چیف جسٹس عمر عطا بندیال کاکہنا ہے کہ اسپیکر رولنگ سے متعلق 12ججز نے کہا کہ آئینی معاملہ ہے تب ازخود نوٹس لیا، ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ ازخود نوٹس کا اختیارکسی کی مرضی سے استعمال نہیں ہوتا، ججز پر مشتمل بینچز چیف جسٹس سےدرخواست کرتے ہیں اور ازخود نوٹس لیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ صدارتی ریفرنس کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
ریفرنس کی آج کی سماعت میں مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان کو دلائل دینے تھے تاہم ان کے معاون وکیل عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ مخدوم علی خان ملک میں موجود نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ ریفرنس کے ساتھ آئینی درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں، نہیں چاہتے کہ ریفرنس پر رائے میں مزید تاخیر ہو۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ مخدوم علی خان بیرون ملک سےکب واپس آئیں گے؟ مخدوم علی خان نے 17 مئی کو کیس سماعت کے لیے مقرر کرنے کا کہا تھا، معاون وکیل نے بتایا کہ 15 مئی کی شام وہ واپس آئیں گے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ نئے اٹارنی جنرل آ رہے ہیں؟ انہوں نے جواب میں بتایا کہ اٹارنی جنرل کی تعیناتی کے کچھ معاملات باقی ہیں، نئے اٹارنی جنرل آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے نوٹس میں چند باتیں لانا چاہتا ہوں، آرٹیکل 63 اے کےتحت منحرف اراکین کیخلاف ریفرنسز الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہیں، الیکشن کمیشن منحرف اراکین سے متعلق 30 دن میں فیصلہ دے گا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایک جماعت نےمنحرف اراکین کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو اس بات کا علم ہے کہ الیکشن کمیشن میں ریفرنسز زیر التوا ہیں، سپریم کورٹ کے پاس وقت ہے نہ گنجائش کہ ہر منحرف رکن کیخلاف الگ الگ 5 ممبرز بینچ سماعت کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے آئین کا حصہ ہے اور آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے، آئین کی تشریح سپریم کورٹ کرسکتی ہے اور کرے گی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے پی ٹی آئی وکیل بابر اعوان سے کہا کہ جتنی مرضی تنقید کرلیں، آئین کا دفاع کرتے رہیں گے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کی بے توقیری کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے، یاد رکھیں سب متاثرہ فریقین نے سپریم کورٹ ہی آنا ہے، جو فیصلہ پسند نہ آئے اس پر تنقید کی اجازت نہیں دیں گے۔
وکیل پی ٹی آئی بابر اعوان کا کہنا تھا کہ عدالت کا بڑا ادب اور احترام ہے، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کاش یہ ادب اور احترام عام لوگوں میں بھی پھیلاتے، لوگوں کو یہ بھی بتائیں کہ عدالت رات کو بھی کھلتی ہے، بلوچستان ہائیکورٹ رات ڈھائی بجے بھی کھلی تھی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے دائرپٹیشن پرفریقین کونوٹس جاری، دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح آئندہ نسلوں کے لیے کرنی ہے، پی ٹی آئی نے منحرف ارکان کےخلاف جوریفرنس کیا اس سے ہمیں غرض نہیں ۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر اپنی جماعت کےخلاف جانا باضمیر ہوناہے تو بھی استعفیٰ ہی دینا چاہیے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ تنقید کے باوجود مسکراہٹ کے ساتھ سب کو سنیں گے۔
وکیل مسلم لیگ ق نے کہا کہ افواہ ہےحکومت نئےاٹارنی جنرل کی تعیناتی کے بعد صدارتی ریفرنس واپس لےگی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یقین ہےکہ وفاقی حکومت ریفرنس کی اہمیت سے واقف ہوگی اور ریفرنس کی تشریح کے راستے میں نہیں آئے گی۔
اس موقع پر سپریم کورٹ نے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ صدر مملکت نے منحرف اراکین سے متعلق آرٹیکل63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔
سپریم کورٹ تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر آرٹیکل 63 اے پر رائے دے گی۔
ریفرنس کی گزشتہ سماعتوں میں اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل اور سیاسی جماعتوں کے وکلاء کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں۔