حالات نت نئے رخ اختیار کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو وزیر خارجہ بن گئے اور ان کے اس منصب پر فائز ہونے کے بعد بین الاقوامی دنیا کو یہ پیغام واضح طور پر چلا گیا کہ موجودہ حکومت اور جو حکومت اس کے بعد بھی قائم ہوگی اس کی خارجہ پالیسی میں ایک تسلسل ہوگا۔ کیوں کہ مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف جیسی کوئی بونگی دوبارہ نہ ماری گئی تو یہ امر یقینی ہے کہ اگلی حکومت بھی مسلم لیگ نون یا پیپلز پارٹی کی ہی ہوگی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت خارجہ محاذ پر کیا مشکلات اور معاملات وطن عزیز کو درپیش ہیں اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے کیا حکمت عملی درکار ہے۔ مگر اس سے قبل میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی 15 اگست 2007 کو کونسل آن فارن ریلیشنز میں کی گئی تقریر سے ایک اقتباس نقل کرنا چاہوں گا، انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ
"I Find That my Country , Pakistan, is once again in a crisis, And it's a crisis threatens not only my nation and region, but possible could have repercussions on the entire world"
بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ اس لمحے محترمہ بے نظیر بھٹو نے جن مسائل کا ذکر کیا تھا کہ جو پاکستان اور خطے کے لیےصرف خطرناک نہیں تھے بلکہ عالمی برادری کا بھی اس سے متاثر ہونے کا خطرہ موجود تھا وہ صورتحال آج بھی موجود ہے اور اسی نوعیت کے معرکے ابھی ہمیں درپیش ہیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے میری کافی ملاقاتیں رہیں اور ای میلز پر بھی رابطہ رہا جو میرے پاس محفوظ ہیں۔ انہوں نے ایک ملاقات میں میرے ایک سوال کا جو جواب دیا تھا وہ بلاول بھٹو کے لیے بطور وزیر خارجہ مشعل راہ ہوگا۔ انہوں نے مجھے کہا تھا کہ ’’پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سفارتکاری کے وہ طریقے استعمال کر رہے ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد بتدريج متروک ہوتے چلے گئے ہم بیوروکریٹ سفارت کاروں پر انحصار کرتے ہیں وہ فائل ورک تو کر سکتے ہیں۔ لیکن بطور پالیسی ساز ان میں اہلیت موجود نہیں ہوتی البتہ وہ حکمران کے قریب ہونے کی وجہ سے پالیسی سازی پر اثر انداز بلکہ بسااوقات سیاسی نوعیت کے عہدے بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اسی سبب سے سفارتکاری میں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں‘‘ ۔ پاکستان کی روایتی سفارتکاری نے کبھی وہ کامیابی حاصل نہیں کی ہے جو غیر روایتی سفارتکاری سے حاصل کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں نواب مظفر علی خان قزلباش کو فرانس میں پاکستان کا سفیر لگا دیا گیا جو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔ وہ سیاسی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ نہیں تھے مگر پاکستان کی خاطر دونوں نے اس اختلاف کو پس پشت ڈال دیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نواب مظفر قزلباش ایٹمی پلانٹ کا معاہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جو پاکستان کی سفارتی تاریخ میں ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس وقت بھی ایسے ہی افراد کی ضرورت ہے جو واشنگٹن، بیجنگ، دوحہ ، ریاض، تہران، نئی دہلی اور یورپ کے اہم ممالک میں جب چاہیں اپنی بات پہنچا دیں اور ان ممالک کے کرتا دھرتا بھی ان کی بات کو اہمیت دیں۔ یہ صلاحیت بیوروکریٹ سفارتکاروں میں ممکن نہیں وہ صرف حکمرانوں کے سامنے اپنی چرب زبانی کا بھرپور استعمال کر سکتے ہیں اور اسی عمل کو مستقل طور پر بدلنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر ہم نے سفارت کاری کے موجودہ طرز کو تبدیل نہ کیا تو ہمارے لیے درپیش چیلنجوں سے مقابلہ کرنا خاصا مشکل ہو جائے گا۔ جیسے افغانستان گزشتہ پچاس سال سے مستقل طور پر ہمارے لیے ایک درد سر بنا ہوا ہے۔ افغان طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد ہمارے فوجیوں کی شہادتوں میں نمایاں طور پر اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جو صرف فوجیوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا دائرہ اثر بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ پھر بھارت جیسے جیسے معاشی استحکام کی طرف بڑھا تو اس کا رویہ مکمل طور پر ہٹلرانہ ہوتا چلا گیا۔ خاص طور پر اگست 2019 کے اقدامات اور اس پر عمران حکومت کے مجرمانہ طرز عمل نے اس کو مزید ہلہ شیری دیدی۔ کمال یہ ہوگا کہ ایسے حالات دنیا میں پیدا کر دیے جائیں اور دنیا میں یہ تاثر قائم کردیا جائے کہ ہم تو بھارت سے بات چیت کے لیے تیار ہے مگر وہ اپنے گھمنڈ میں امن کی جانب راغب نہیں تو وہ عالمی دباؤ کو برداشت نہیں کر سکے گا اور اسے مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا کیوں کہ ترقی صرف امن سے مشروط ہے۔ اسی طرح سے مسلم ممالک میں ریاض انقرہ اور تہران میں توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے کسی ایک بھی برادر ملک کو یہ محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ ان کی قیمت پر دوسرے سے تعلقات کو پڑھایا جا رہا ہے۔ پاکستان کے داخلی حالات میں یہ سب کرنا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ،اگر ناممکن کو ممکن بنانے کا فن آتا ہو۔ جہاں تک امریکہ کی بات ہے تو جذباتی نعروں کو اپنے حق میں استعمال کرنا ایک طرف مگر اس کی حیثیت پوری دنیا میں مسلمہ ہے اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ وہ بات کو سنتے بھی ہیں اور سمجھ بھی سکتے ہیں اگر سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ یہ تمام پہاڑ جیسے مسائل سامنے کھڑے ہیں جن کو عبور کرنا ہی معاملات کو حل کرنا ہوگا۔