کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور اساتذہ کی وین پر ایک روز قبل ہونے والا خود کش حملہ پریشان کن ہونے کے علاوہ پاک چین تعلقات کو متاثر کرنے کی واضح کوشش دکھائی دیتا ہے۔ اس حملے میں تین چینی اساتذہ ہلاک اور ایک زخمی ہوا جب کہ ایک پاکستانی شہری بھی جاں بحق ہوا۔ یہ پاکستان میں چینی مفادات یا سی پیک پر کام شروع ہونے کے بعد پہلا حملہ نہیں ہے مگر اس خودکش حملے کا انداز اور ہدف ماضی کی نسبت مختلف تھا خصوصاً یہ کہ پہلی بار ایک خاتون نے خودکش حملہ کیا اور اطلاعات ہیں کہ وہ دو بچوں کی ماں بھی تھی۔ اس سے قبل کراچی میں چینی قونصلیٹ پر بھی حملہ ہو چکا ہے مگر حالیہ حملے میں بےگناہ چینی اساتذہ نشانہ بنے۔ وزیراعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سمیت اعلیٰ حکام نے دہشت گردوں کو نشانِ عبرت بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے، تاہم، چین نے واضح طور پر کہا ہے کہ چینی شہریوں کا خون رائیگاں نہیں جانا چاہئے۔ چینی وزارتِ خارجہ نے اس واقعے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حملے کے ذمہ داروں کو پکڑ کر قانون کے مطابق سزا دی جائے اور پاکستان میں چینی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔ اس حملے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی سیکورٹی اداروں کو غیرملکی شہریوں کی سیکورٹی کو فول پروف بنانے کیلئے غیرمعمولی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ خیال رہے کہ نومبر 2018میں چینی قونصلیٹ پر حملے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بی ایل اے (مجید بریگیڈ) نے قبول کی تھی جس کے بعد اگرچہ پاکستانی سیکورٹی فورسز نے فوری ردِعمل ظاہرکیا تھا تاہم، اس تنظیم کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس حملے میں بھی یہی تنظیم ملوث ہے اور اس کے کام کرنے کا طریقہ کار دوسرے بلوچ عسکریت پسند گروہوں سے زیادہ شدت پسندانہ ہے لہٰذا اس سے نمٹنے کیلئے ریاستی اداروں کو مربوط پالیسی تشکیل دینا ہو گی تاکہ اس نوعیت کے دہشت گرد حملوں کا مستقل سدباب ہو سکے۔