• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئین کی خلاف ورزی کوئی چھوٹی بات نہیں، چیف جسٹس پاکستان

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ آئین کی خلاف ورزی کوئی چھوٹی بات نہیں، کچھ لوگ تو فوراً آرٹیکل 6 پر چلے جاتے ہیں۔ 

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس اور پی ٹی آئی کی منحرف اراکین کی تاحیات نااہلی کی درخواست پر سماعت کی ۔

 دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس نے کہا کہ جب دس 15 ہزارلوگ جمع ہوکرعدالتی فیصلوں پر تنقیدشروع کردیں توہم فیصلےکیوں سنائیں؟ سیاسی رہنماؤں سے توقع کرتےہیں کہ وہ پبلک میں عدالتی فیصلوں کادفاع کرسکیں، آئین کی پاسداری اور حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔

نئے اٹارنی جنرل کو دلائل دینے ہوں تو آخرمیں دے سکتے ہیں، چیف جسٹس پاکستان

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بیان دیا ہے کہ نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی تک کیس التوا کی درخواست کی تھی، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں، نئے اٹارنی جنرل کو دلائل دینے ہوں تو آخرمیں دے سکتے ہیں، سیاسی جماعتوں کے دلائل ابھی باقی ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف کی ایک درخواست بھی آئی ہے،وکیل تحریک انصاف بابر اعوان نے استدعا کی کہ فریقین کو نوٹس جاری کیے جائیں۔

زیر بحث کیس آئینی سوالات پر ہے، چیف جسٹس پاکستان

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ زیر بحث کیس آئینی سوالات پر ہے،پہلے اپنا کیس پیش تو کریں، نوٹس ہوجائیں گے، تمام جماعتوں کے سامنے سماعت ہو رہی ہے۔

ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ انحراف ہونے پر تاحیات نااہلی ہونی چاہیے، جو حالات پنجاب اور وفاق میں ہیں اس پر عدالت جلد رائے دے۔

پارلیمنٹ نےآرٹیکل63 اےمیں تاحیات نااہلی کوشامل نہیں کیا، جسٹس جمال خان مندوخیل

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کچھ لوگ انحراف پر تاحیات نااہلی کےحق میں ہیں کچھ مخالف، پارلیمنٹ نےآرٹیکل63 اےمیں تاحیات نااہلی کوشامل نہیں کیا، پارلیمنٹ نےجان بوجھ کر انحراف پر تاحیات نااہلی شامل نہیں کی یا ان سےغلطی ہوئی؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے مزید کہاکہ جب پارلیمنٹ موجود ہے تو آپ عدالت سے کیوں یہ کرانا چاہتے ہیں؟جب ہم یہ شق شامل کریں گے تو آدھے لوگ فیصلہ مانیں گے آدھے نہیں۔

آئین کی پاسداری اور حفاظت ہماری ذمہ داری ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ میرے ساتھی جج کے کہنے کا مطلب واضح ہے، جب دس 15 ہزارلوگ جمع ہوکرعدالتی فیصلوں پر تنقید شروع کر دیں تو ہم فیصلے کیوں سنائیں؟ عدالت آپ کی سیاسی بحث میں کیوں شامل ہو؟، سیاسی رہنماؤں سے توقع کرتےہیں کہ وہ پبلک میں عدالتی فیصلوں کا دفاع کر سکیں، آئین کی پاسداری اور حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ آئین سے انحراف، آئین کی خلاف ورزی معمولی بات نہیں، نیاز اللّٰہ نیازی صاحب، آپ اس وقت کے فیصلے پڑھ رہے ہیں جب ڈیفیکشن کی کھلی چھٹی دی گئی، ڈیفیکشن کی کھلی اجازت پارلیمانی جمہوریت کو نقصان پہنچائے گی۔

ڈیفیکشن کی کھلی اجازت پارلیمانی جمہوریت کو نقصان پہنچائے گی، چیف جسٹس

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 1973 کے آئین میں ڈیفیکشن (انحراف) کے سخت نتائج تھے، اس کے بعد ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا، ضیاء دور میں غیرجماعتی الیکشن تھا اس لیے ڈیفیکشن نکالی گئی کہ اب آپ آزاد ہیں، اٹھارویں ترمیم کے ذریعے 2010میں آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا، آئین سے انحراف آئین کی خلاف ورزی ہے۔۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کی خلاف ورزی کوئی چھوٹی بات نہیں، کچھ لوگ تو فوراً آرٹیکل 6 پر چلے جاتے ہیں، ڈیفیکشن ہمارے سیاسی کلچر میں ایسی چیز ہے جسے آئین رفع کرنا چاہتا ہے۔

آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ بھگتنا چاہیے، چیف جسٹس

صدارتی ریفرنس میں کہا گیا یہ خیانت ہے، ہم نے دیکھنا ہے جب آئین کی خلاف ورزی ہو اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، کیا آئینی خلاف ورزی پر کوئی ہنستے کھیلتے گھنٹی بجا کر نکل جائے، یا آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ بھگتنا چاہیے۔

یہ 24 گھنٹے کام کرنے والی عدالت ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو چل رہا ہے اس کی پرواہ نہیں، آئین کے محافظ ہیں،یہ 24 گھنٹے کام کرنے والی عدالت ہے، کسی کو سپریم کورٹ پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں۔

سوشل میڈیا پر جو چل رہا ہے اس کی پرواہ نہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس  نے کہا کہ سیاسی جماعتوں سے درخواست کر رہا ہوں کہ پارلیمانی جمہوریت کا دفاع کریں۔

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ریفرنس سے لگتا ہے آئین میں نقص نہیں، نقص ہم میں ہے۔

اس موقع پر سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس کی سماعت کل دن ایک بجے تک کیلئے ملتوی کردی۔

قومی خبریں سے مزید