• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منظور رضی

آج سے ٹھیک 136؍ سال قبل امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں محنت کشوں نے اپنے اوقات کار مقرر کروانے کیلئے اپنی جانوں کانذرانہ دیتے ہوئے 8؍ گھنٹے اوقات کار مقرر کروائے تھے جبکہ ہمارے ملک میں آج بھی مزدور 12؍ اور 16؍ گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں آج ملک میں سیاسی بحران ہے عمران حکومت ختم ہوچکی ہے ملک کے نئے وزیراعظم شہباز شریف تحریک عدم اعتماد کے بعد وزیراعظم بن چکے ہیں رمضان کے آخری دن میں شاید تین مئی کو عید منائی جائے گی ہم یکم مئی شاید چاند رات کو منارہے ہوں گے اور شکاگو کے مزدوروں کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔

 دوسری جانب یورپ میں مزدور 6؍ گھنٹے اوقات کار بہتر تنخواہ یا اجرت کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ یکم مئی کو دنیا بھر کے محنت کش اپنے اپنے ملکوں میں شکاگو کے ان محنت کشوں کی یاد میں جلسے جلوس، سیمینار اور ریلیاں نکال کر اس عہد اور عزم کااظہار کرتے ہیں کہ جب تک دنیا سے استحصال نظام کا خاتمہ نہیں ہوجاتا ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ ویسے مظلوموں، محنت کشوں، محکوموں، غریبوں ، غلاموں کی بڑی طویل اور کٹھن صبر آزما جدوجہد صدیوں سے جاری ہے اورآج بھی جاری ہے ۔

18؍ ویں اور 19؍ ویں صدی میں تقریباً مزدور طبقہ وجود میں آگیا تھا اور منظم بھی ہونا شروع ہوگیاتھا یہ وہ دورتھاجب کوئلے اور بھاپ سے چلنے والے انجن اور کارخانے مشینی دور میں داخل ہونا شروع ہو گئے تھے، بڑے کم معاوضے پر مزدوروں سے جبری مشقت اور بیگار لی جاتی تھی بلکہ ان کو کارخانوں ہی میں بند کردیا جاتا تھا۔ اس سے قبل 1783ء اور 1789ء میں فرانس میں ایک انقلابی تبدیلی آچکی تھی جسے پیرس انقلاب یا پیرس کمیون بھی کہا جاتا ہے کارل مارکس کےنظریات پھیل رہے تھے۔ 

اینگلز کادور تھا داس کیپٹل نامی کتاب پورے یورپ میں آچکی تھی۔ کارل مارکس 1883ء میں دنیاچھوڑ گئےتھے اسی دوران میں محنت کشوں نے انجمن سازی بھی ہورہی تھی، محنت کشوں کے لئے کوئی قانون نہیں تھا نہ اوقات کار تھے۔ رات گئے تک کام کرنا پڑتا تھا، حادثے اور موت کی صورت میں کوئی معاوضہ بھی نہیں ملتا تھا، یورپ میں نئی نئی صنعتیں لگ رہی تھیں سائنس بھی ترقی کررہی تھی، کارخانوں، فیکٹریوں اور ملوں کا جال بچھایا جارہا تھا مزدور طبقہ بپھر رہا تھا اور مشین سازی کی طرف بڑھ رہا تھا سب سے پہلے برٹش راج میں برطانیہ میں مزدوروں نے جدوجہد کی یونینز بنائی، فیڈریشن بنائی، کمیونسٹ لیگ پہلے ہی بن چکی تھی اس سے قبل بھی محنت کش مختلف اشکال میں جدوجہد کرتے رہے تھے مگرجوکام شکاگو کے محنت کش 1886ء میں کرگئے وہ رہتی دنیا تک یاد رہےگا۔

136؍ سال قبل ایسےمزدور رہنما پیدا ہوگئےتھے جنہوں نے شکاگو میں پہلی مکمل ہڑتال کرکے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرکے مزدور تحریک کو ایک نیا رخ دیکر محنت کشوں کا سر فخر سے بلند کردیا تھا۔ یہ واقعہ شکاگو کی مشہور زمانہ ’’حے‘‘ (HAY) مارکیٹ کے قریب پیش آیا ان محنت کشوں نے اس وقت کے حکمرانوں، مل مالکوں، کارخانہ داروں، سرمایہ داروں کو للکارتے ہوئے کہاتھا کہ ’’ظالم حکمرانو! ہم بھی انسان ہیں ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق دو، ہمارے اوقات کار مقرر کرو، ہماری تنخواہوں میں اضافہ کرو، ہمیں روزگار دو‘‘ وہ نعرے لگارہے تھے ’’دنیا بھر کے مزدور ایک ہوجائو‘‘ وہ بلا رنگ ونسل و مذہب ایک تھے ’’گو کہ وہ عیسائی یا یہودی تھے مگر حکمران اور مل مالکان بھی اسی نسل کے تھے‘‘ پورا صنعتی شہر جام ہوگیا، ملوں اورکارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہوگیا تھا۔ دنیا میں یہ پہلا موقع تھا جب محنت کرنے و الوں نے اپنے اتحاد کے ذریعے علم بغاوت بلند کردیاتھا۔ یکم مئی 1886ء کو صبح ایک مزدوروں کے اخبار میں کسی گمنام صحافی نے اپنا انقلابی فرض ادا کرتے ہو ئے صفحہ اول پر تحریرکردیا تھا جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

’’مزدورو تمہاری لڑائی شروع ہوچکی ہے، فیصلہ تو آنے و الا وقت کرے گا، آگے بڑھو، اپنے مطالبات منوانے کے لئے اپنے اوقات کار کے لئے جدوجہد جاری رکھنا، حاکموں کو جھکنا پڑے گا جیت اور فتح تمہاری ہوگی، ہمت نہ ہارنا، متحد رہنا اسی میں تمہاری بقا ہے اس میں تمہاری فتح ہے، لڑتے رہنا، مطالبات کی منظوری تک ، مزدور اتحاد زندہ باد‘‘ صحافی کی اس تحریر نے محنت کشوں میں مزید جذبہ اور ابھار پیدا کردیا اور انہوں نے زوردار نعرے کے ساتھ 8؍ گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ کردیا اور یوں پہلی مرتبہ 24؍ گھنٹوں کو کچھ اس طرح تقسیم کیا گیا، ہم 8؍ گھنٹے کام کریں گے، ہم 8؍ گھنٹے آرام کریں گے، ہم 8؍ گھنٹے اپنے اہل خانہ اور بیوی بچوں میں گزاریں گے۔ 

حکمرانوں! مل مالکوں! سرمایہ داروں! کو محنت کشوں کا یہ نعرہ اور اتحاد پسند نہ آیا اور انہوں نے محنت کشوں کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہو ئے ان پرگولیوں کی بوچھاڑ کرد۔ نہتے، کمزور اور پرامن محنت کشوں کو لہو لہان کردیا۔ شکاگو کی سڑکوں پر مزدوروں کا خون بہنے لگا، محنت کشوں کا امن کا سفید پرچم سرخ ہوگیا۔ ایک محنت کش کی قمیض لہو سے سرخ ہوگئی پھر انہوں نے لہو میں ڈبوئے ہوئے سرخ پرچم کو ہی اپنا پرچم بنالیا اور فیصلہ کیا کہ اب یہی سرخ پرچم ہمارا جھنڈا ہوگا ہم اس وقت تک کام پر نہیں جائیں گے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے۔ 

سرخ پرچم ہی ہمارا پرچم ہوگا اس وقت سے محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کئے اور پہلی مرتبہ 8؍ گھنٹے اوقات کار تسلیم کئے گئے۔ اس موقع پر محنت کشوں کے سرکردہ رہنمائوں فشر، انجیل، پیٹرسنز اور اسپائز سمیت 7؍ رہنماؤں پر مقدمہ چلایا گیا اور چار رہنمائوں کو پھانسی کے پھندے پر چڑھایا گیا۔ یہ رہنما دنیا سے تو چلے گئے مگر اپنا نام اپنا کام اور اپنی تحریک چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے، ان رہنمائوں نے پھانسی کے پھندے پرچڑھنے سےپہلے کہا تھا۔ حاکمو! غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو نہیں تو پھرا ن کی تلواریں بلند ہوں گی (اسپانسر) جب کہ ایک اور ساتھی نے کہا تھا کہ ’’ہم نیک مقصد کے لئے جان دے رہے ہیں، ہمارا قافلہ آگے بڑھے گا‘‘

بعد ازاں دنیا بھر میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ 1917ء میں روس میں انقلاب آیا پھر چین میں انقلاب آیا اور اب لاطینی امریکا کے ممالک سمیت مشرق وسطی میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔ خود یورپ میں بڑی تبدیلی آئی ہےمحنت کشوں نے کئی ایک مراعات حاصل کرلی ہیں وہاں 6؍ گھنٹے اوقات کار ہیں۔ تعلیم، صحت اور رہائش گاہ میسر ہے مگر ہمارے ملک میں آج بھی 12؍ اور 16؍ گھنٹے کام لیاجاتا ہے۔ 

ملک میں بھوک، غربت، جہالت، بیروزگاری عام ہے خودکشی کا رجحان عام ہے پاکستان میں محنت کشوں کے حقوق غصب کئے جارہے ہیں۔ ٹریڈ یونین تحریک کمزور ہوکردم توڑ رہی ہے بلکہ اب تونظریاتی ٹریڈ یونین ختم ہوتی نظر آرہی ہے، پاکستان میں عام مزدوروں اور کسانوں کو انجمن سازی کا حق ملنا چاہئے ۔ آئیے ہم عہد کریں کہ یکم مئی 1886ء کے محنت کشوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یکم مئی 2022ء کو ایک نئی تاریخ رقم کریں۔