• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ دہائی کے دوران خدمات میں عالمی تجارت اشیا کی تجارت کے مقابلے میں 60 فیصد زیادہ تیزی سے بڑھی۔ بلند شرح نمو کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ خدمات کی تجارت اگلی دہائی یا اس سے زائد عرصے میں اشیا کی عالمی تجارت کے مساوی آ سکتی ہے یا اس سے بھی آگے نکل سکتی ہے۔ اس طرح ہمیں اس پرانے تصور کو ترک کرنا ہوگا کہ صرف صنعت کاری اور اشیا کی برآمدات ہیں جو ہمیں معاشی بہتری کی راہ پر گامزن کریں گی۔ اس کی بجائے ہمیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے خدمات کی تجارت کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ خدمات تقریباً ایک تہائی سے لے کر نصف کے قریب تک قدر پیدا کرتی ہیں۔ تیار شدہ مال کی یہ قدرتحقیق اور ترقی، ڈیزائن، انجینئرنگ، سیلز اور مارکیٹنگ، مالیات اور انسانی وسائل کے ذریعے بڑھائی جاتی ہے۔ ایک اضافی فائدہ یہ ہوگا کہ اشیا پر تو حکومت کو سبسڈیز اور رعایتیں دینا پڑتی ہیں لیکن خدمات کی تجارت اعلیٰ کارکردگی، کم لاگت، صارفین کے اطمینان اور تیز رفتار تبدیلی کی بنیاد پر چلتی ہے۔اسے سبسڈیز کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اب تک یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اب معمولی کارکردگی کا محرک نہیں رہے گی بلکہ بنیادی اختراعات اور بہت بڑی تبدیلی کا باعث بنے گی۔ مکینزی کی ایک تحقیق کے مطابق، تباہ کن ٹیکنالوجیز میں سے ایک یعنی بگ ڈیٹا نے تمام منظر نامے کو تبدیل کر دیا ہے۔ ایک دہائی کے اعداد و شمار کے بہاؤ نے مجموعی طور پر عالمی جی ڈی پی میں تقریباً 10 فیصد اضافہ کیا ہے اور سالانہ تجارت میں 2.8 بلین ڈالر کا حصہ ڈالا ہے۔ یہ عالمی جی ڈی پی میں جسمانی اشیا کی عالمی تجارت کے مقابلے میں ایک بڑا حصہ ہے۔ کارکردگی، پیداوار، سپلائی چین اور اختراع کے لیے ڈیٹا سے استفادہ کیاجا رہا ہے۔ یو ایس بیورو آف اکنامک اینالیسس اسٹڈی سے پتا چلا ہے کہ ڈیجیٹل اکانومی میں کام کرنے والے ملازمین نے اوسطاً 132,223 ڈالر کمائے۔ اس کے مقابلے میں امریکی معیشت میں فی ورکراوسط آمدنی 68,506 ڈالرتھی۔اس بات کی وضاحت کے لیے، جن علاقوں میں بنیادی طبی دیکھ بھال تک رسائی نہیں تھی، ہیلتھ سیکٹر نے لاکھوں مریضوں کا ہزاروں ڈاکٹروں کے ساتھ رابطہ قائم کردیا ہے۔ پاکستانی خواتین ڈاکٹرز، ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد، مختلف سماجی اور ثقافتی عوامل کی وجہ سے اپنے پیشوں میں سرگرمی سے حصہ نہیں لے رہی تھیں۔ حالیہ برسوں میں ان میں سے کچھ نے ٹیلی ہیلتھ ٹولز کا استعمال شروع کر دیا ہے تاکہ مریض ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں اور وہ معیشت میں نتیجہ خیز حصہ لے سکیں۔

یہ سفر شروع ہوچکا۔ لیکن ہماری تیاری کی کیا حالت ہے؟ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ UNCTAD نے ایک کنٹری ریڈی نیس انڈیکس تیار کیا ہے جو ان اختراعی ٹیکنالوجیز کو استعمال کرنے اور اپنانے کی قومی صلاحیتوں کا جائزہ لیتا ہے۔ انڈیکس پانچ بلڈنگ بلاکس پر مشتمل ہے۔ (a) آئی سی ٹی کی تعیناتی انٹرنیٹ استعمال کرنے والے، رفتار، (b) ہنر اسکولنگ کے متوقع سال، (c) R&Dسرگرمی پبلی کیشنز، پیٹنٹ، (d) صنعتی سرگرمی Hi Technology (e) فنانس تک رسائی ملکی کریڈٹ۔ 2020 کے لیے اس انڈیکس میں پاکستان کا اسکور 0.20 ہے اور تیاری کی کم کیٹیگری میں158 ممالک میں سے 123 ویں نمبر پر ہے۔ دوسری طرف انڈیا اپنے متاثر کن انسانی وسائل کی وجہ سے 43 ویں نمبر پر ہے۔

پاکستان تیس سال سے کم عمر کی 60 فیصد نوجوان آبادی رکھنے والا ملک ہے۔ اس طرح پاکستان ترقی یافتہ ممالک میں بڑھتی ہوئے عمر رسیدہ افراد اور کم ہوتی افرادی قوت کے خلا کو پر کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہے۔ کسی بھی ملک سے زیادہ ثقافتی اور لسانی یکسانیت رکھنے والے ملک، جاپان نے بھی بالآخر ہنر مند اور آئی سی ٹی سے متعلق ملازمتوں کے غیر ملکی کارکنوں پر اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔ برطانیہ نے بھی اپنی امیگریشن پالیسی پر نظر ثانی کی ہے اور کینیڈا اور آسٹریلیا کی طرز پر پوائنٹس سسٹم متعارف کرایا ہے تاکہ محدود تعدادمیں ہنر مند افرادی قوت کو راغب کیا جا سکے۔ اگرچہ اس ملک میں ڈیموگرافک فوائدکے بارے میں بہت زیادہ بیان بازی اور باتیں کی جاتی ہیں لیکن ایکو سسٹم بنانے کے لیے ابھی تک بہت کم کام کیا گیا ہے۔ تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیتی کورسز کی شکل میں اضافی اور جزوی اقدامات یا کچھ مہنگے اعلیٰ سنٹرز آف ایکسیلنس کے قیام سے جو کہ ناکافی تعلیمی نظام کی کمزور بنیادوں پر تعمیر کیے گئے ہیں، شاید ہی کوئی خاطر خواہ فرق پیدا ہو سکے۔

ہمیں تنقیدی سوچ، تعاون، مسلسل سیکھنے اور اپنانے کی صلاحیت کے لیے نصاب اور تدریس پر دوبارہ غور کرنا ہوگا تاکہ طلبا کسی الجھن میں نہ رہیں۔تعلیم کے ساتھ دیگر ضروری نرم مہارتوں کو حاصل کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔گریڈ XI اور XII تک انہیں تھیوری، تصورات، اصطلاحات اور استعمال کو سمجھنا چاہیے۔ اس کے بعد وہ مختلف شعبوں میں جاسکتے ہیں۔ یہ بنیاد اُنھیں بہتری کی طرف قدم رکھنے کے قابل بنائے گی۔ دیکھا گیا ہے کہ یونیورسٹی کی سطح پر بھی اساتذہ تنقیدی انکوائری کو کچلنے کے لیے خراب گریڈ کی دھمکیوں کا استعمال کرتے ہیں اور ان لوگوں کو چیلنج کرتے ہیں جو کلاس سیشن کا زیادہ تر حصہ متن پر بحث کرتے ہیں۔ طلبا صرف ٹیچر کے لیکچر کو نوٹ کرکے اسے تیار کرلیتے ہیں۔ اس طرح کے تعلیمی ماحول کا نتیجہ منفی، بلکہ نقصان دہ ہوتاہے۔ صوبہ کے پی میں یونیورسٹی کے طلبا کے بارے میں PIPS کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت یونیورسٹیوں جیسی اعلیٰ تعلیم کی سطح پر بھی بنیادی تنقیدی سوچ اور استدلال کی مہارت سے محروم ہے۔ بہت سے لوگوں میں دی گئی معلومات کا تجزیہ کرتے ہوئے بنیادی استدلال کو لاگو کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ ایسے نوجوان پہلے سے طے شدہ بیانیے اور کثرت سے پھیلائی جانے والے دقیانوسی سازش کی تھیوریوں پر یقین کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

تازہ ترین