دل دھڑکنا اور بچے مسکرانااور قہقہہ لگانا چھوڑدیں تو سوچئے تصویر کائنات میں بہار کے رنگ برقرار رہ سکتے ہیں۔ کسی علاقے میں ایک بہت بڑا اور خوبصورت باغ تھا۔ اردگرد کے غریب بچے اس باغ کے اندر کھیلا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے باغ میں اکثر بے ترتیبی اور افراتفری رہتی تھی۔باغ کا مالک باغ کی اس حالت پر پریشان ہوجایا کرتا تھا۔ ایک دن اسے غصہ آیا۔ اس نے تمام بچوں کو باغ سے باہر نکال دیا اور باغ کے دروازے پرتالا لگادیا۔بچے مجبوراً باغ سے باہر کھیلنے لگے لیکن باغ کے اندر کھیلنے کی خواہش ان کے دل میں مچلتی رہتی تھی۔ چند روز گزرنے کے بعد باغ کے مالک نے محسوس کیا کہ آہستہ آہستہ باغ کے تمام درخت پودے اور پھول مرجھانے لگے ہیں۔ بہار بھی آئی لیکن پھول کھلے نہ ان پر بھونرے منڈلائے۔ باغ ویران ہوگیا اسے بہت تشویش ہوئی۔ اس پریشانی میں ایک دن وہ باغ کے اندر ٹہل رہا تھا کہ اس نے باغ کی دیوار کے ساتھ نیچے ایک سوراخ کے قریب نہایت خوبصورت پھول لہلہاتا دیکھا۔ پھول کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا۔ اسے قریب سے دیکھنے کیلئے وہ نیچے جھکا توسوراخ میں اسے ایک بچے کا سر نظر آیا جو باہر سے باغ میں جھانکنے کی کوشش کررہا تھا۔ اسے احساس ہوا کہ جس جگہ بچے کی باغ کے اندر جھانکنے کی خواہش پوری ہوئی ہے عین اسی جگہ پھول اُگا ہے۔ دراصل یہ بچے ہی باغ کی بہار ہیں۔ بچے کی غیر موجودگی اور جبراً نکالے جانے نے باغ کو ویران کردیا ہے۔ مالک نے بچوں کے اندر آنے کیلئے باغ کا دروازہ کھول دیا۔
عقل و دانش کی بات سیکھنی ہو تو بچوں سے بہتر کوئی استاد نہیں۔ معصومیت سے کہی ہوئی بچے کی بات میں جہان معنی پوشیدہ ہو تا ہے۔ ماسکو کے ایک پرائمری اسکول کے استاد کلاس روم میں اپنے شاگردوں کو بتارہے تھے کہ ہم کتنے خوش قسمت ہیں جو روس میں پیدا ہوئے۔روس کی حکومت اور روسی معاشرے کی خوبصورتیوں اور نعمتوں سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔روسی بچے بھی کتنے خوش قسمت ہیں کہ ان کے ایک اشارے پر ہر چیز فراہم کردی جاتی ہے۔ انہیں والدین کے ساتھ رہنے کیلئے اعلی درجے کے اپارٹمنٹ مہیا کیے گئے ہیں۔ جہاں مزے مزے کے کھانے فراہم کئے جاتے ہیں اور جہاں کھیلنے کیلئے بچوں کو ہر طرح کے نئے نئے کھلونے دیے جاتے ہیں۔ استاد نے محسوس کیا کہ پچھلی سیٹ پر بیٹھی ایک بچی وانیا کچھ بے چین سی ہورہی ہے۔ استاد نے بلند آواز میں پوچھا،” کیا بات ہے وانیا! آپ نے کچھ کہنا ہے؟“۔وانیا نے ایک ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا،”میں بھی روس میں جاکر زندگی بسر کرنا چاہتی ہوں“۔ بے ساختہ اور قہقہہ بار بات کرنے میں بچوں کا جواب نہیں۔ آپ افسردہ اور بیزار ہوں بچے آپ کو ہنسنے پر مجبور کردینگے۔ ایک تقریب میں صاحب خانہ کی بچی کھیلتی ہوئی ایک مہمان کے پاس آئی اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹافی دکھاتے ہوئے بولی”ٹافی کھائیں گے؟“۔مہمان نے ہاں میں جواب دیا اور منہ کھول دیا۔ بچی نے اطمینان سے ٹافی کا ریپر کھولا اور ٹافی مہمان کے منہ میں ڈالنے کے بجائے اپنے منہ میں ڈال کرچٹخارے لیتی ہوئی بولی ”مزے کی ہے نا“۔
ہنستے بولتے اور کھیلتے کودتے بچے اس دنیا کا حسن ہیں۔ جب بچے روٹھ کر دور چلے جاتے ہیں ہم سے بہت دور تو بے روح بچوں کو دیکھنے سے زیادہ دردناک منظر کوئی نہیں۔ایک چینی شاعر کا بچہ فوت ہوگیاتواس نے اپنے بچہ کا مرثیہ ایک فقرے میں لکھا”آج وہ تتلیوں کی تلاش میں بہت دور نکل گیا ہے“۔ لیکن جب کسی پھول کو مسل دیا جائے۔ کسی بچے کو جبر اور زیادتی کا نشانہ بنایا جائے تو روح کائنات بھی چیخ اٹھتی ہے۔لاہور میں ایک بچی کوانتہائی سفاکی اور درندگی کا نشانہ بنایا جانا ایسا ہی ایک المیہ ہے۔ جب درندوں نے ایک پانچ سالہ بچی کو پھول کی پتیوں کی طرح مسل کر پھینک دیا۔ لیکن ایسا دردناک واقعہ پہلی بار پیش نہیں آیا۔ اس واقعے کی گونج ختم نہیں ہوئی تھی کہ فیصل آباد میں ایک بچی اور قصور میں ایک بچے سے زیادتی کی گئی۔ چند ماہ پہلے صرف لاہور میں زیادتی کے بعد قتل کئے گئے سات بچوں کی بوری بند لاشیں ملی تھیں گویا لاہور میں ہر روز ایک معصوم درندگی کا شکار ہوا۔ چند روز پہلے تھانہ منصور آباد فیصل آباد کے لوگ شیخوپورہ روڈ بلاک کرکے گیارہ سالہ بچی کی زیادتی کے بعد قتل کی گئی تعفن زدہ لاش سڑک پر رکھے مظاہرہ کررہے تھے۔تازہ واقعہ کو مثبت پہلو یہ میسرآگیا کہ میڈیا نے اس پر توجہ دی۔ سول سوسائٹی کا ابتدائی ردعمل سرد تھالیکن پھر وہ بھی متحرک ہوگئی۔ اخبارات ایسی خبروں کو یک کالمی دو کالمی اورغیر نمایاں شا ئع کرتے تھے۔ الیکٹرانک میڈیا کی تقلید میں پرنٹ میڈیا نے بھی اس واقعہ کو نمایاں شائع کیا لیکن اس ہمدردی اور خیر سگالی میں بچی اور اسکے اہل خانہ کی تفصیلات کو پوشیدہ رکھنے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ بچی اور اہل خانہ کے مستقبل کے حوالے سے ان کی سب سے بڑی خدمت یہ ہوتی کہ بچی کانام اور اہل خانہ سے متعلق تفصیلات پوشیدہ رکھی جاتیں کہ اس بچی اور اس کے اہل خانہ کو تماشہ بنانا مناسب نہیں تھا۔
سرمایہ داری کے اس عہد میں جب زیادہ سے زیادہ منافع اوربے لگام مارکیٹ فورسزکی اجارہ داری ہے فلموں کے وسیع و عریض کاروبار کے ذریعے پھیلائی جانے والی اخلاقی انارکی کو بجا طور پر ایسے واقعات کا سبب بتایا جارہا ہے۔ انٹرنیٹ جس اخلاقی انارکی کو ہوا دے رہا ہے اس سے بچنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہاہے۔ فلمیں دنیا بھر میں جنسی جرائم کا سبب بنی ہیں۔ انگریزی اور بھارتی فلموں نے ایسا طوفان کھڑا کردیا ہے جس سے ہونے والی بربادی کا کسی کو احساس نہیں۔ ہماری معاشرتی اقدار ٹوٹ پھوٹ رہی ہیں۔ سب اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوچکے ہیں۔ والدین بچوں کی سرگرمیوں پر نظر نہیں رکھتے وہ نہیں دیکھتے کہ بچے ایسی جگہ پر تو نہیں جاتے جہاں برے لوگوں میں ان کا اٹھنا بیٹھنا ہے۔ان کے علاوہ سب سے اہم اوربگاڑ کی بنیادی ترین وجہ یہ ہے کہ حکمران قطعی طور پر عوام سے لاتعلق اور غافل ہوچکے ہیں۔ ان کے روزو شب میں عوام کے کسی بھی قسم کے مسائل کے حل کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ عوام کے ساتھ کیا ہورہا ہے یہ ان کادردِ سر نہیں ہے۔ حکمرانوں کے اس رویے سے دو باتیں فروغ پارہی ہیں۔ ایک حرمت جان کی پامالی اور دوسرے لاقانونیت۔ حکمرانوں کی ہمدردی قاتلوں کے ساتھ ہے۔ لاہور میں مظلوم بچی کو درندگی نشانہ بنانے والے پکڑے بھی جائیں گے توبھی سزائے موت سے محفوظ رہیں گے کہ ہمیں یورپی یونین سے تجارت کو بھی تو فروغ دینا ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔