• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم جب کالج گئے تو طلبہ سیاست اپنے جوبن پر تھی۔ ضیاءالحق صاحب کا مارشل لابھی اگرچہ پوری قوت سے وطنِ عزیزکو اپنی گرفت میں لے چکاتھااور طلبہ یونین پر پابندی کے ساتھ سیاسی جماعتیں بھی کالعدم قراردیدی گئی تھیں،لیکن طلبہ، مزدور،کسان، وکلااورعوام مارشل لاکے خاتمے کے ساتھ ساتھ دلوں میں نظام کی تبدیلی کے آدرشوں کیلئے پوری طرح متحرک تھے۔ یہ دہائی سردجنگ کے زمانے کی فیصلہ کن دہائی ثابت ہوئی۔خطے میں بالخصوص سردجنگ کاآغاز دوسری جنگ عظیم کے بعد ہو چکا تھا، دنیا دوبلاکوں میں بٹی ہوئی تھی ایک کی قیادت برطانیہ کی جگہ لینےوالاعالمی سامراج امریکا کررہاتھا اور دوسرے کی قیادت سوویت یونین کے ہاتھوں میں تھی۔دونوں طاقتیں براہ راست ایک دوسرے کے سامنے آنے کی بجائے خطے کے ممالک کے ذریعے اپنے مفادات کی جنگ میں مصروف تھیں۔پاکستان اپنے قیام کے فوری بعدامریکی بلاک میں چلاگیاتھا۔ سرد جنگ کے اس زمانے میں ہی یہاں دو مکاتب فکرنمایاں ہوگئے تھے،ایک ترقی پسندکہلائے تو دوسرے کو رجعت پسندیابنیاد پرست کہاگیا۔ ترقی پسندجبر،جہالت، بھوک اور بیماری کے نمائندہ نظام کوبدلنے اور ملک میں امن، آزادی، عدل،مساوات اور خوش حالی پرمبنی بااصول نظام قائم کرنے کی اُمنگ رکھتے تھے،یہ وہ دورتھا جب ہر شے خالص ملتی تھی اس طرح سیاستی جماعتیں وطلبہ تنظیمیں بھی سچے جذبے کےساتھ ذہنی اُفق پرکشادہ نظریاتی خدوخال رکھتی تھیں۔دوسری طرف مذہبی یا خود کواسلامی کہنے والی جماعتیں بھی رائج نظام کی تبدیلی اور ملک میں خلافت یا اسلامی نظام نافذ کرنے کی باتیں کرتی تھیں۔اپنے اپنے نظریاتی مقاصدکیلئے دونوں کے سامنے انقلاب کا تصور تھا۔ آج کا روس جو اُس وقت سوویت یونین تھا، وہاں مارکس کے فلسفے کے تحت لینن کا اشتراکی نظام قائم تھا،یہ نظام عالمی سامراج سمیت پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ’’دنیاکے مزدورو ایک ہوجائو‘‘ کا نعرہ لے کرجب خطے کے ممالک میں اپنے اثرورسوخ کیلئے قدم اُٹھاتاتوجہاں امریکاان قدموں کے سدباب کیلئے سرگرم ہوتاوہاں وہ مذہبی عناصر جو آج اپنے تئیں خود کو امریکامخالف ظاہرکرنے میں لگے رہتے ہیں،دلچسپ طور پر وہ بھی سوویت یونین مخالف ہر وہ قدم اُٹھاتے جس کا فائدہ عالمی سامراج امریکاکو پہنچتا۔یہ سلسلہ 80کی دہائی تک جاری رہا،قیام پاکستان سےلیکر ضیاالحق کی آمد تک تمام حکمران وہ کچھ ہی کرتے رہے جو خطے میں امریکی پالیسی ہوتی۔اس دوران اگرچہ ذوالفقار علی بھٹوایک سوشلسٹ انقلابی کے طور پر اقتدار میں آئے لیکن اُن کے دورمیں کئے گئے اقدامات بھی امریکی مفادات کی تقویت کا باعث بنے، اس دور میں حقیقی ترقی پسندوں کو دیوار سے لگادیاگیا، یہاں تک کہ اُن کی اپنی جماعت کے ترقی پسند وں کو بھی راندہ درگاہ بنایاگیا۔ 80کی دہائی میں سوویت یونین نے افغانستان میں  مداخلت کی وہ فاش غلطی کی جس کی وجہ سے امریکاکو نہ صرف یہ کہ سوویت یونین سے ویت نام میں اپنی شکست کا بدلہ لینے کا موقع فراہم ہوابلکہ وہ واحد عالمی قوت بن کراُبھرا اور دنیا میں دو قوتوں کا تصورتہہ خاک ہوا۔سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کیلئے ایک سے زیادہ وجوہات وجواز موجود ہیں لیکن یہاں ہم اپنے موضوع کے حوالے سے صرف انچیدہ چیدہ واقعات کا ذکر کررہے ہیں جن سے ہماراموضو ع واضح ہوسکے۔ کہنایہ ہےکہ اس موقع پر نہ صرف وہ ایک جہاں جو امریکاکا ہمنوا تھا کھل کرامریکاکا ہمراہی بنا بلکہ پاکستانی حکومت کے ساتھ اُن مذہبی جماعتوں کا بھی نقاب اُتراجو اب تک درپردہ امریکی عزائم پورا کرنے کیلئے کارفرماتھیں، اسلامی نظام سے سچی کمٹمنٹ رکھنے والی تنظیمیں و شخصیات ان میں شامل نہیں، ہماراکہناازبس ان جماعتوں کے بارے میں ہے جنہوں نے سیاسی حمایت کے ساتھ اس جنگ میںامریکاکیلئے افرادی قوت کا انتظام وانصرام اپنے ہاتھ میں لیے رکھا،یہی وہ جماعتیں ہیں جوسوویت یونین کے 17ٹکڑے کرنے کاکریڈٹ کسی اور کو دینے کی روادار نہیں۔ قابلِ غور امر یہ ہے کہ جہاں سوویت یونین کے بکھرنےسے ترقی پسندوں کے انقلاب کے خواب بکھر کر رہ گئے وہاں اسلامی نظام کے داعی بھی اُس طرح فعال نہ رہ سکے جس طرح سرد جنگ کے زمانے میں وہ اسلامی انقلاب کیلئے نظرآتےتھے۔انقلاب نظام کہن کوعوامی آدرشوں کے سانچے میں بدلنے کا استعارہ ہے۔پاکستان ایسےانقلاب کا ہمیشہ سے متقاضی رہاہے جو استحصال، عدم مساوات، زور و جبر کا خاتمہ کرتے ہوئے یہاں کے پسے ہوئے طبقات کووہ حقوق دلوائے جویہاں کے بالادست طبقات نے غصب کررکھے ہیں،خواہ یہ انقلاب کس نام سے بھی آئے لیکن جیساکہ کہاگیاہے کہ سوویت یونین کے بکھرنےکے بعد سےجہاں ترقی پسندوں کے انقلاب کے خواب بکھر کر رہ گئے وہاں اسلامی نظام کے داعی بھی انقلاب کیلئے اُس طرح فعال نہیں جس طرح وہ سرد جنگ کے زمانے میں تھے۔

تازہ ترین