بھارت ہمارا پڑوسی ملک ہے، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پیارومحبت امن وسکون اور بغیر جنگ تنازعات کو طے کرنے کی پاکستانی قیادت کی کوششیں ہمیشہ جاری رہی ہیں، پاکستان نے بھارت کو جنگ نہ کرنے کے معاہدے کی پیش کش بھی کی، مگر بھارت کی طرف سے آج تک کوئی معقول جواب نہیں ملا جبکہ اس کی سیاسی سرگرم جماعتیں ہمیشہ خوف زدہ ہو کر بھارتی عوام میں جنگجویانہ جذبات پیداکرتی رہی ہیں اور خاص طور پر ہندوستان کی مسلم اقلیت ان کا نشانہ رہی ہے۔ آزادی کے بعد اس کے نصاب میں مسلم اور پاکستان دشمنی کے الفاظ واضح طور پر پڑھے جاسکتے ہیں، جبکہ پاکستان نے ہمیشہ اچھے ہمسائے کی طرح پر امن رہنے کی کوشش کی، ان دونوں ملکوں کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیں ۔ مگربھارت میں اب جو سیاسی جماعت برسراقتدار آئی ہے، اسکے منشور میںموجود ہےکہ وہ ہر قیمت پر ہندوستانی تقسیم کو ختم کرنا چاہتی ہے اور مسلمان اقلیت کے خلاف فضا کو ہروقت زہر آلود رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کا اظہار میڈیا کے ذریعے پوری دنیا اور عوامی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے جبکہ ہمارا رویہ پر امن پالیسی پر مبنی رہا ہے۔ ہماری حکومت نے جنگ نہ کرنے کی پیش کشیں کیں جسے کبھی بھی نہ قبول کیا گیا، جبکہ پاکستانی حکومت نے چین اور بھارت جنگ کے درمیان حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی، حقائق ، حقائق ہی ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا بہت سے مسائل دونوں ملکوں کے درمیان نصف صدی سے موجود ہیں۔ہندوستان نے ڈاکٹر گراہم کو ہندوستان کا ویزہ دینے سے بھی انکار کر دیا جسے اقوام متحدہ نے اپنا نمائندہ برائے کشمیر مقرر کیا تھا۔ اس مسئلےپر ہندوستان کی موجودہ حکومت کا سیاسی ونگ ہر قیمت پر بھارت میں مسلم اقلیت کے خلاف فضا کو گرم رکھنا چاہتا ہے۔ پھر یہ ماحول بابری مسجد سے لے کر بھارت کے فلمی مرکز تک قائم رکھا جارہا ہے ہندوستان کے میدانوں میں اور سڑکوں پر آر، ایس، ایس کے رضا کار پریڈ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،جنہیں ہندومسلم فسادات کے دوران استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ پاکستان میں اس قسم کا ایک بھی واقعہ نہیں ہوا ہے، اب تقسیم کے بعد جغرافیہ تبدیل کرنا بھارتی حکومت کی پالیسیوں کا مظہر ہے۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو شاید اس کا ادراک نہیں کہ بھارت کیاچاہتا ہے دو کروڑ آر ایس ایس کے مسلح رضا کار بھارت کے شہروں میں نظر آتے ہیں۔ یہ موجودہ حکومت کی عسکری تنظیم ہے جسے پاکستان کی سرحدوں کے خلاف بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے سیاست دان ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے میں مصروف ہیں انہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ تاریخ کا پہیہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کرنیوالا ہے، ہندوستانی سیاستدانوں کے دماغ میں ایک بات بسی ہوئی ہےجو کسی طرح بھی پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش میں بنگلہ دیشی رہنماؤں کو پھانسی دینے کا عمل جاری ہے۔ بنگلہ دیش بننے کے کچھ عرصہ بعد وہاں کے طالبعلم رہنمائوں کا ایک وفد ہمارے یہاں آیا جو مجھ سے بھی ملا ۔ لیکن اس وفد کو ہمارے سیاستدانوں نے کوئی اہمیت نہیں دی اور اسے پذیرائی نہ ملی۔ مگر ہندوستان حکومت ان کی حرکات پر نگاہ رکھے ہوئے تھی اس لئے ان رہنمائوں کو پھانسی چڑھا دیا گیا جس پر سیاسی طور پر کوئی احتجاج بھی نہیں کیا گیا۔ ہندوستان کی پالیسی یہ ہے کہ ہر اس شخص کو سین سے ہٹا دیا جائے جو پاکستان کی بات کرتا ہو، حالانکہ ہمیں سرکاری طور پر ان رہنمائوں کی پھانسیوں کے خلاف شدید احتجاج کرنا چاہئے ہمیں بھارتی حکومت کے عزائم روکنا ہیں۔ ہمیں اپنے بنگلہ دیشی بھائیوں کی سپورٹ بین الاقوامی سطح پر بھی کرنی چاہئے تھی مگر ہم خاموش رہے۔ رموز مملکت تو صرف حکمراں ہی جانتے ہیں ہم جیسے سادہ لوح لوگوں کو شاید معلوم نہ ہو کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے تھا۔