• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں شہباز شریف اور عمران خان میں جہاں بہت سے شخصی تضادات اور اختلافات ہیں وہاں ایک بات دونوں میں مشترک ہے۔ دونوں کفایت شعار ہیں۔ عمران خان کی کفایت شعاری کے بہت سے واقعات وہ صحافی بیان کرتے ہیں جو وقتاً فوقتاً ان سے ملتے رہتے تھے۔ وہ صحافیوں کو چائے کا ایک کپ پلا کر رخصت کرد یا کرتے تھے۔ کبھی عیاشی کے موڈ میں ہوتے تو ایک پلیٹ میں دو چار بسکٹ رکھوا دیا کرتے تھے۔ شہباز شریف کی کفایت شعاری کے ایک واقعے کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ یہ نوے کی دہائی کے ابتدائی برسوں کی بات ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت اٹھاون ٹو بی کا ہتھوڑا چلا کر برطرف کی گئی تو میاں نواز شریف نے اپنی ماڈل ٹائون والی اقامت گاہ پر ایک پریس کانفرنس بلائی۔ میرےصحافی دوست مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ میاں صاحب اس روز ہلکے آسمانی رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔ ان کے دائیں جانب احسن اقبال براجمان تھے۔ اس پریس کانفرنس کا لب لباب یہی تھا کہ مجھے کیوں نکالا؟ لیکن تب ان کا لہجہ بہت دھیما تھا۔ انہوں نے نہایت ٹھنڈے لہجے میں صحافیوں کے سامنے اپنا موقف رکھا۔ جہاں اٹک جاتے وہاں احسن اقبال لقمہ دیتے اور ان کی بات مکمل ہو جاتی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس پریس کانفرنس میں میاں شہباز شریف موجود نہیں تھے، لیکن جونہی میاں نواز شریف کی پریس کانفرنس مکمل ہوئی، کمرے میں میاں شہباز شریف داخل ہوئے۔ اتفاق کی بات ہے کہ جہاں میں بیٹھا ہواتھا میاں صاحب وہاں آکر کھڑے ہوگئے اور تمام صحافیوں کو مخاطب کرکے بولے :’’بھئی آپ نے بڑے میاں صاحب کو بہت وقت دے دیا۔ ان کی باتیں آپ نے سن لیں۔ مجھے بھی کچھ وقت دیجیے‘‘۔ پتا نہیں وہاں موجود کسی صحافی دوست نے کہا: ’’آپ کہیے کب اور کہاںبیٹھیں؟‘‘ میاں شہباز شریف بولے :’’ کل دوپہر کے ایک بجے آواری ہوٹل میں آ جایئے‘‘۔ ابھی صحافیوں نے ان کی دعوت قبول بھی نہیں کی تھی کہ میاں شہباز شریف بولے :’’نہیں بھئی نہیں۔ ایک بجے نہیں آپ کل شام کے چار بجے آ جایئے گا۔ ایک بجے بلایا تو مجھے آپ سب کو کھانا کھلانا پڑے گا۔ میں آپ کوصرف چائے پلائوں گا‘‘۔ ان کی بات سن کر وہاں موجود تمام صحافیوں نے قہقہہ لگایا اور یہ پریس کانفرنس برخاست ہوگئی۔

میاں شہباز شریف کی کفایت شعاری کا یہ واقعہ آج تقریباً تین دہائیاں گزرنے کے باوجود میری یادداشت کا حصہ ہے۔ اس واقعے نے مجھے ان کی شخصیت کے ایک پہلو کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔

میاں شہباز شریف تین دفعہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے۔ چڑیا گھر کے پہلومیں واقع ان کے دفتر میں مجھے کئی بار جانے کا موقع ملا۔وہ مہمانوں کو صاف ستھرے کپوں میں سادہ سی چائے پلا کر رخصت کر دیا کرتے تھے۔ ان کی شخصیت کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ انہیں شاعری سے بہت رغبت ہے۔ شاعری کا ذوق صرف اس شخص کے دل میں پیدا ہوسکتا ہے جو درد کی دولت سے مالا مال ہو۔ یہ غالباً ہمارے محترم شاعر دوست شعیب بن عزیز کی قربت کا اثر تھا۔ شعیب صاحب اچھے اچھے شعر ڈھونڈ کر جمع کرتے اور میاں صاحب کے حوالے کر دیتے۔ اب یہ میاںصاحب کی مرضی ہوتی تھی کہ کونسا شعر پڑھیں اور کون سا چھوڑ دیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار چیف منسٹر آفس میں ’’اخوت‘‘ کی ایک تقریب تھی۔ وہاں غریب لیکن ذہین طلبہ کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ میاں صاحب دردمندی سے جذباتی ہوئے تو بولے، میں آج پھر وہی شعر پڑھنا چاہوں گا جو میں ہر روز آپ کو سناتا ہوں۔ شعیب بن عزیز صاحب ہر چند کہ مجھے شعر دہرانے سے منع کرتے ہیں لیکن میں کیا کروں؟ یہی شعر میرے دل کی ترجمانی کرتے ہیں‘‘۔ پھر انہوں نے شعر ایک ایک کر سنائے:

جب اپنا قافلہ عزم ویقیں سے نکلے گا

جہاں سے چاہیں گے، رستہ وہیں سے نکلے گا

وطن کی مٹی! مجھے ایڑیاں رگڑنے دے

مجھے یقیں ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلےگا

عطاء الحق قاسمی کے یہ شعر تو اب میاں شہباز شریف کے ہو چکے ہیں۔ قاسمی صاحب سے کسی مشاعرے میں یہ شعر سنانے کی فرمائش یوں کی جاتی ہے:’’ قاسمی صاحب! میاں شہباز شریف والی غزل بھی مرحمت فرما دیجئے‘‘۔ اسکے دو شعر آپ پڑھ لیجیے:

خوشبوئوں کا اک نگر آباد ہونا چاہئے

اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہئے

ظلم بچے جن رہا ہے، کوچہ و بازار میں

عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہئے

میاں صاحب کی وزارت عظمیٰ کے پیچھے عدالتِ عظمیٰ کے بروقت فیصلے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اگر عدالت عظمیٰ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار نہ دیتی تو خدا جانے جمہوریت کا کیا حال ہوتا۔ لگتا ہے کہ عدل نے عدل کرنے کی ٹھان لی ہے۔ لیکن کچھ نیا میاں شہباز شریف کو بھی کرنا ہوگا۔ وہ جس نظام زر کو برباد کرکے خوشبوئوں کا اک نگر آباد کرنے نکلے تھے ہم عام لوگ اب بھی اس کے منتظر ہیں۔ ماضی میں ان کا دائرہ کار صرف پنجاب تک محدودتھا۔ اب وہ سارے پاکستان کے وزیراعظم ہوں گے۔ وہ ساری طاقتیں جو ماضی میں ان کی مخالف تھیں، آج ان کی حلیف ہیں۔ گویا راستہ آسان ہوگیا۔ اگر اب بھی آپ پرانے نظام زر کو برباد نہ کرسکے تو قوم مایوسی کے ایسے گڑھے میں جا گرے گی، جہاںسے شاید کوئی بھی اسے نہ نکال سکے۔

تازہ ترین