ہائے ان کروڑوں عوام کی قسمت یارو، جن کی قسمت میں لکھی ہے ناداری میں اس موضوع پر کافی دنوں سے لکھنے کو سوچ رہا تھا خصوصاً دس سالہ مردم شماری کے التوا کے بعد لیکن مسلسل تین خبروں نے مجھے چونکا دیا پہلی خبر کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ پندرہ سولہ سال سے ناداروں کی رہائش کیلئے کوئی نئی بستی نہیں بنائی جبکہ ہر سال ان کی آبادی بڑھتی جارہی ہے، مردم شماری نہ ہونے سے رہائش نہ رکھنے والوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہوسکتا مگر اس وقت ان کی کم ازکم تعداد دو کروڑ کے لگ بھگ ہے اور یہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں دوسری سندھ کے وزیراعلیٰ کا یہ اعلان ہے کہ نادرن بائی پاس کے قریب مزدوروں کیلئے جو فلیٹس اور مکانات بنائے گئے تھے ان پر ناجائز قابضین نے قبضہ کررکھا ہے، وہ بہت جلد ان سے خالی کراکر مزدوروں کے حوالے کئے جائیں گے، تیسری خبر یہ ہے کہ پاکستان میں متعین سفیر نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان میں آفت زدگان کیلئے 5؍کروڑ ڈالرز سے مکان بنانے کا وعدہ کیا ہے، سعودیہ نے اس سے پہلے بھی مظفرآباد میں 3؍ہزار اور باغ میں 1400مکانات بنا کر مستحقین کے حوالے کئے تھے، پاکستان کے ابتدائی دور میں سعود آباد کی بستی بنائی تھی۔ قیام پاکستان سے قبل برصغیر میں مکانات کی قلت کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، شہروں کی آبادی بہت کم تھی، باشندوں کے قدیمی مکانات تھے معمولی سے کرائے پر مکان مل جاتے تھے، دیہات میں جاگیرداروں، زمینداروں، وڈیروں کی بڑی بڑی حویلیاں تھیں، ان میں ان کے خادموں اور مزاروں کے رہنے کی بھی گنجائش ہوتی تھی، پیشہ ور اپنے مکان خود بنا لیتے تھے، یہ زیادہ تر گارے اور مٹی کے ہوتے تھے اس لئے معمولی سی بارش میں ان کی چھتیں اور دیواریں گرجاتی تھیں اور مکین ہلاک یا زخمی ہوجاتے تھے یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، شہروں میں ٹیکسٹائل اور جوٹ کے کارخانے کھلنے کے بعد کارخانہ داروں، سرمایہ کاروں نے چھتیں بنائیں گھر ایک ایک کھولی (کمرے)کا کرایہ 50/40روپے ہوتا تھا مگر مزدور ایک کھولی میں ایک طرف چار اور دوسری طرف چار ایک کے اوپر پلنگ باندھ کر آٹھ آدمی ہوجاتے تھے دن کو رات والی ٹولی یہاں آرام کرتی تھی پون روپیہ، ڈیڑھ روپیہ اوسط آجاتا تھا۔غیر منقسم ہندوستان میں کلکتہ اور ممبئی دو ایسے شہر تھے جن کی آبادی دس لاکھ سے تجاوز تھی، پاکستان میں سب سے بڑا شہر لاہور تھا جس کی آبادی 6؍لاکھ 72؍ہزار اور دوسرا کراچی جس کی آبادی 3؍لاکھ 87؍ہزار تھی۔ راولپنڈی، پشاور، حیدرآباد، سرگودھا، سیال کوٹ پانچ ایسے شہر تھے جن کی آبادی ایک لاکھ سے تجاوز تھی، مشترکہ خاندانی رواج کے باعث کوئی نیا جوڑا علیحدہ رہائش تلاش نہیں کرتا تھا،قیام پاکستان کے بعد سب سے زیادہ کراچی کی آبادی بڑھی، نئی حکومت کا صدر مقام ہونے سے وہ تمام ملازمین جنہوں نے پاکستان پسند کیا تھا انہوں نے کراچی کا رخ کیا، مرکزی حکومت نے ایک طرف جہانگیر روڈ، ایسٹ اینڈ ویسٹ، کوارٹر، مارٹن روڈ کوارٹر اور گاندھی گارڈن پر فلیٹس اور دوسری طرف برطانوی فوجیوں کی خالی کردہ بیرکوں کو مکانات کی شکل دینا شروع کی اور یوں جیکب لائنز، ابی سینا لائنز، مارٹن لائنز وغیرہ وجود میں آئیں مگر مشکل پر قابو نہ پایا جاسکا۔ دیرسے آنے والے ملازمین کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے خاندان کو ساتھ نہ لائیں، دو کمروں کے کوارٹر میں دو دو فیملی ٹھہرائی گئیں، نچلی سطح پر سب سے پہلے پیرالٰہی بخش وزیراعلیٰ سندھ نے اپنی زمین کا ایک ٹکڑا عنایت کیا جس پر پہلی نجی کالونی (پیر الٰہی بخش) کے نام سے موسوم ہوئی اس نے بڑے بڑے شرفا کو پناہ دی۔
عوام کیلئے حکومت نے لالو کھیت پر پھر گولی مار پر ایک کمرے کے کوارٹر بنائے، یہ دونوں علاقے اب لیاقت آباد اور پاک کالونی کے نام سے بڑے بڑے بازاروں میں تبدیل ہوچکے ہیں، اب بے شمار کالونیاں وجود میں آچکی ہیں۔ کراچی میں تقریباً 22,20تعمیراتی کمپنیاں کام کررہی ہیں ان کے اشتہارات اخباروں میں شائع ہوتے ہیں۔ کمپنیاں طرح طرح سے عوام کو متوجہ کرتی ہیں، بعض کی جانب سے اتوار کو کھیل تماشے اور حلیم کی دعوت دی جاتی ہے۔ مگر ان سب کے فلیٹس مکان ، بنگلے، پلاٹس امیر خاندانوں کیلئے ہیں۔ ان کے اشتہاروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کا ملک ہے۔ نادار افراد نے تو ایک ملین کی رقم بھی نہیںدیکھی۔ وہ الٹرا ماڈرن، یورپی آرائشوں سے مزین فلیٹس اور مکانوں کا خواب کس طرح دیکھ سکتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ارزاں کوارٹرز کا اعلان ہوتا ہے۔ قرعہ اندازی ہوکر ان کی ملکیت ہوجاتے ہیںمگر متواتر قسطیں اتنی بھاری ہوتی ہیں کہ وہ اقساط ادا نہیں کرسکتے اور نادہندگی میں ان کے کوارٹر نیلام ہوجاتے ہیں اور یوںوہ ابتدائی رقم سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ سائنسدانوں نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ وہ مریخ پر آلو کی کاشت کا منصوبہ بنارہے ہیں،کیا وہ ایسےاجزا تیار نہیں کرسکتے جن میں ایک مکان کی لاگت زیادہ سے زیادہ 8,7لاکھ روپے ہو، جب تک اس قسم کا کوئی منصوبہ نہیں ہوگا انہیں جھگیوں اور جھونپڑیوں میں رہنا ہوگا۔ انہیں مکان میسر نہیں ہوگا، انہیں حوائج ضروریہ کے لئے گلی کوچوں، کھلے میدانوں کا سہارا لینا ہوگا اور ایک معمولی سی چنگاری ان کا رہا سہا اثاثہ بھی چند منٹ میں بھسم کردے گی۔ملک میں ملک ریاض کی طرح ایسے ہمدرد ضرور ہیں جو چند درجن مکان تعمیرکرکے ان کی چابیاں ناداروں کے حوالے کردیتے ہیں مگر ان کی مثال اونٹ کی داڑھ میں زیرے کی برابر ہے۔ یہ (وفاقی، صوبائی، مقامی) حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہر سال کچھ مکانات بناکر ناداروں کو آباد کریں اور ان کی منتقلی قانوناً واجب جرمانہ اور سزا نہ ہو۔