• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہباز شریف کی نئی حکومت کے سامنے بہت سارے چیلنج ہیں۔ اس وقت عوام بد حال ہیں۔ ملک کے اندر معاشی ترقی مکمل طور پر رُک چکی ہے۔اب سرمایہ داروں کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ نے بھی پاکستانی معیشت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وقت کا ناگزیر تقاضا ہے کہ نئی وفاقی کابینہ میں وزراء کی فوج ظفر موج یکجا کرنے کی بجائے مختصر کابینہ تشکیل دی جائے تاکہ قومی خزانے پر بھاری بوجھ نہ پڑے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک و قوم کے ساتھ جو وعدے کیے ہیں ان کو پورا کیا جانا چاہیے بصورت دیگر ان کا انجام بھی سابق حکمرانوں جیسا ہی ہوگا۔آئندہ انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات کی جانی چاہیے۔ اسی تنا ظر میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی بجا طور پر یہ کہا ہے کہ نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف منصوبوں کی بجائے الیکشن کے جلد از جلد انعقاد کو ممکن بنائیں۔ انتخابات سے قبل الیکشن ریفارمز کے لیے قومی اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے۔ الیکشن کمیشن کا مالی وانتظامی لحاظ سے خودمختار ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ فوج کی جانب سے آئندہ مارشل لا نہ لگانے کے اعلان سے شکوک وشبہات ختم ہوگئے۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزیدکہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں عدلیہ، الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ مکمل طور نیوٹرل ہوجائے۔ ملک میں سیاسی اختلافات دشمنیوں میں بدل گئے، انتقام کے نعرے ملک کے لیے تباہ کن، پولرائزیشن خطرناک حدیں چھو رہی ہے، نئی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ قوم میں اتفاق پیدا کرنے کے لیے کردار ادا کرے، سیاست گالم گلوچ کا نہیں، دلیل سے بات کرنے کا نام ہے۔ تقسیم شدہ قوم بیرونی سازشوں اور ملک کو درپیش خطرات کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ وزیراعظم اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں پچاس فیصد کمی کریں۔ بجلی، گیس، پٹرول پر ٹیکسز ختم کیے جائیں، آئی ایم ایف سے پی ٹی آئی دور حکومت میں کیے گئے معاہدے غلامی کی زنجیر، نئی اتحادی حکومت معاہدوں پر نظرثانی کرے، اسٹیٹ بینک کی حیثیت بحال کی جائے اور اس کے گورنر کے وائسرائے کے کردار کو ختم کیا جائے۔ غیر ترقیاتی اخراجات کا خاتمہ، کراچی کے مسائل کو حل کیا جائے۔ نئی حکومت بننے سے وفاق اور سندھ ایک پیج پر آ گئے ہیں، کراچی کی ترقی اور صوبہ سندھ کے بلدیاتی قوانین سے متعلق پی پی اور جماعت اسلامی معاہدے پر عملدرآمد کیا جائے۔ نئی حکومت گوادر اور بلوچستان کے دیگر پسماندہ علاقوں کے عوام کو ان کے حقوق کی فراہمی یقینی بنائے۔حکومت افغانستان کو تسلیم کرنے کا اعلان کرے اور مسئلہ کشمیر پر خاموشی توڑ کر جرأت مندانہ موقف اپنایا جائے۔ ملک کے مسائل کا حل صرف اور صرف اسلامی نظام کے نفاذ میں ہے۔ چہرے بدلنے سے تبدیلی نہیں آئے گی۔ نظام کو بدلنے کے لئےقوم جماعت اسلامی کا ساتھ دے۔ پی ڈی ایم، پی پی پی اور پی ٹی آئی سے متعلق اپنے موقف پر قائم ہیں، مفادات کی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے، حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں، عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ملک کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بنانا مقصد ہے۔ چہروں کی تبدیلی کا کھیل عوام کے لیے فائدہ مند نہیں۔ اسٹیٹس کو پر پہرہ دینے کے لیے نئے چوکیدار آجاتے ہیں، ستر برسوں سے عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ حقیقی تبدیلی اور خوشحالی تبھی آئے گی جب ملک میں قرآن و سنت کا نظام قائم ہو گا۔ عوام سے کہتے ہیں کہ پانی میں مدھانی چلانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ تینوں جماعتوں کو قوم نے دیکھ لیا، پنڈوراپیپرز اور پاناما لیکس میں انہی حکمران جماعتوں سے وابستہ افراد کے نام شامل ہیں۔ حکمران اشرافیہ نے بڑے بڑے قرضے لیے اور معاف کرائے۔ ہماری حکومتیں اپنے مفادات کے لیے مافیاز کے زیراثر رہیں۔ یہ مافیاز الیکشن سے قبل مختلف سیاسی جماعتوں میں سرمایہ کاری کرتی ہیں اور حکومت بننے پر مال بناتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ملک میں ہمیشہ کے لیے انتقامی سیاست کو دفن کرنا ہوگا۔ گزشتہ دنوں پاکستان ایک بہت بڑے آئینی بحران سے دوچار تھا، سپریم کورٹ اور دیگر اداروں نے اس کے خاتمے اور جمہوریت کے استحکام کے حوالے سے تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ لیٹر گیٹ کے معاملے پر شفاف تحقیقات کرتے ہوئے اصل حقائق قوم کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ نئی حکومت کو لاتعداد چیلنجز درپیش ہیں، جن میں سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے۔ مختلف جماعتوں پر مشتمل حکومت کے غیر فطری اتحادسے زیادہ توقعات نہیں لگاسکتے۔ بھان متی کا کنبہ عوام کو درپیش مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ پوری قوم کا مطالبہ ہے کہ ملک کے اندر غیر جانبدار اور شفاف انتخابات کا جلد انعقادکیاجائے۔ تمام قومی اداروں کا احترام ہونا چاہیے۔آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی ہونی چاہیے، ریاستی اداروں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرنیو الے دشمن قوتوں کا کام آسان کررہے ہیں۔ جو شخص آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اداروں کی بالادستی کی بات کرتا تھا، آج وہی اپنے خلاف فیصلہ آنے پر عوام میں انتشار پیدا کررہا ہے۔ ملک و قوم پہلے ہی شدید بحرانوں کا شکار ہے۔پاکستان کے 22 کروڑعوام نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون،تحریک انصاف سمیت سب بیانیے اور ان کا انجام دیکھ لیا ہے، کلمہ طیبہ کے نام پر وجود میں آنے والے ملک میں صرف اورصرف اللہ اوراس کے رسول ﷺ کا بیانیہ ہی کامیابی سے چل سکتا ہے آج ملک وقوم جن سنگین حالات سے دوچارہیں اس میں ان تینوں بڑی جماعتوں نے مرکزی کرداراداکیا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک طرف لاہور سمیت پنجاب بھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ سے روزہ داروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے عوام الناس کو بجلی وگیس کی لوڈ شیڈنگ سے سحروافطار میں پریشانی کا سامناکرنا پڑرہا ہے جبکہ دوسری طرف رہی سہی کسر گراں فروشی نے پوری کردی ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں نئی حکومت کو فوری طورپر مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنا چاہئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت میں رہنے والے وزیر خزانہ شوکت ترین آج قوم کے سامنے بر ملااعتراف کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت کے پاس معاشی پلان نہیں تھا۔ قوم کو محض گمراہ کیا جاتا رہا ہے۔ تمام جماعتیں ملک وقوم کو درپیش مسائل اوربالخصوص معیشت پر اتفاق رائے پیدا کریں، تاکہ عوام کی زندگی میں آسودگی آسکے۔ ہر حکومت اپنی نااہلی کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ملک کے اندر محض چہرے بدلنے سے حالات درست نہیں ہو سکتے فرسودہ نظام کو بدلنے کے لیے جہادکرنا ہو گا۔

تازہ ترین