس تاریخ ساز فیصلے کو نہ اپنی اور نہ حکومتی بلکہ آئین کی فتح قرار دیا ہے۔ آئینی و قانونی ماہرین کے مطابق اس مستحسن فیصلے میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کا احترام اوراک بار پھر سے سر اٹھانے والا نظریہ ضرورت دفن ہو گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں حکومت کوبہر صورت تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اپنی ناکامی کی صورت میں اس کے ارکان کو اپوزیشن بنچوں پربیٹھ جانا چاہیے۔ متعدد آئینی معاملات جو التوا میں پڑے ہیں ان پر توجہ کی ضرورت ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن، کسی کو بھی ہار جیت کو اپنایا اپنی جماعت کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ یہ سارا عمل آئین، پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بالادستی سے مشروط ہے کیونکہ صرف حکومت میں بیٹھ کر ہی ملک و قوم کی خدمت نہیں کی جاتی اس عمل میں اپوزیشن کی بھی اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی حکومت کی۔ اس وقت دنیا کی نظریں پاکستان کے حالات پر مرکوز ہیں اور عالمی منظرنامہ میں سیاسی، اقتصادی جغرافیائی طور پر ان کے لئے یہ ملک انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بدقسمتی سے 74برس سے جاری سیاسی عدم استحکام کے باعث اسے اقتصادی طور پر جو نقصان ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ متحدہ اپوزیشن جس نے جمہوریت اور آئین کی پاسداری کی خاطریہ قانونی جنگ جیتی ملک کا مستقبل اب اس کے اور حزب مخالف دونوں کے ہاتھ میں ہے اور سردست سب سے بڑا چیلنج مہنگائی سے نمٹنا ہے۔ ڈالرکی قیمت کاایک ہی دن میں تین روپے بڑھ کر 190روپے کی سطح پر پہنچ جانا اور تحریک عدم اعتماد کے اس ایک ماہ میں 40کروڑ ڈالر سے زائد سرمایے کا ملک سے جانا تشویشناک ہے۔ اقتصادی ماہرین کے اندازے کے مطابق ملک کی پائیدار معاشی ترقی کیلئے ہر سال 6.4ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی ضرورت ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن سب کا مقصد یہی ہونا چاہیے کہ موجودہ معاشی و سیاسی ڈیڈ لاک ختم ہو اور حالات ہر لحاظ سے معمول پر آئیں کہ یہی اصل چیلنج ہے۔

تازہ ترین