• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کپتان عمران خان خاصی پُراسرار سی شخصیت ہیں اور اُن کی زندگی دلچسپ اتفاقات سے بھرپور نظر آتی ہے۔ 22سال کی طویل ریاضت کے بعد ان کی جماعت کو پاکستان بدلنے کا موقع میسر آیا، اُنہوں نے اپنی سی کوشش ضرور کی، اس وقت بھی اُن کے بہت سارے منصوبے پاکستان کی ترقی کے تناظر میں اپنی اہمیت اور حیثیت منواتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک زمانے میں امریکہ پاکستان کا حلیف اور عمران خان سے متاثر تھا، اُن کی تعلیم و تربیت اور سوچ امریکہ کے لیے خاصی قابلِ قبول تھی اور اُس کا خیال تھا کہ عمران خان امریکہ کی اہمیت کو جانتا ہے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے عمران خان کو مدعو کیا اور عزت بھی دی، ٹرمپ امریکی افواج کے کردار سے مطمئن نہ تھا اور امریکی افواج کی پُرامن مداخلت سے ٹرمپ کو شکست ہوئی اور امریکی افواج عمران خان کے نظریات کی ناقد بنیں، کپتان عمران خان ان کو قبول نہ تھا اور اسی وجہ سے امریکہ نے پاکستان کو نظرانداز بھی کیا۔

عمران خان آج کل جو الزامات پاکستان کے پرانے رفیق امریکہ پر لگا رہے ہیں، اُس میں کتنی حقیقت ہے؟ اس کا صرف اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان امریکہ سے کب مایوس ہوا؟ یہ کہانی بھی خاصی عجیب ہے۔ ملائیشیا کے مہاتیر محمد عمران خان کی طرح کے سیاسی کھلاڑی تھے، ان کی پارٹی میں بھی بغاوت ہوئی تھی، انہوں نے ملائیشیا کی ترقی کے لیے خوب کام کیا، عمران خان اُن کے تجربے اور شخصیت سے متاثر تھے، عمران خان نے مہاتیر محمد کو ایک اسلامی بلاک بنانے کے لیے اپنا ہم خیال بنا لیا تھا اور اس سلسلے میں اسلامی ملکوں کو دسمبر 2019میں کوالالمپور میں مدعو کر لیا تھا، دسمبر کے وسط میں ایک اور امیر ترین عرب ملک نے عمران خان کو طلب کیا اور احسانات جتانے کے بعد اس اسلامی کانفرنس سے دور رہنے کا حکم دیا۔ ہماری طاقتور انتظامیہ نے بھی عمران خان کو ایسا ہی مشورہ دیا اور عمران خان نے مہاتیر محمد سے معذرت کرلی مگر اندر کی بات، ہمارے دوست ترکی کے ایک اہم شخص نے بیان کر دی۔

اِس بات پر عمران خان کو بہت ہی شرمندگی اور ملال تھا مگر وہ مجبور تھے۔ انہوں نے ملک کے اہم اداروں کو اپنا شک بتایا اور درخواست کی کہ معلوم کیا جائے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس حوالے سے سفارتی ذرائع بھی استعمال کیے گئے پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک بھارتی لابی امریکہ میں پاکستان کی سیاست پر تحقیق کرتی رہی ہے پھر ہمارے کچھ اہم سیاسی لوگ بھارتی لابی کے لوگوں سے ملتے بھی رہے ہیں۔ دوسری طرف مہاتیر محمد نے کپتان عمران خان کو بتایا کہ اس کا سیاسی کردار بھی ختم کیا جا رہا ہے اور ملائیشیا کے بادشاہ نے مہاتیر محمد کو فارغ کر دیا ہے اور اس کے تانے بانے بھی امریکی دوستوں کی طرف جاتے نظر آئے۔ اب عمران خان کو یقین ہو گیا کہ امریکی صدر جوبائیڈین ان کو نظر انداز کر رہا ہے۔ ہماری عسکری انتظامیہ کا خیال تھا کہ امریکہ کو پاکستان کی اہمیت کا احساس دلایا جا سکتا ہے۔ اُن حلقوں کا خیال تھا کہ امریکی دوستوں کو زیادہ ناراض کرنا مناسب نہیں، اس صورتحال میں دفتر خارجہ سے مشاورت جاری رہی اور چین اور روس کے ساتھ سفارتی مشاورت میں اضافہ ہوا اور یوں روس نے پاکستان کے وزیراعظم کو دورے کی دعوت دی۔ پاکستان کے اداروں کو بھی روس اور چین کی اہمیت کا اندازہ تھا اس لیے سب کی مشاورت کے بعد روس کا دورے ترتیب دیا گیا۔ اس دورہ کے بعد امریکی انتظامیہ، جو پاکستان کے ساتھ تعلقات پر نظر رکھتی ہے، نے واضح طور پر ناراضی کا اظہار بھی کیا۔ دوسری طرف پاکستان میں اپوزیشن کے لوگوں کے ساتھ مختلف یورپی ممالک کے سفارتکاروں کے ساتھ تعلقات میں اضافہ بھی نظر آیا اور عمران خان کو ناکام کرنے کے لیے سیاسی حلقوں نے منصوبہ بندی بھی کی اور اسمبلی میں ایسی کیفیت رہی کہ عمران خان عوام کے لیے کچھ بھی نہ کر سکا۔

امریکی مہربانوں نے پاکستان کی حزبِ اختلاف کی اہم شخصیات کو یقین دہانی کرا دی کہ وہ بھی عمران خان کو کوئی اہمیت نہیں دیتے پھر عدم اعتماد کے لیے کارروائی کا آغاز ہوا۔ عمران خان کو اندازہ نہیں تھا کہ سب اُن کے خلاف کیوں ہو گئے ہیں؟ اُنہوں نے طاقتور حلقوں سے مشاورت کی، جہاں سے عمران خان کو جمہوریت کا درس اور یہ رائے دی گئی کہ آپ حزبِ اختلاف میں بیٹھ کر مقابلہ جاری رکھیں۔ عمران خان مگر مایوس نہیں ہوئے، اُنہوں نے اپنے روحانی دوستوں سے مشورہ کیا اور مقابلہ کرنے کی ٹھان لی کیونکہ اُن کے پاس کھونے کو کچھ نہ تھا۔ اُنہوں نے اپنے پتوں کا جائزہ لیا اور ترپ کے پتے پر وظیفے کا ورد کیا اور میدان میں اُتر گئے، اُن کو بڑی عدالت کے فیصلے کا کوئی غم نہیں، اُنہیں بس اگلے الیکشن کا انتظار ہے، وہ امریکہ کو ایک مات دے چکے ہیں۔

تازہ ترین