• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کیا سمجھتے ہیں، پچھلے دنوں اسلام آباد میں جو کچھ ہوا تھا، وہ سب اچھا تھا؟ یا کہ وہ سب کچھ برا تھا؟ اسلام آبا د میں ویسے بھی بہت کچھ ہوتارہتا ہے۔ اسلام آباد معمولی شہر نہیں ہے۔ پاکستان کا کیپٹل ہے، یعنی دارالحکومت ہے۔ لہٰذا اسلام آباد ایمبیسیز اور ہائی کمیشنز کا شہر ہے۔ اسلام آبادبیورو کریٹس کا شہر ہے۔ اکثر بیوروکریٹس کی گردن میں تکلیف رہتی ہے۔ اس لیے گرد ن گھما کر وہ ادھر ادھر نہیں دیکھتے۔ وہ ناک کی سیدھ میں دیکھتے ہیں۔ اللہ سائیں کےبخشے ہوئے ایم این ایز جو ستاروں کی گردش کی وجہ سے وزیر اور وزیر مملکت بن جاتے ہیں، ان کی طرف سے، ان کی جانب سے، ان کے کارن بیورو کریٹس ان کی وزارتیں چلاتے ہیں۔ایک لحاظ سے بیورو کریٹس پاکستان چلاتے ہیں۔ اسلام آباد شہر ہے بلڈرز کا۔ آج سے پچاس برس پہلے تعمیراتی کام ٹھیکیدار کرتے تھے ٹھیکیدار خود، بنفس نفیس راج بھی ہوتے تھے۔ خود ہی مستری ہوتے تھے، ترکھان اور بڑھئی ہوتے تھے۔ تب اسلام آباد میں پانچ سوگز کا پلاٹ پچاس ہزار روپے میں ملتا تھا۔ اب حالات وہ نہیں رہے، جو کہ پچاس برس پہلے ہوتے تھے۔ اب تعمیراتی کام بلڈر کرتے ہیں۔ وہ خود راج، بڑھئی، ترکھان اور مستری نہیں ہوتے۔ وہ ہرہنر کے کاریگروں کو اپنے ہاں ملازم رکھتے ہیں اب اسلام آباد میں پانچ سوگز کا پلاٹ پانچ سے دس کروڑ کا ملتا ہے۔ جلا وطنی کے اٹھائیس برس گزارنے کے لیے میں انیس سوچوہتر میں اسلام آباد آیا تھا۔ تب اسلام آباد کی آبادی اسی نوے ہزار کے لگ بھگ تھی۔ چرندپرند کی تعداد ا س سے کہیں زیادہ تھی۔ سورج غروب ہوجانے کے بعد اسلام آباد پر چھوٹے بڑے جانوروں کا راج ہوتا تھا۔ کانسٹیٹوشن ایونیو سے ایک بل کھاتا ہوا ٹیڑھا میڑھا راستہ ہوا کرتا تھا، اور اب بھی ہے۔ اس روڈ کا نام تھا، بلکہ اب بھی ہے، شارع جمہوریت۔تب ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی۔ مگر پھر بھی سب سے زیادہ حادثات شارع جمہوریت پرہوتے تھے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے شہر میں، میں نے اپنی زندگی کے اٹھائیس برس گزارے تھے۔رام نے چودہ برس بنواس میں کاٹے تھے۔اس کے ساتھ سیتا تھی، اس کے پاس گیتا تھی۔ میں نے اسلام آباد کے بنواس میں اٹھائیس برس کاٹے تھے۔ میرے پاس نہ سیتا تھی، نہ گیتا تھی۔ اٹھائیس برس بعد کراچی لوٹا تو دوستوں نے مجھے پہچاننے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا انکار بے معنی نہیں تھا۔ جب میں اسلام آباد بھیجا گیاتھا تب جوان تھا۔ اٹھائیس برس بعد لوٹا تو بوڑھا ہوکر لوٹا تھا۔ جب کراچی سے چلا تھا تب میرے چہرے پر داڑھی نہیں تھی۔ لوٹا تو چہرے پر گھنی داڑھی سجا کرلوٹا تھا۔ دوست مجھے پہچانتے، تو کیسے پہچانتے! اسلام آباد سے میری مافوق الفطرت یادیں وابستہ ہیں۔ ایسی یادیں منطق کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتیں، پھر بھی تجسس سے بھرپور لگتی ہیں۔ ایک ٹھگنے شخص کے سر پر ایک عجیب الخلقت پرندہ آکر بیٹھا۔ اس نوعیت کا پرندہ کسی نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اچانک ایوان صدر کا مرکزی دروازہ کھل گیا۔ تب سیانوں نے عجیب الخلقت پرندے کو پہچان لیا۔ وہ پرندہ ہما تھا۔ جس کے سر پر بیٹھ جائے اس کو حاکم وقت بنا دیتا ہے۔ ٹھگنا شخص بلا جھجک صدارتی محل میں داخل ہوا۔ ایوان صدرمیں داخل ہونے کے بعد اس نے معنی خیز مسکراہٹ سے سر پر بیٹھے ہوئے ہما کی طرف دیکھا۔ ٹھگنے شخص کی مسکراہٹ عجیب وغریب تھی۔ وہ دانت نکال کرجب بھی مسکراتا تھا، تب چالاک لومڑ لگتا تھا۔ اس نے سر پر بیٹھے ہوئے ہما کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،’’ چل اڑ جارے پنچھی کہ اب یہ محل ہوا ہے میرا‘‘۔صدارتی محل کے اندر اور باہر صفائی کا کام کرنے والے بتاتے ہیں کہ ٹھگنے صدر کا ماتھا تب ٹھنکا جب ایک رات، اور وہ اماوس کی رات تھی صدارتی محل اگربتیوں اور لوبان کی خوشبو سے مہک اٹھا تھا۔ ٹھگنے صدر نے سیکورٹی والوں کو بلایا اور ان سے پراسرار مہک کے بارے میں پوچھا۔ سیکورٹی والوں نے جوباتیں بتائیں، وہ باتیں سن کر ٹھگناصدر سکتے میں آگیا۔ گھاگ پرانے سیکورٹی عملداروں نے صدر صاحب کو بتایا کہ اماوس کی اندھیری راتوں میں ایوان صدر غیر معمولی خوشبو سے مہک اٹھتا ہے۔ چوکیداروں نےقسم کھاکر صدر صاحب کو بتایا کہ انہوں نےخود کالے لباس میں ملبوس ایک عورت کو ایوان صدر کے کاریڈروں میں دبے پائوں چلتے ہوئے دیکھا ہے۔ صدر صاحب کی تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ انہوں نے اس بدنصیب دن کو کوسا جس دن ہما ان کے سرپر آکر بیٹھا تھا۔ صدر صاحب بڑبڑائے، کاش میرے سرپر خبیث کوا آکر بیٹھتا، اس نوعیت کے بیشمار قصے میری ڈائریوں میں لکھے ہوئے ہیں۔ مگر پچھلے دنوں جو کچھ اسلام آباد میں ہواتھا، اس کی نظیر اپنے اٹھائیس سالہ بنواس کے دوران میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اسلام آباد میں جو کچھ ہوا تھا وہ سب اچھا نہیں تھا۔ وہ سب کچھ برا نہیں تھا۔ ہم سب اچھے نہیں ہوتے۔ ہم سب برے نہیں ہوتے۔ ہم کچھ کچھ اچھے ہوتے ہیں، کچھ کچھ برے ہوتے ہیں۔ مگر، دنیا کے ہر معاشرے میں برائی برداشت کرنے یا نظر انداز کرنے کی حدیں بنی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان حدود سے تجاوز کرنے کے بعد برائی جرم میں بدل جاتی ہے۔ عمران ہر لحاظ سے بین الاقوامی ہیرو ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں، ان کے حق میں لکھنے والوں کواپنے اظہار کے معیار کا پھر سے جائزہ لینا پڑے گا۔ ان کو اپنی زبان، اپنے لہجے اور الفاظ کے چنائو کا بار بار جائزہ لینا پڑے گا۔ فحش زبان اور ناجائز لہجے میں اپنے ہیرو کی حمایت دراصل آپ کے ہیرو کو ضرر پہنچاتی ہے۔ اس کی ساکھ کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتی ہے۔ موبائل فون کی بتی جلانا کھیل ہے۔ مگر سوشل میڈیا پر اظہار رائے ذمہ داری کا کام ہے۔

تازہ ترین