• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی سطح پر درپیش مختلف النوع چیلنجوں میں موسمی تبدیلیوں کے باعث گرمی کی شدت میں اضافے، پانی کی بڑھتی ہوئی قلت اور اس کے نتیجے میں زرعی فصلوں کے بری طرح متاثر ہونے کے خدشات نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔ اِس صورت حال نے ملک کے بڑے صوبوں سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کا تنازع بھی پیدا کردیا ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) حکام اس بارے میں حکومتِ سندھ کی شکایت سے اب تک متفق نہیں تھے تاہم وفاقی وزارت برائے آبی وسائل کی مشترکہ ٹیم نے گزشتہ ہفتے گڈو اور سکھر بیراجوں کی پیمائش کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تونسہ ڈاؤن اسٹریم اور گدو اپ اسٹریم کے درمیان پانی کا بہاؤ کم ہونے کا سندھ کا دعویٰ درست ہے۔ ٹیم کے ایک رکن کے بقول ارسا کے دعوے کے برعکس تونسہ بیراج سے چھوڑا جانے والا پانی سندھ کے گڈو بیراج میں نہیں پہنچ رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ تونسہ پر یا تو غلط رپورٹنگ کی جا رہی ہے یا پھر پنجاب میں پانی روکا جا رہا ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق رکن کا اشارہ تونسہ سے سندھ کے لیے چھوڑے جانے والے 60ہزار کیوسک پانی کی طرف تھا۔ معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پانی کا بہاؤ تونسہ اپ اسٹریم میں مستحکم اضافے کا باعث بنا لیکن سندھ میں قلت اضافہ ہوتا رہا کیونکہ گڈو اپ اسٹریم میں یہ بڑھتا ہوا رجحان نہیں دیکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے ارسا نے دعویٰ کیا تھا کہ سندھ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے تونسہ ڈاؤن اسٹریم میں پانی کی بہاؤ 67ہزار کیوسک تک بڑھا دیا گیا ہے اور پانی کی موجودگی کی صورتحال جلد ہی بہتر ہو جائے گی لیکن ایسا ہوا نہیں۔ سندھ کی شکایت کے درست ثابت ہوجانے کے بعد وفاقی حکومت کو بلاتاخیر اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔ موجودہ وفاقی حکومت میں پنجاب اور سندھ دونوں کی حکمراں جماعتیں شامل ہیں لہٰذا مسئلے کے منصفانہ حل میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہونی چاہئے۔

تازہ ترین