• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس نے جوانی ہی میں اپنے تمام گفت و ناگفت شوق پورے کر لئے تھے۔بقول اس کے وہ ساری دنیا دیکھ چکا تھا اور جتنا وہ مغرب کو جانتا تھا اتنا جوبائیڈن بھی نہیں جانتا تھا۔ اسے بڑے گھر کی خاتون سے شادی کرنے اوربڑے گھر میں رہنے کا شوق تھا۔ اس لیے دونوں شوق پورے کیے، شادی بڑے خاندان میں کی اور اسلام آبادمیں ایک پہاڑلے کراس پر محل بنایا جس نے اسے سرمایہ فراہم کیا،وہ اس کی بارہ برس تک بیوی رہی اور اس کو خود نت نئے ڈیزائن کے کپڑوں میں تصویریں اترواتے اور سیاست میں لقمہ لقمہ کر کے ڈرتے ڈرتے آگے بڑھتے دیکھ کر، بیوی نے رختِ سفر باندھا اور اپنے والدین کے گھر میں دو بچوں کے ساتھ زندگی گزارنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ اس کے کان میں بھنک پڑی کہ ایک اور عورت سے اس کی بچی ہے، جسے وہ نظر انداز کر رہا ہے۔ اس فرشتہ صفت عورت نے اس بچی کو ماں بن کر اپنے پاس بلا لیا۔

ادھروہ وطن میں سیاسی سرگرمیوں میں مشغول رہا اورسیاست کے اسباق سیکھتا رہا۔ پھراس نے ٹرک پر کھڑے ہو کر اعلان کیا، مجھے جلدی جلدی کا میاب کرائو، مجھے شادی کرنی ہے، ایک شاطر خاتون نے جب یہ سنا تو اپنا جال پھینکا، کچھ دنوں بعد وہ اپنے تینوں بچوں اور اس کے کتے سمیت غیر ملکی رسالوں کے ٹائٹل پر تھی۔ بہت سے لوگوں کو چونا لگانے کے بعد اس کے جی میں آئی کہ صحافت میں بھی قدم رکھوں۔ دعوت نامہ مانگ کر لندن پہنچی کہ اس دوران بغل بچوں نے اس کی کارستانیوں پر سے پردہ اٹھادیا۔ کم ہمت تو تھا ہی۔میسج کے ذریعے طلاق بھیج دی ۔اس شاطر خاتون نے اپنی عاقبت یعنی مالی عاقبت سنوارنے کے بعد، عالی شان ٹھکانوں پر رہ کر وہی رومانوی طرز کی ناول نما کتاب تیار کروائی اور یوں بدلہ لینے کی کوشش کی۔ اب وہ ایک اور ذائقہ چکھ چکا تھا۔ پیری مریدی کے شیشے میں اتر گیا کہ چاروں طرف اک آواز گونج رہی تھی کہ اس کا ارمان مع پانچ بچوں کے اس نے سرخ گھونگٹ میں چھپا کے، پورا کیا اور بنی گالا میں ایک انگوٹھی اور تسبیح لے کر سب سے بڑے عہدے پر متمکن ہوا۔ ابھی شاید ایک ارمان باقی تھا ۔طلسمی اڑن کھٹولے کے بارے میں اسے کسی نے بہت کچھ سنایا تھا۔ وہ روز سوچتا، وہ کہاں سے حاصل کروں۔ چمچوں نے اس کو سمجھایا کہ اپنی زندگی عزیز ہے تو گھر سے دفتر، ہر چند دس قدم کا فاصلہ ہے مگر زمین پہ پیر نہ رکھنا۔ دشمنوں کو خبر بھی نہ ہوا اور تم روز ہیلی کاپٹر جھولائو، سرکاری فائلیں، ہم خود دیکھ لیں گے تم اپنی رضا سے رات اور دن گزارا کرو۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ یہ تو اس نے دیکھ ہی لیا تھا کہ اس ملک میں چاہے جتنا مال کمائو ۔بس یہ ایسی شداد کی جنت ہے جس کا پتہ حسن بن صباح کو بھی نہیں چلا۔ بعد میں کہانیاں بنانے کو تو لوگوں نے (معاذ اللہ) نبیوں کو نہ چھوڑا۔ تم تو ایک کھلاڑی ہو۔اسے یہ خبر نہ تھی کہ سیاست میں آکر وہ افتخار عارف کی نظم کا عنوان ،یعنی بارہواں کھلاڑی‘ سن کر باہر ہو گا۔ جن میں کسی اور چال چلنے کی سکت نہ رہی، وہ ڈھول پیٹنے کو بندر کا تماشا کرتے رہے۔ لاہور تو ہے ہی میلوں کا شہر وہ کب کسی کا ہوا تھا۔ بھگت سنگھ سے خضرحیات تک سب تاریخ کے صفحوں پر موجود تھے۔وہ روز ہنڈولے میں آتا جاتا رہا کہ اچانک نئی وزیر نے کہا کہ ایک ارب روپے کا خرچہ صرف ہیلی کاپٹر میں کر کے یوسف بے کارواں ہوگئے۔

گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے،نورتن اکٹھے ہوئے۔ ضعیفوں کا ہاتھ سیاسی نو ٹنکی نے پکڑا۔ وہ جو لندن میں بیٹھا تھا، زندگی بھر بھی کسی کی بات پر دھیان نہیں دیتا تھااور محمد رفیع کو سنتا رہتا تھا۔ وہ دو دن بیٹھا سنجیدگی کو اوڑھے رہا۔ قلم نے ٹوکا اور کہا تم کہانی سرخ ،سفید اور کالے رنگوں کے ساتھ مع برقع شامل ہونے والے کردار کو بیچ ہی میں چھوڑ بیٹھی ہو۔ مجھ ناتواں کو یہ بوجھ اس نے اٹھانے نہیںدیا۔ وہ اپنے بچوں کی ماں تھی۔ مائیں اپنے بچوں کی خاطر کیا کچھ نہیں کرتیں اور اس وقت تو وہ دونوں جہانوں کو اپنے ہاتھوں میں سمیٹے تھی۔ جو بس چلا اور جتنا بس چلا۔

درویش کی طرح گٹھڑی اٹھائے چل دی۔ دن گزارنا اب پہاڑ لگتا کہ چاروں کونوں سے طوفان پکڑے دشمنوں کی فوجیں محل کوہلانے کو آگے بڑھ رہی تھیں۔ جسٹس منیر کے 60برس بعد، عدالتیں بھی اصحابِ کہف کی طرح نیند سے جاگیں۔ ابھی قدرت نے ایک ہی تھپڑ مارا تھا کہ شیطان نے سارے پردے کھول دیے اور وہ سب جو کسی اور کشتی میں سوار نہ ہو سکے طوفانِ نوح بھی نہ سہہ سکے۔ عجب مخمصے میں تھے، گاڑیاں بھی واپس نہ کر رہے تھے، ایوان صدر میں کفایت شعاری مہم میں سوائے سربراہ کے باقی اشیاء نیلامی میں دے دی گئیں۔

اب سوشل میڈیا ہے اور وہ ہیں۔ ویلے پاکستانی خوش ہیں کہ ان کے پیغامات پڑھ رہا ہے،نئے نعرے ایجاد کر رہا ہے۔ اور نئی بساط پہ مہروں کو آئی ایم ایف کے سامنے گڑگڑاتے دیکھ کر کھسیانی ہنسی کے ساتھ کہہ رہا ہے اور بچو جی! اب روکو روکو تیل کی قیمتیں، مت بولو یوکرین میں دو ماہ سے جاری خونریزی پر، میں نہ کہتا تھا ہم آزاد نہیں۔ ہم مغرب کی غلامی میں ہیں۔

بہرحال ،جیسے افغانستان کےراستے ،ہندوستان پر مغلوں کی فوجیں چڑھ کے سونے کی چڑیا کے پر نوچتی تھیں۔ میرے سامنے وہی لاہور والے ہیں،جنہوں نے کبھی ایوب کو ایک جانور سے تشبیہ دی، کبھی شہر لاہور میں بھٹو کو پھانسی لگنے کے بعدبھی کچھ نہ ہوا۔ جس شہر نے چار سو سوٹ کیسوں کے ساتھ شریف گھرانے کی رخصتی کو بے جا نہ کہا۔ اب اسی گھرانے کو براجمان دیکھ کر،نئی تختیاں لگانے والوںکو کوسنے کے سوا اور کچھ جھولی میںنہیں ہے۔

تمہیں ابھی تک ہر طرح کے سامانِ عشرت لینے کی عادت تھی، یہ تو بتائو وہ کہاں ہیں جو امریکہ اور انگلینڈ سے آئے تھے؟کیا وہ اپنے ٹھکانوں پر واپس چلے گئے؟

تم نے ایک پکا سہارا ڈھونڈا ہوا ہے۔ تمہیں اسپتال بناتے دیکھ کر، سارے پاپ میوزک والوں نے بھی یہی کام سیکھ لیا ہے۔ ’’لگے رہو منا بھائی ‘‘ابھی ذرا سستا لو ،دھوپ ،بہت سینک لی، اب راتوں کو الو کی بھی آواز سنائی نہیں دے رہی ہو گی۔ بہادر شاہ ظفر کی زندگی کی کتاب لیٹ کر پڑھا کرو۔ پہلے تم نے جاپان اور جرمنی کو ملایا تھا۔ اب ریاستِ مدینہ کو فرات کے کنارے دکھا رہے ہو۔ تم وہی ہوجس نے سیرت کا مطلب پوچھا تھا، اب کچھ سمجھ میں آیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین