• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت”سیاسی اسلام“ یا اسلام کے سیاسی پہلو سے متعلق بہت سے موضوعات گردش میں ہیں۔ کچھ دھڑوں کا کہنا ہے کہ قیام ِ پاکستان میں اسلام نے اہم کردار ادا کیا جبکہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام یا اس کی من پسند تشریح کی وجہ سے پاکستان بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلی تشویش جنرل ضیا ء کے دور میں بنائے گئے توہین کے قوانین کے متعلق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستانی رسول ِ اکرم ﷺ کی شان میں کوئی گستاخی نہیں برداشت کرسکتے، چنانچہ بنائے گئے ان قوانین میں نرمی کرنے یا ان کو تبدیل کرنے کی ہر کوشش کی سختی سے مزاحمت کی جاتی ہے تاہم ہر کوئی جانتا ہے کہ ان قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات ذاتی انتقام، زمین پر قبضے یا سیاسی مقاصد کے لئے ان کا استعمال کرنے کے لئے بے بنیاد الزامات لگائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسے واقعات اسلام اور پاکستان کا نام بدنام کرتے ہیں۔ مذہب سے متعلق حساس معاملات پر پارلیمینٹ کی رہنمائی کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل تشکیل دی گئی ہے۔ یہ ایک آئینی ادارہ ہے اور اس قسم کے معاملات پر پارلیمینٹ کو مشورہ دیتا ہے۔ ماضی میں اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے مذہب سے متعلق دقیق مسائل پر کوئی مثبت اور ٹھوس تجاویز سامنے نہیں آئی ہیں تاہم اب یہ کچھ معاملات کی درستی چاہتی ہے۔ غالباً اس کی وجہ لاہور میں ایک پانچ سالہ بچی کے ساتھ درندگی کی وجہ سے پیدا ہونے والا ملک گیر اشتعال ہے… میڈیا اور شہری حلقوں کی جانب سے اس گھناؤنے واقعے میں ملوث افراد کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے آبروریزی کے حوالے سے ڈی این اے ٹیسٹ کی شہادت تسلیم کرنے کے لئے قرارداد پاس کی ہے۔ یہ ایک مثبت پیشرفت ہے کیونکہ اس سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کا موقف اس کے برعکس تھا اور وہ ڈی این اے کی شہادت کو ماننے سے گریزاں تھی۔ اس کی وجہ سے حکومت مجرموں، خاص طور پر خواتین کی آبروریزی کا ارتکاب کرنے والوں کا، ڈی این اے ٹیسٹ کرنے والی لیب قائم کرنے میں دقت کا سامنا کر رہی تھی۔ اسی طرح یہ خبر بھی خوش آئند ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اس امر کو تسلیم کرتی ہے کہ جتنی سخت سزا توہین ِ رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کو دی جائے، اتنی ہی اس کا جھوٹا الزام لگانے والوں کو بھی دی جائے۔ چنانچہ اس ماحول میں جبکہ عوام ،خاص طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کا موڈ تبدیل ہورہا ہے، حکومت کو چاہئے کہ وہ ان قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے ان کے غلط استعمال کا راستہ روک دے۔ ایک اور توجہ طلب مسئلہ ملک بھر میں اسکولوں اور کالجوں میں مذہب،خاص طور پر اسلام کی تعلیم سے متعلق ہے۔ جنرل ضیاء کے دور سے ہماری نصابی کتب اسلام کی ایسی تشریح کرتی ہیں جس سے جہادی تصورات کی آبیاری ہو سکے۔ یہ اسلام کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے مترادف ہے۔ کئی برسوں سے اس طرز ِ فکر نے ہمیں ان حقائق کا ادراک کرنے کے قابل نہیں چھوڑا جس کا ملک و قوم کو سامنا ہے۔ اس کی وجہ سے ہماری معیشت گراوٹ کا شکار ہے، ہمارا قانونی نظام مفلوج ہوچکا ہے، ہمارا معاشرہ تشدد کی آگ میں جل رہا ہے اور ہم قوموں کی برادری میں تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے نصاب ِ تعلیم کو جدید بنانے کی تمام کوششوں کی معاشرے میں موجود دقیانوسی سوچ رکھنے والے طاقتور مذہبی دھڑے سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ان دھڑوں کے سامنے اپنے ذاتی سیاسی مقاصد ہوتے ہیں۔
اس ضمن میں دو کییس حالیہ دنوں میں سامنے آئے ہیں ۔ پہلے کیس میں عمران خان کی پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں اے این پی کی سابقہ حکومت کی طرف سے نصاب ِ تعلیم کو تبدیل کرتے ہوئے اس میں جدت لانے کی کوشش پر پانی پھیرتے ہوئے اس میں دوبارہ جہادی تصورات اور مذہبی بنیاد پر اچھائی اور برائی کے معیار کو شامل کر دیا ہے۔ دوسری کوشش میڈیا کے ایک حلقے کی طر ف سے سامنے آئی ہے۔ یہ حلقے تعلیمی اداروں میں ”ہم عصر مذاہب “ میں موجود انسانی عظمت، ہمدردی اور بھائی چارے کے تصورات کی تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کی حکومت پر مالی بدانتظامی اور بدعنوانی کے الزامات ہیں، اس لئے وہ ان سے توجہ ہٹانے کے لئے اسلام کو سیاسی مقاصد کے لئے برتنے کا پرانا حربہ استعمال کر رہی ہے۔ طالبان کے سامنے بزدلی دکھانے اور اسلامی تصورات کو نصابی کتب کا حصہ بنانے کے نتیجے میں اسے جماعت ِ اسلامی، جو پاکستان میں کبھی بھی ایک مقبول سیاسی جماعت نہیں رہی، کے ساتھ الحاق کرنا پڑا۔ پی ٹی آئی کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ عمران خان اپنے تمام تر اچھے تصورات کے باوجود یہ نہیں جانتے کہ وہ کیا نہیں جانتے ہیں… گویا وہ اپنی کم علمی سے لاعلم ہیں۔
میڈیا کے کچھ حلقوں کی طرف سے ہم عصر مذاہب کے انسانی تصوارت کی مخالفت بھی ایک پریشان کن مسئلہ ہے۔ دراصل میڈیا میں آنے والا تازہ خون ، نوجوان صحافی، اسی نظام ِ تعلیم کی پیداوار ہے جو جنرل ضیاء کے عدم برداشت کے فلسفے کی ترویج کرتا ہے چنانچہ یہ نوجوان خود کو دوسروں سے نیک اور ارفع سمجھنے کے گمان کا شکار ہیں۔
نوبل انعام یافتہ امریتا سن کی کتاب ”singular identity and violence“ پڑھنے کے لائق ہے۔ اسے تمام اسکولوں اور کالجوں میں پڑھایا جانا چاہئے۔ یہ کتاب وضاحت کرتی ہے کہ آج کے گلوبل ویلج میں قومی اور مذہبی عصبیت تشدد اور عدم استحکام کا باعث ہیں۔ اب ایک ایسی دنیا قائم ہونے جارہی ہے جس میں کوئی قوم بھی تنہائی میں اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکے گی۔ اس دنیا میں سب کو ”دہری شہریت “ اختیارکرنا پڑے گی۔ مثال کے طور پر ماں، باپ، بھائی ، بہن، بیوی، شوہر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شخص بیک وقت پیشہ ور، جیسا کہ ڈاکٹرز، وکلاء، استاد، ڈرائیور، سیاست دان بھی ہے۔ بالکل اسی طرح اس نئی دنیا میں ہم مسلمان بھی ہیں اور اس عالمی معاشرے کا حصہ بھی۔ جتنی جلدی پاکستانی اس حقیقت کی تفہیم کرلیتے ہیں، اتناہی بہتر ہے۔
تازہ ترین