• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اپوزیشن کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں اسلام آباد میں اپوزیشنکی چھتری تلے مائنس عمران خان اور عملاً قومی حکومت قائم ہو چکی ہے جبکہ وزیراعظم میاں شہباز شریف اپنا منصب سنبھال چکے ہیں۔ وہ اسلام آباد کو پنجاب میں اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دور کی طرح چلانے کا عزم رکھتے ہیں جو کہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اسلام آباد اور صوبوں میں طرز حکمرانی بہت مختلف ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ نئے وزیراعظم کا اندازِ حکمرانی کیا ہوتا ہے؟ اسی لیے کہ اسلام آباد کے بابو تو صوبوں کی بیوروکریسی سے بھی نرالے ہیں، ویسے بھی یہاں سفارتی اور دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کئی معاملات بین الاقوامی حالات کے تناظر میں بھی دیکھنے پڑتے ہیں، بہرحال اِس کے باوجود اسلام آباد کا نظام چلتا رہے گا، ہمارے ذاتی مشاہدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے میاں شہباز شریف کی یہ خواہش 20,25برسوں کی جدوجہد کے بعد پوری کی ہے۔ اس سلسلہ میں اُن سے جن دنوں وہ سعودی عرب سے امریکہ آئے ہوئے تھے، وہاں ہماری کئی ملاقاتیں ہوئیں جو سب یاد آرہی ہیں، جن میں ہمارے دوست طارق ذہین بھی ہوتے تھے۔ اب ایک طویل جدوجہد کے بعد میاں شہباز شریف وزیراعظم بن چکے ہیں، انہیں سیاسی اور انتظامی امور چلانے کا وسیع تجربہ ہے لیکن وہ اس وقت جن حالات میں اس منصب پر فائز ہوئے ہیں، انہیں ایک سے زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے، ایک طرف اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا خاص کر سابق صدر آصف علی زرداری کو مطمئن کرنا، اُن کی مضبوط اور موثر شرائط کو پنجابی اسٹائل میں ٹالنا آسان نہیں ہوگا، اس سے زیادہ سنگین مسئلہ اقتصادی حالات کی بہتری کا ہے، جس کا ذمہ دار صرف چند روز قبل ختم ہونے والی حکومت کو ٹھہرانا مناسب نہیں ہے، اس کی ذمہ دار عملاً 25سال سے حکومت کرنے والی پارٹیاں ہیں، اقتصادیات کا ایک اصول ہے کہ مہنگائی اور گرانی نہ ایک دم بڑھتی ہے اور نہ ہی ایک دم ختم ہوتی ہے، اس کے لیے بہتر ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف چارٹر آف اکانومی پر تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے چارٹر آف ڈیمو کریسی کی طرز پہ کام کریں۔ اس چارٹر کا آغاز سابق تجارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے 1991میں کیا تھا۔ اُس وقت وہ وزیر خزانہ تھے۔ اس کے بعد پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف نے پہلی اقتصادی اصلاحات کا نفاذ کیا تھا جس سے ہماری معیشت کو فوائد بھی ہوتے اور کئی معاملات پر سوالات بھی پیدا ہوتے تھے لیکن اب تو صورتحال بالکل بدل چکی ہے۔ PTIکے 123اراکین قومی اسمبلی سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ اس پیش رفت کے کیا نتائج نکلیں گے؟ یہ تو ہمارے سیاسی ماہرین ہی بتا سکتے ہیں۔ ہمیں تو اس وقت اِس بات پہ زور دینا ہے کہ PDMاور مسلم لیگ ن کو مختلف اقدامات اور اصلاحات کے ذریعے عوام کو مطمئن کرنا ہوگا۔ اس کا واحد راستہ مہنگائی کو نہ صرف روکنا ہے بلکہ اس میں کمی بھی کرنا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام آباد کی بیوروکریسی ہو یا صوبوں کی، سب اعدادوشمار کی جادوگری کے ماہر ہوتے ہیں، جن کے سب کارنامے اب عوام کو بھی سمجھ آچکے ہیں اِس لیے اب نہ تو بڑے بڑے جلسوں میں بڑے بڑے اعلانات سے مسائل حل ہوں گے بلکہ عملی طور پر بھی کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ اِس لیے عوام کو جو عادت آپ نے ڈالی ہے اب اُسے بھی مدِنظر رکھنا ہوگا۔ اس لیے کہ ایک نہ ایک دن آپ کو بھی انتخابی عمل میں جانا ہوگا جہاں ایک سوال ہوگا کہ آپ کی حکومت نے کیا کِیا؟ اس کا جواب وقت آنے پر آپ ہی دے سکیں گے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کو مستقبل کی سیاست میں اپنا کردار بڑھانے کے لیے اقتصادی اصلاحات اور سیاسی مفاہمت کی ایسی سوچ کو سامنے لانا ہوگا جس سے عوام اور تمام ادارے مطمئن اور متفق ہوں۔ اِس سلسلے میں انہیں سب سے بڑا چیلنج اسلام آباد کی بیوروکریسی کو پاکستان کی بیوروکریسی میں بدلنا ہوگا جس کے لیے افسروں کو عزت اور تکریم دینا ہوگی۔

تازہ ترین