عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اِس وقت 34فیصد لوگ غربت کا شکار ہیں۔ملکی معیشت کو لاحق خطرات کے تناظر میں آئندہ مالی سال میں شرح نمو میں مزید کمی کا خدشہ ہے جبکہ تیل اور غذائی اجناس کی بڑھتی قیمت کے باعث غریب عوام کی قوتِ خرید میں مزید کمی واقع ہو سکتی ہے۔ایسے معاشی حالات کے پیش ِنظر پاکستان میں ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی ایسا منصوبہ یا پروگرام شروع کیا جا سکے جس کے تحت غریب عوام کی کچھ تو داد رسی ممکن ہو۔ اِس مقصد کیلئے پیپلز پارٹی نے اپنے 2008سے2013تک کے دورِ اقتدار میں بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کا اجرا کیا تھا جس کے تحت غریب اور بیواؤں کو ماہانہ کی بنیاد پر ایک معقول رقم فراہم کی جاتی تھی تاکہ اُن کا گزر بسر ہو سکے۔ پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ حکومتوں کے بنائے گئے جن بیشتر منصوبوں کے نام تبدیل کر کے کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی اُنہی منصوبوں میں ایک بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام بھی ہے جس کا نام تبدیل کر کے ’’احساس پروگرام‘‘ رکھا گیا۔ اب وفاقی حکومت نے احساس پروگرام کا پرانا نام ’’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ شازیہ عطا مری کا اِس حوالے سے کہنا تھا کہ احساس پروگرام کی کوئی قانونی یا آئینی حیثیت نہیں ہےجبکہ بی آئی ایس پی پارلیمنٹ کے ذریعے متعارف کروایا گیا تھا۔بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کی بحالی خوش آئند ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس پروگرام سے متعلق پایا جانے والا ابہام فی الفور ختم کیا جائےاور حکومت کی اِس رفاہی منصوبے کے حوالے سے اولین ترجیح سیاست کی بجائے مستحق لوگوں تک اِس کی رسائی ہونی چاہیے، تبھی حقیقی معنوں میں یہ پروگرام فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998