سراج الحق
(امیر جماعت اسلامی، پاکستان )
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صوبہ سندھ، وادی مہران کو یہ فخر حاصل ہے کہ سب سے پہلے اسلام کی آمد یہاں پر ہوئی اور اسلام کی نورانی کرنیں یہاں سے برصغیر کے مختلف علاقوں میں پھیل گئیں، اسی لئے صوبہ سندھ کو بجا طور ’’باب الاسلام‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس خطے میں اسلام کی آمد 10 رمضان المبارک 93 ہجری بمطابق 16 جون 711 ء سے پہلے سندھ کی جغرافیائی حدود موجودہ پاکستان کے بیشتر علاقوں پر مشتمل تھیں۔ اسلام کی آمد سے پہلے سندھ میں بدھ مت اور ہندومت کا راج تھا۔ لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ شرک و گمراہی عام تھی۔
اگرچہ یہ بات اپنی جگہ مسلّم ہے کہ محمد بن قاسمؒ کے حملے سے پہلے اسلام اس خطے میں مسلمان مبلغین، تاجروں اور سیاحوں کے ذریعے پہنچ چکا تھا۔مکران جو اس زمانے میں سندھ سے متصل ملک تھا، وہاں اسلامی حکومت کی جانب سے والی مقرر کئے جاتے تھے، لیکن عامۃ الناس میں اسلام کی مقبولیت فتح سندھ کے بعد ہوئی اور لوگوں نے جوق درجوق اسلام قبول کیا۔
اس طرح ایک روایت کے مطابق جنوبی ہند میں ’’ملابار‘‘ کو اسلام کا پہلا مرکز قراردیا جا سکتا ہے۔جہاں شق القمر کا معجزہ، ملابار کے’’زمورن‘‘ نامی راجا نے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا اور اس واقعے کا اندر اج روزنامچے کے سرکاری رجسٹر میں کروایا تھا۔ اسے عرب سے آئے ہوئے لوگوں سے معلوم ہوا کہ عرب میں ایک رسول مبعوث ہوئے ہیں، جنہوں نے یہ معجزہ دکھایا ہے تو راجا نے فوراً اسلام قبول کرلیا اور تخت سلطنت اپنے ولی عہد کے سپرد کرکے کشتی میں سوار ہوکر، حضور ﷺ کی زیارت کی خاطر روانہ ہوا ،لیکن راستے ہی میں وفات پائی اور یمن کے ساحل پر مدفون ہوا۔
سندھ کی فتح نبی کریم ﷺ کی د عائے طائف کا پھل تھا۔ رسول اکرم ﷺ کو جب طائف کے سرداروں نے جھٹلایا، ہر طرح سے ذہنی و جسمانی اذیت سے دوچار کیا، جسم اطہر زخموں سے لہولہان کروادیاتو‘اس موقع پر جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کی: آپ ﷺ کی قوم نے آپ ﷺسے جو بات کہی، اللہ نے اسے سن لیا ہے۔
اب اس نے آپ ﷺ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے، تاکہ آپﷺ ان کے بارے میں اسے جو حکم چاہیں دیں۔ اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے آواز دی اور سلام کرنے کے بعد کہا: اے محمدﷺ اب آپ ﷺ جو پسند فرمائیں ،حکم دیں۔ اگر چاہیں کہ میں انہیں دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں ۔تو ایسا ہی ہوگا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی ۔" (صحیح بخاری)
محمد بن قاسمؒ اسی بنی ثقیف قبیلے کا چشم و چراغ تھا۔ اس طرح سندھ میں اسلام کی آمد آنحضور ﷺ کی دعائے طائف کا اثر ہے۔ سندھ پر اسلامی حکومت کی جانب سے فوج کشی کے 5 بڑے اسباب تھے:
(1) 12 ہجری میں خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایرانی فوج سے جنگ ہوئی۔ حضرت خالد بن ولید ؓ مسلمان فوج کے سپہ سالار تھے۔ اس جنگ میں سندھ کی فوج نے ایرانیوں کا ساتھ دیا۔ "سندھی جاٹ" جنگجو تھے اور اپنے پاؤں میں زنجیر باندھ کر لڑتے تھے، تاکہ ان میں سے کوئی میدانِ جنگ سے بھاگ نہ سکے۔ چنانچہ اس وجہ سے اس جنگ کا نام "جنگ ذات السلاسل" یعنی زنجیروں والی لڑائی پڑ گیا۔
(2) جنگ قادسیہ: جنگ ذات السلاسل کے دو برس بعد 14ہجری میں جنگ قادسیہ ہوئی۔ ایران کے بادشاہ یزدگرد نے بھرپور تیاری کی، سندھ کے راجا نے ایرانیوں کی مدد کی۔ انہیں فوجی دستے بھیجے اور جس قدر جنگی ہاتھی بھیج سکتا تھا، اس نے روانہ کئے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان سندھ کے راجا کے ہاتھیوں نے پہنچایا۔ اس جنگ میں مسلمانوں نے ہاتھیوں کو بھگادیا۔ ایرانی فوج کا سپہ سالار رستم مارا گیا۔
(3) خلیفہ ٔدوم حضرت عمر فاروقؓ کے زمانۂ خلافت میں اسلامی حکومت مکران تک پھیل چکی تھی، جس وقت مسلمانوں نے مکران فتح کیا تو سندھ کے فوجی بھی ایرانیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑے تھے۔ جس کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اس طرح سندھ کی برہمن حکومت نے اسلامی حکومت کے دشمنوں کی مدد کی۔
(4) سن 78 ہجری میں سعید بن اسلم بن زرعہ کلابی کو مکران کا والی بنا کر بھیجا گیا۔ عرب سردار محمد بن حارث علافی نے اس کے خلاف بغاوت کی اور اسے قتل کردیا۔ اسلامی حکومت سے بغاوت کرنے والے تمام علافی سندھ آ گئے۔ جہاں کے راجہ داہر نے نہ صرف انہیں پناہ دی بلکہ عزت و اکرام سے نوازا، اور محمد علافی کو اپنے مقربین میں شامل کرلیا۔ اس طرح اس نے اسلامی حکومت کے ایک باغی گروہ کی سرپرستی کی۔ان وجوہات کی بناء پر سندھ کے حکمرانوں سے اسلامی حکومت کے تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی۔
(5) اموی خلیفہ، ولید بن عبدالملک کے عہد میں ایک بحری جہاز جس میں مسلمان خواتین اور یتیم بچے سوار تھے، جب یہ سندھ کی مشہور بندرگاہ دیبل کے قریب پہنچا تو سندھ کے قزاقوں نے اسے لوٹ لیا اور خواتین و بچوں کو قیدی بنا لیا۔ ان قیدیوں میں سے ایک عورت بے اختیار پکار اٹھی کہ "یا حجاج اغثنی" "اے حجاج میری فریاد کو پہنچو" جب اس کی خبر عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کو ہوئی تو وہ پکار اٹھا "لبیک لبیک" ، "ہاں میں آیا" ۔اس واقعے کے بعد عراق کے والی حجاج بن یوسف نے سندھ کے راجا داہر کو خط لکھا اور مطالبہ کیا کہ ہماری جو مسلم خواتین بہنیں اوران کے یتیم بچے قید کئے گئے ہیں اور انہیں لُوٹا گیا ہے، انہیں باعزت طریقے سے واپس کیا جائے اور مال و اسباب کا جو کچھ نقصان ہوا ہے اس کا تاوان ادا کیا جائے۔راجہ داہر نے اس خط کا جواب نہایت تکبر، بے پروائی اور فریب سے دیا اور لکھا کہ"یہ کام ڈاکوؤں کا ہے، جن پر ہمارا بس نہیں چلتا"۔حجاج نے مظلوم عورتوں اور یتیم بچوں کی باعزت واپسی کے سلسلے میں تمام سفارتی امور میں ناکامی اور سندھ کے راجا داہر کی مملکت اسلامیہ کے ساتھ سابقہ عداوتوں کی بنیاد پر سندھ پر بھرپور حملے کا فیصلہ کرلیا۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں فرمایا: ترجمہ: آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکردبا لئے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر۔
حجاج نے اس مظلوم اور بے بس عورت کی فریاد پر لبیک کہا اور اپنے چچازاد بھائی عماد الدین محمد بن قاسم کو محاذ سندھ کی سپہ سالاری کے لئے منتخب کیا۔ محمد بن قاسم طائف کے بنی ثقیف قبیلے میں سن 75 ہجری میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک بہادر، دلیر، جنگی امور کے ماہر نوجوان تھے۔
غازی محمد بن قاسم بحری بیڑے کے ساتھ سندھ کی بندرگاہ اور تجارتی شہر (موجودہ ٹھٹھہ اور کراچی کے درمیان کسی مقام پر واقع تھا) کو فتح کیا۔ اس کے بعد نیرون کوٹ (موجودہ حیدرآباد)۔ سیوستان (موجودہ سیہون)، برہمن آباد (موجودہ شہدادپور) کے قریب راجہ داہر کے بھائی کو شکست دی اور آخر میں روہڑی کے قریب اروڑ کے مقام پر راجا داہر سے آخری معرکہ برپا ہوا، جس میں راجہ داہر مارا گیا، اسلامی لشکر کو اللہ تعالیٰ نے فتح نصیب کی ، سندھ پر صدیوں سے چھائے کفر و شرک کے کالے بادل چھٹ گئے اور اسلام کا ابر رحمت برسنا شروع ہوگیا۔
برہمن حکومت کا خاتمہ ہوا۔ سندھ باب الاسلام بنا اور یہاں سے اسلام برصغیر کے مختلف ممالک میں پہنچا۔سندھ کے عظیم صوفی شاعر، شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒنے اپنی شاعری میں ایک جگہ کہا ہے، شعر کا ترجمہ کچھ یوں ہے:"ہر طرف زمین پر برائی ہی برائی تھی، آنحضور ﷺ تشریف لائے اور پوری زمین کو روشنی اور رحمت سے بھر دیا، ان کے آنے سے عورتوں کونئی زندگی ملی۔"
اروڑ کی فتح کے بعد، غازی محمد بن قاسمؒ نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اور سندھ کے مشرقی کنارے اُچ اور ملتان تک کو فتح کیا۔اسلام کی آمد سے پہلے یہاں برہمن راج تھا۔چہارسو ظلم و ستم پھیلا ہوا تھا۔ بدامنی عام تھی۔ڈاکو راج کرتے تھے۔ عام انسان بنیادی حقوق سے محروم تھے۔ جبکہ صرف برہمنوں کو تمام حقوق حاصل تھے۔ غازی محمد بن قاسمؒ نے سندھ کو امن دیا، خوشحالی دی، لوگوں کی جان و مال کو محفوظ بنایا، تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذاہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی دی۔مفتوحہ علاقوں میں فتح کے بعد وہاں کی تمام عبادت گاہیں مندر وغیرہ قائم رکھے۔
لوگوں میں رواداری کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ دورانِ جنگ کسی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔بت خانوں کے پنڈتوں کو اخراجات پورا کرنے کے لئے جاگیریں عنایت کیں۔اسی لئے جب محمد بن قاسم واپس جارہے تھے تو صدیوں سے محروم و مجبور اور ظلم و جبر میں پسے ہوئے سندھ کے عوام رورو کر فریادیں کررہے تھے کہ آپ ہمیں چھوڑ کر نہ جائیں،اس لئے محمد بن قاسم ؒکو جارح ،غاصب یا لٹیرا کہنے والوں کو ایک بار پھر تاریخ کوپڑھنا چاہئے۔
محمد بن قاسمؒ نے بڑے بڑے شہروں دیبل، نیرون کوٹ، سیوستان، برہمن آباد، اروڑ، ملتان، دیپالپور اور قنوچ وغیرہ میں بڑی بڑی مساجد تعمیر کروائیں۔غازی محمد بن قاسم کے حسنِ سلوک، منصفانہ طرزِ عمل اور رواداری کو دیکھ کر کئی پنڈت مسلمان ہوگئے۔ دیبل کے پنڈت کا نام ہی "مولانا اسلامی" رکھا گیا۔
سندھ میں اسلام کی آمد کے بعد یہ سر زمین اسلامی علوم کی اشاعت کا مرکز بن گئی۔سینکڑوں محدثین اور علماء پیدا ہوئے جنہوں نے عالمِ عرب میں جاکر قرآن و حدیث کی اشاعت میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ سن 270 ہجری بمطابق 883 ؑ میں قرآن پاک کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا گیا جو کہ کسی بھی عجمی زبان کا پہلا ترجمہ شمار کیاجاتا ہے۔ سندھ کے معروف عالم دین غلام مصطفی قاسمی کی رائے میں "قرآن پاک کا یہ ترجمہ ایک عراقی عالم نے کیا تھا جو سندھ میں آکر مقیم ہوئے تھے"۔
سندھ کی فتح اوریہاں اسلام کی روشنی سے اندھیرے چھٹ گئے تھے، اس روشنی کو مزید پھیلانے کے تقاضوں کو ہم پورا نہیں کرسکے ، محمد بن قاسم ؒ نے امیر و غریب، گورے اور کالے، وڈیرے اور ہاری کو جس طرح ایک صف میں کھڑا کیا ، مساوات اور برابری کا وہ سبق دوبارہ یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ جاہلانہ رسم و رواج کا خاتمہ ہو اور اسلام کے آفاقی پیغام کو عام کیا جائے تو ظلم وجبر کا خاتمہ ہوگا اور عام آدمی اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکے گا۔