نئے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے پیر کے روز قومی اسمبلی میں اپنے انتخاب کے بعد جو خطاب کیا اس سے واضح ہے کہ وہ درپیش چیلنجوں کے پورے ادراک کے ساتھ ان سے نمٹنے کی حکمت عملی رکھتے ہیں۔ میاں شہباز شریف 1988سے سیاست میں سرگرم ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے تین بار وزیراعلیٰ اور بطور وزیراعظم چنائو سے پہلے تک قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف رہے ہیں، جبکہ اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے ساتھ سرد و گرم چشیدہ ہیں۔ شہباز شریف گیارہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی آئین و قانون کی بالادستی کیلئے کی گئی جدوجہد کے نتیجے میں اس منصب تک ان کے نمائندے کے طور پر پہنچے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد اور بعد ازاں قائدِ ایوان کے انتخاب کے وقت تک جو واقعات رونما ہوئے ان سے سب ہی واقف ہیں۔ میاں شہباز شریف نے اپنے خطاب میں مذکورہ صورتحال، مبینہ ڈپلومیٹک کیبل، معیشت کی کیفیت، بین الاقوامی تعلقات کا احاطہ کیا اور عوام کیلئے بعض سہولتوں کا اعلان کیا۔ جن کے بموجب یکم اپریل سے کم از کم ماہانہ اجرت بڑھا کر 25ہزار روپے مقرر کر دی گئی، سول اور فوجی پنشنرز کی پنشن میں یکم اپریل سے 10فیصد اضافہ کیا جارہا ہے اور نجی شعبے سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ ایک لاکھ روپے تک تنخواہ پانے والے ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کرے۔ رمضان پیکیج کے ذریعے عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے جبکہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام دوبارہ لانے اور اس کا دائرہ کار بڑھانے، طلبہ کو مزید لیپ ٹاپ دینے کے اعلانات بھی کیے گئے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بطور خادمِ پاکستان وہ چاروں صوبوں کو لے کر چلیں گے اور پورے ملک کو یکساں ترقی کے راستے پر ڈالیں گے۔ مبینہ سفارتی کیبل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ معاملے کی انکوائری کرائی جائے گی۔ قومی سلامتی کمیٹی میں مسلح افواج کے سربراہان اور ڈی جی آئی ایس آئی کی موجودگی میں بند کمرہ بریفنگ دی جائے گی، اس معاملے میں ہمارے ملوث ہونے کا شائبہ تک ملا تو سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائوں گا۔ بعض واقعات دہراتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے فیصلے بہت پہلے ہو چکے تھے۔ وزیراعظم نے معیشت کی صورت حال کو گمبھیر قرار دیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری، خالد مگسی، امیر حیدر ہوتی، محسن داوڑ، اختر مینگل، شاہ زین بگٹی اور مولانا سعد محمود کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر ہم نے ملک کی کشتی کو پار لگانا ہے تو اس کے لیے اتحاد کے سوا کوئی نسخہ کارگر ثابت نہیں ہوگا۔ اللہ نے چاہا تو انتھک محنت سے صورتحال بہتری میں بدل جائے گی۔ دورانِ خطاب میاں شہباز شریف کا نکتہ نظر یہ تھا کہ ’’جمہوریت اور معیشت کیلئے ڈیڈ لاک نہیں ڈائیلاگ اور مخاصمت کی بجائے مفاہمت سے کام لینا پڑے گا‘‘۔ وزیراعظم نے امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ سی پیک پر کام تیز کرکے پاک چین دوستی مزید مستحکم کرنے کا عزم دہرایا اور بھارتی وزیراعظم کو دعوت دی کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کرکے خطے کے استحکام اور اپنے عوام کی حالت بہتر کرنےکی طرف بڑھا جائے۔ وزیراعظم کے خطاب سے واضح ہے اور حقائق بھی یہی ہیں کہ وطن عزیز کو سنگین چیلنجوں سے نکالنے کیلئے سب کی مشترکہ جدوجہد ضروری ہے۔ سیاست میں اختلافات و تنازعات کا پیدا ہونا یقینی امر ہے۔ مگر ملکی مفاد کے لیے کئی مواقع پر ہاتھ ملانا پڑتے ہیں۔ اختلافات کی کئی صورتیں تہہ در تہہ اس وقت سامنے ہیں۔ ان سے بچنا، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنا اور ملکی سلامتی کے لیے کام کرنا اس وقت سب کی ترجیح ہونی چاہیے۔